:::::: قران کی حفاظت :::::::

:::::: قران کی حفاظت :::::::

أعوذ ُ باللہِ السَّمیعِ العَیلمِ مِن الشِّیطٰنِ الرَّجیم و مِن ھَمزہِ و نَفخِہِ و نَفثہ،

قران الکریم دوسری آسمانی کتابوں سے سب سے بلند اور ممتاز اس سبب سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا خود ذمہ لیا ہے ، اور اس کا وعدہ فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ((((( إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ))))) سورت الحجر/آیت9،
اللہ تعالیٰ نے قران کو اس بات سے محفوظ فرما دیا کہ اس میں کچھ بڑھایا جاسکے یا کچھ کم کیا جا سکے ، اور اگر اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے قُران کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو اس میں بھی تحریف اور تبدیلی کا وہی حال ہوتا جو سابقہ آسمانی کتابوں کا ہوا ، کیونکہ سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے انہی لوگوں کو سونپی تھی جن کی طرف اللہ نے وہ کتابیں اتاری تھیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ((((( إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَابِ اللّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَاء فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ::: بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی ہے جس کے ذریعے اللہ پر ایمان لانے والے انبیاء ، اہل اللہ اور عُلماءیہودیوں کے لیے فیصلے کیا کرتے تھے ، کیونکہ انہیں اللہ کی کتاب کی حفاظت کا حُکم دیا گیا تھا ، اور وہ اس پر (اقرار کرتے ہوئے)گواہ تھے ، لہذا (اے یہودیو)تم لوگ ، لوگوں سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت مت کرو، اور جو اللہ کے نازل کردہ (احکام اور ہدایات)کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کافر ہیں))))) سورت المائدة/ آیت 44 ،
قران الکریم کو اس عظیم خوبی کے ذریعے دوسری آسمانی کتابوں سے بُلند اور ممتاز کرنے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ یہ آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے ، آسمانی کتابوں کے سلسلے کو ختم کرنے والی ہے ،
لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے ایسے اسباب تیار اور مہیا فرمائے جو اس کے علاوہ کسی بھی اور کتاب کے لیے میسر نہیں تھے اور نہ ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں ، ان شاء اللہ ،
::::::: اِن اسباب میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا قران کولکھا ہوا جمع کرنا تھا ،
::::::: اور اِن اسباب میں سے یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تیسرے بلا فصل خلیفہ عُثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ ُ کا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی رضا مندی سے قُران کو ایک کتاب کی صورت میں ثابت شدہ قرأٔتوں کے مطابق جمع فرمایا ، اور پھر اس کے نسخے لکھوا کر تمام ملکوں میں روانہ فرمائے ،اور اس کے علاوہ قُران کے جو بھی لکھے ہوئے حصے تھے انہوں جلوایا دیا تا کہ کسی پریشانی اور اختلاف کا باعث نہ بنیں ،
::::::: اوراِن اسباب میں سے سب سے بڑا اور معجزاتی سبب قُران کو زبانی یاد کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس محیر العقول کام کو مسلمانوں کے لیے اس قدر آسان فرما دیا کہ تاریخ میں کسی قوم کا کسی کلام کی اتنی بڑی تعداد کو حرف بہ حرف تو کیا ایک ایک زیر و زبر کی مطابقت کے ساتھ یاد کرنے کی کوئی مثال نہیں ۔ بلکہ ایسی کسی کوشش کی بھی کوئی مثال نہیں ، بلکہ ایسا کرنے کی سوچ کی بھی کوئی مثال نہیں ،
پس قُران کریم کو یاد کرنے والوں میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ، چھوٹے بڑے ، جوان بوڑھے ، عورت مرد ، عربی عجمی ، کالے گورے ، پیلے سُرخ ہر قسم کے مسلمان اس کو یاد کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس کلام کو سب کے لیے آسان فرما دیا ہے اور اس کی خبر بھی فرمائی ہے ((((( وَلَقَدْ يَسَّرنَا الْقُرآنَ لِلذِّكرِ فَهَل مِن مُدَّكِرٍ ::: اور یقیناً ہم نے قران کو آسان فرما دیا ہے تو ہے کوئی نصحیت پانے اور یاد کرنے والا ))))) سورت القمر/ آیت17. ::::::: قران کریم کی حفاظت کے اس معجزاتی سبب اور طریقے کے ذریعے ہمیں بہت سے گواہ اور ثبوت ملتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرما چکا ہے ، یہ واقعہ ہی دیکھیے :::
ایک دفعہ ایک یہودی مامون الرشید کے دربار میں حاضر ہوا اور مامون کے سامنے کچھ گفتگو کی جو بہت ہی بہترین انداز میں تھی ، اس کے انداز کلام اور علم کو دیکھ کر مامون بہت متاثر ہوا اور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اسے مال و عطاء کی رغبت بھی دلائی ، لیکن وہ یہودی یہ کہہ کر چلا گیا کہ """میرے باپ دادا کا دین ہی میرا دین ہے """ ، پھر اگلے سال یہی یہودی مامون الرشید کے دربار میں آیا اور فقہ کے بارے میں بہت اچھے انداز میں بات کی ، مامون نے اس کی باتیں سن کر کہا """ کیا تُم وہی نہیں ہو ؟ """ یعنی وہی جسے میں نے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور اُس نےقبول نہیں کی تھی ،
اس نے کہا """ جی ہاں میں وہی ہوں """
