قرنطینہ ۔ کچھ تازہ واردات ۔اشعار ۔قرنطین

[
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے

وہ خطا کیا ہے
یہ جملہ درست نہیں کیونکہ اپنی غلطی کے بارے میں سوال قائم کرنا جری ہونے پر دلالت کرتا ہے،
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے ، وہ خطا کیا ہے
علامہ اقبالؒ
 
[
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے

وہ خطا کیا ہے
یہ جملہ درست نہیں کیونکہ اپنی غلطی کے بارے میں سوال قائم کرنا جری ہونے پر دلالت کرتا ہے،
یہ کسی غزل کا مکمل مضمون نہیں بلکہ ایک مسلسل نظم کا شعر ہے جس کا اگلا شعر پیشِ خدمت ہے

جو نشہء ِلذاتِ جہاں میں ہوا بدمست
اک شورش ِ پیہم میں گرفتار ہوا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
گزشتہ شب کی بے چینی و بےخوابی ان اشعار کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔

۔عنوان قرنطین ۔

مدت ہوئی اک حشر سا عالم میں بپا ہے
اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے

زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے

جو نشہء ِلذاتِ جہاں میں ہوا بدمست
اک شورش ِ پیہم میں گرفتار ہوا ہے

گھر گھر جو ہوا صورت زندان ، قرنطین
اندوہِ فراواں کا اک انبار لگا ہے

ہر شہر کی گلیوں میں ہے سناٹوں کا عفریت
ویران طلسمات کا ایک روگ لگا ہے

طاری ہے مسیحاؤں میں بھی خوف جہاں کے
اس رات کا ہر تارہ ہی بے نور و ضیا ہے

تاراج دساتیر ہیں قربِ دل و جاں کے
انسان ہی انسان سے اب دور کھڑا ہے

اے کاشفِ غم کھول دے یہ بند وگرنہ
اٹھے گا نہیں سر جو یہ سجدے میں پڑا ہے

آشفتہ ؤ پژمردہ ؤ آزردہ ہے عاطف
یہ بیکس و بیچارے کی مجبور صدا ہے
---
سید عاطف علی ۔ 12 اپریل 2020​
عمدہ ، حسب حال غزل ہے سید صاحب محترم۔
 
Top