مامون نے کہا """ تو پھر(میری دعوت چھوڑ کر اس کے بعد )تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا بنا ؟ """
اُس نے کہا """ میں آپ کے پاس سے نکلا تو میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں ان ادیان (تینوں دین) کا امتحان کروں ، آپ جانتے ہیں کہ میری لکھائی بہت اچھی ہے ، لہذا میں نے یہاں سے جانے کے بعد سب سے پہلے تورات کے تین نسخے لکھے اور اُن میں کمی اور زیادتی کی ، پھر انہیں لے کر گرجا میں گیا اور سب نسخے فروخت کر دیے ،
اس کے بعد میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کی اور پھر انہیں لے کر بیعۃ (یہودیوں کی عبادت گاہ) میں گیا اور وہ سب نسخے فروخت کر دیے ،
اس کے بعد میں نے قران کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کی اور پھر اسے کچھ مسلمانوں کے پاس لے گیا تو انہوں نے ان نسخوں کو لےکر دیکھنا اور پڑھنا شروع کیا اور تھوڑی بعد انہوں نے وہ نسخے خریدنے کی بجائے مجھے مارنے کے لیے پکڑ لیا ، کیونکہ انہوں نے ان نسخوں میں میری طرف سے کی گئی کمی اور زیادتی کو فوراً ہی پکڑ لیا تھا ، اس طرح مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ یہی کتاب محفوظ ہے اور یہی اس دِین کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ، لہذا میں نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمان ہو گیا ،
یہ واقعہ اور اس طرح کے کئی واقعات قران حکیم کے محفوظ رہنے کی ایک مستقل حسی دلیل ہیں جن سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، پس جو کوئی قران کریم میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی واقع ہو جانے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہی نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر جُھوٹ باندھنے والا ہے اور اللہ کے فرمان کا منکر یعنی کافر ہے ،
اللہ کے آخری اور حتمی دِین کی دو میں ایک بنیادی اساس قران کریم کی لفظی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لیا اور اللہ تعالی سے بڑھ کر اور کوئی سچا نہیں ، اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا نہیں ،
اسلام کے دشمنوں نے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے نہ کوئی کمی کر کے اور نہ کوئی زیادتی کر کے ، تو انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ، اور ہیں ،
قران کو سمجھنے کے لیے اپنی اپنی عقل اور رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال رائج کیا گیا ،ا ور ان کا سب سے پہلا زہریلا پھل یہ نکلا کہ قران کو سمجھنے کا سب سے پہلا ، بنیادی ترین اور درست ترین ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ،فعلی اور تقریری سُنّت مبارکہ کو قران کے مقابل بنایا گیا اوراُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرنے کی کوشش کے ذریعے یہ کج روی سُجھائی جانےلگی کہ وہ اپنی سوچ و فکر کی بنا پر سُنّت کو رد یا قبول کرتا رہے ،
پس ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد جانتے ہوں ، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ، لیکن یہ بھول جاتے ہیں
((((( إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ))))) میں کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہر دور میں اپنے اِیمان والے بندوں میں سے ایسے بندے ظاہر فرماتا رہتا ہے جو اللہ کے کلام کی اس معنوی تحریف کے دجل کو بھی ظاہر کر کے باطل کرتے رہتے ہیں ، اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس آخری کتاب اور اس میں موجود اپنے احکامات کو محفوظ رکھے گا ،
((((( يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ::: چاہتے ہیں کہ اپنے منہوں (کی پھونکیں ) سے اللہ کی روشنی بُجھا دیں اور اللہ انکار کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنی روشنی مکمل کر کے ہی رہے گا بے شک کافر جتنا بھی نا خوش ہوں ))))) سورت التوبہ / آیت 32 ۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو کافروں کی ہر چال سے محفوظ رکھے اورہر شر سے محفوظ رکھے ۔
.........................................
برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
قرآن کریم کتاب محفوظ ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود کر دیا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے " بے شک ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" ( سورۂ حجر 15 : 9 ) یہ اس باب میں آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ آیت ہی کافی ہے ، لیکن تار یخی حقائق بھی اس بات کی تائید ہی کرتے ہیں کہ قرآن کریم جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، ٹھیک اسی طرح آج بھی ہمارے پاس موجود ہے ۔اس سلسلے میں جن روایتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔

ابن ماجہ کی روایت
" ''ام المومنین عائشہ سے روایت ہے رجم کی آیت اور بڑ ے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری تھی اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے موجود تھیں ۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے تو گھر کی پلی ہوئی بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔ (سنن ابن ماجہ ، رقم 1944، کتاب النکاح)

یہ روایت معمولی فرق کے ساتھ مسند احمد ( 26359) مسند ابی یعلی ( 4588 ) اور طبرانی کی المعجم الاوسط (7805) میں بھی نقل ہوئی ہے۔ اس روایت کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے اور سند میں موجود ایک راوی محمد ابن اسحاق کی بنا پر اسے منکر قرار دیا ہے۔ تاہم یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ہو تب بھی اس کا متن پکار پکار کر یہ بتا رہا ہے کہ اس کی نسبت سیدہ عائشہ سے درست نہیں ہے۔ پروردگارِ عالم ایک طرف قرآن کی حفاظت کا دعوی فرماتا ہے اور دوسری طرف وہ معاذ اللہ ایک بکری کو آیات الہی چرنے سے نہ روک پائے ، یہ بات خلاف عقل ، خلاف نقل اور خلاف واقعہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم نازل ہونے کے بعد صرف ایک دو لوگوں تک محدود نہیں رہا کرتا تھا کہ اگر وہ بھول گئے یا لکھے ہوئے مصحف کو ضائع کر بیٹھے تو قرآ ن کریم کی آیات ہی ضائع ہو جاتیں۔ قرآنی آیات جب نازل ہوتیں تو ان کا مقصد نزول ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ لوگوں تک پہنچیں ، لوگ انہیں یاد رکھیں اور آگے پھیلائیں۔ان گنت لوگ تھے جو قرآن کی ہر آیت کو زبانی حفظ کر لیتے تھے۔ اسے لکھ لیا جاتا تھا اور اسے آگے پھیلایا جاتا تھا۔ یہ کوئی انسانی عمل نہ تھا بلکہ اللہ تعالی کی اپنی نگرانی میں کیا جانے والا کام تھا۔ قرآن کریم کے اپنے بیانات کے حوالے سے اس عمل کی تفصیلات اس طرح بیان ہوئی ہیں :
''اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
'عنقریب (اِسے ) ہم (پورا) تمھیں پڑ ھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے ، مگر وہی جو اللہ چاہے گا ۔ وہ بے شک ، جانتا ہے اُس کو بھی جو اِس وقت (تمھارے) سامنے ہے اور اُسے بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے ۔' ( الاعلیٰ 87: 6-7)
'اِس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے ، (اے پیغمبر ) ، اپنی زبان کو اِس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اِس کو جمع کرنا اور سنانا ، یہ سب ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اِس لیے جب ہم اِس کو پڑ ھ چکیں تو (ہماری) اُس قراءت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اِس کی وضاحت کر دیں ۔' (القیامہ 75: 16-19)

اِن آیتوں میں قرآن کے نزول اور اُس کی ترتیب و تدوین سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ کار وضع کیا ہے ، وہ یہ ہے ۔

اولاً ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑ ا تھوڑ ا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے ، اِس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے ، لیکن اِس سے آپ کو اِس کی حفاظت اور جمع و ترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ۔اِس کی جو قرات اِس کے زمانۂ نزول میں اِس وقت کی جا رہی ہے ، اِس کے بعد اِس کی ایک دوسری قرات ہو گی۔ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اِس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں گے تو اُسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اِس طرح پڑ ھا دیں گے کہ اِس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ثانیاً ، آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ دوسری قرات قرآن کو جمع کر کے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دینے کے بعد کی جائے گی اور اِس کے ساتھ ہی آپ اِس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ آیندہ اِسی قراءت کی پیروی کریں ۔ اِس کے بعد اِس سے پہلے کی قرات کے مطابق اِس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہو گا ۔

ثالثاً ، یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح و وضاحت کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی اِس موقع پر کر دی جائے گی اور اِس طرح یہ کتاب خود اِس کے نازل کرنے والے ہی کی طرف سے جمع و ترتیب اور تفہیم و تبیین کے بعد ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گی۔

قرآن کی یہی آخری قرات ہے جسے اصطلاح میں ''عرضۂ اخیرہ '' کی قرات کہا جاتا ہے ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل امین ہر سال جتنا قرآن نازل ہو جاتا تھا ، رمضان کے مہینے میں اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخری سال میں ، جب یہ عرضۂ اخیرہ کی قرات ہوئی تو اُنھوں نے اِسے دو مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنایا ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
'رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک مرتبہ قرآن پڑ ھ کر سنایا جاتا تھا ، لیکن آپ کی وفات کے سال یہ دو مرتبہ آپ کو سنایا گیا۔' (بخاری ، رقم 8994) '' ، (میزان:27-28 )

لہذا یہ اعتراض اور جسارت ہی ناقابل فہم اور ناقابلِ یقین ہے کہ بکری قرآن کے کسی جز کو کھا گئی ہے ۔ یا قرآن کا یہ حصہ ضائع ہوگیا ہے ۔
 
Top