قران کیا کہتا ہےِ؟

کیا عورت کی گواہی آدھی ہے؟

اللہ تعالی کے فرمان مبارک ، جو رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا ، قرآن حکیم کے مطابق آپ اللہ تعالی کے شہادت یعنی گواہی کے اصول کا معائنہ فرمائیے۔

دنیا‌کے تمام معاشروں اور ملکوں جس میں‌اسلامی معاشرہ بھی شامل ہے ، ہمیشہ سے دو بنیادی قسم کے قوانین بنائے جاتے رہے ہیں اور دو قسم کی عدالتیں قائم ہیں ۔۔ ایک تعزیراتی عدالتیں اور دوسری دیوانی عدالتیں ۔ یعنی کرمنل اور سول کورٹس۔ دنیا بھر میں پینل کوڈ یعنی تعزیراتی قوانین اور سول کوڈ یعنی دیوانی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ پینل کوڈ ، یعنی تعزیراتی قوانین جرائم اور ان کی سزاؤں کے لئے بنائے جاتے ہیں اور سول کوڈ یعنی دیوانی قوانین باہمی معاملات کے لئے بنائے جاتے ہیں، کسی بھی ملک کے تمام اہم تر معاملات کے لئے پہلے سے قوانین لکھے جاتے ہیں۔ ان قوانین کی بنیاد پر ایک تیسرے قانون کی پذیرائی کی جاتی ہے وہ ہے ---- معاہداتی معاملات ----

ان تمام قسموں کے قوانین کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت گواہی کی ہے کہ کس معاملے میں کتنے گواہوں کی ضرورت ہے، مجرمانہ معاملات جن کی سزا بڑی ہو، ان کا فیصلہ عینی گواہوں کی گواہی پر کیا جاتا ہے نا کہ سنی سنائی خبروں پر۔

اللہ تعالی نے تینوں‌قسم ( تعزیری، دیوانی اور معاہداتی) کے قوانین کے لئے شہادت یعنی گواہی کے اصول فراہم کئے۔ غور فرمائیے۔ تمام تراجم پہلے سے شائع شدہ تراجم ہیں۔ آپ اپنی پسند کا ترجمہ استعمال کرسکتے ہیں۔

1۔ تعزیراتی یا کرمنل معاملات کی گواہی۔
زیادہ اہم تعزیری یعنی کرمنل معاملات کے لئے اللہ تعالی نے زیادہ یعنی چار گواہوں تک کا حکم دیا۔ دیکھئے​

سورۃ النسآء:3 , آیت:15
وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً
اور جو ارتکاب کریں بدکاری کا تمہاری عورتوں میں سے تو
گواہی لاؤ اُن پر چار (افراد) کی
اپنوں میں سے۔ پھر اگر گواہی دے دیں وہ تو قید رکھو ان عورتوں کو گھروں میں حتّٰی کہ آجائے اُنہیں موت یا نکالے اللہ ان عورتوں کے لیے کوئی اور سبیل۔​

سورۃ النور:23 , آیت:4
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں
پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں
تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں​

سورۃ النور:23 , آیت:13
لَوْلَا جَاؤُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلَئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ
یہ (افترا پرداز لوگ) اس (طوفان) پر
چار گواہ کیوں نہ لائے،
پھر جب وہ گواہ نہیں لا سکے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں​

کیا ان آیات میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی گواہی نظر آتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر غور فرمائیے قرآن پر۔​


دیوانی یا سول معاملات، جیسے طلاق ، وفات وغیرہ کی گواہی دیکھئے:
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:106
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے
تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی (کے لئے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں یا تمہارے غیروں میں سے (کوئی) دوسرے دو شخص ہوں اگر تم ملک میں سفر کر رہے ہو پھر (اسی حال میں) تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو،
اگر تمہیں (ان پر) شک گزرے تو وہ دونوں اللہ کی قَسمیں کھائیں کہ ہم اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ ہم اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) ہم اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے​

کیا یہاں دو مردوں اور چار عورتوں‌کی گواہی نظر آتی ہے؟ نہیں تو پھر قرآن حکیم پر غور فرمائیے۔​

سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:107
فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يِقُومَانُ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ
وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے
(وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) پھر وہ اللہ کی قَسم کھائیں کہ بیشک ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم (حق سے) تجاوز نہیں کر رہے، (اگر ایسا کریں تو) ہم اسی وقت ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔​

سورۃ النسآء:3 , آیت:35
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو
تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو،
اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے​


پھر دیکھئے کہ کیا ان آیات میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی گواہی کا حکم دیا جارہا ہے؟ اگر نہیں‌تو پھر قرآن پر غور فرمائیے۔​


اب تک ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ معاملات جو پہلے ہی وقع پذیر ہوچکے ہیں اور ان کی نوعیت تعزیراتی یا دیوانی نوعیت کی ہے تو ایسے معاملات میں‌گواہوں کا تعین کرنے کے لئے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں اللہ تعالی نے نہیں رکھا ہے۔

تعزیراتی اور دیوانی
(‌کرمنل اور سول)‌ معاملات میں اب دیکھئے مستقبل کے سودے یا قرض‌جیسے
معاہداتی معاملات

سورۃ البقرۃ:1 , آیت:282
اے ایمان والو!
جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو،
اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے،
اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو
سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو،
اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے​


یہاں آپ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں
معاملہ:
جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو،
کتنے گواہ:
پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو
مقصد دو عورتوں کا:
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں،
دست بدست کی صورت میں :
سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں،

فرخ نے کہا:
اب اپ میرے ایک سوال کا جواب دیں:
دو خواتین کی گواہی کی صورت میں اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ ایک مرد گواہ بھول نہیں سکتا یا غلطی نہیں کرسکتا؟ کہ اگر وہ بھول گیا تو پھر اُسے کون یاد کروائے گایا اگر وہ غلطی کر گیا تو اُس کی تصحیح کون کروائے گا؟ ظاہر ہے اس صورت میں ان عورتوں میں سے ہی کوئی ایک یا دونوں اسکی تصحیح کروا سکیں گی نا؟ یہ بات شائیدقرآن نے زیر بحث نہیں کی یہاں۔
حالانکہ مالی معاملات میں قرآن میں (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282) ایسے معاملات کو لکھ لینے کا اور گواہ کر لینے کا حکم موجود ہے اور اگر معاملے کے اصول و ضوابط (شرائط وغیرہ) لکھی گئیں ہوں، تو پھر خواتین کے بھولنے سے شائید کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے تھا نا؟ مگر پھر بھی مرد نہ ملنے کی صورت میں دو خواتین کا حُکم؟ ایک کیوں نہیں؟بھول تو مرد بھی سکتا ہے؟

جواب: مرد بھی بھول سکتا ہے اور عورت بھی بھول سکتی ہے۔ اسی طرح مرد بھی مر سکتا ہے اور عورت بھی مر سکتی ہے۔ یا پھر ان کا دماغ کا کچھ حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس نکتہ کی کسی بھی قانون میں یا قرآنی قانون میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے کے ---- مستقبل کے سودے کی دستاویز موجود ہے --- گواہوں کی عدم موجودگی میں جج اس بات کا تصفیہ کرتا ہے کہ معاہدے کے کن نکات پر آپس میں ڈسپیوٹ یعنی اختلاف ہے۔ اس کا فیصلہ پھر جج کرتا ہے۔ گواہان کی عدم موجودگی۔ یہ ایک بالکل مختلف صورتحال ہے ۔ یہاں صرف اس نکتہ کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اگر ایک گواہ عورت جو بھولی نہیں ہے (‌جو کہ عموماً لالچ اور دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے) اس کو دوسری عورت یاد دلادے کہ ارے تم اس بات کی گواہ تھیں۔

معاہداتی قانون کی صورت میں ؛ ایک قرضہ یا مستقبل کے سودے میں جس میں‌ اصل تجارت بعد میں وقوع پذیر ہوگی۔ باقاعدہ معاہدہ کا لکھا جانا اور گواہان کے تعین کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس معاملے میں مردوں کی طرف سے ممکنہ اختلاف یا بے ایمانی ، یا عورتوں پر ممکنہ زور زبردستی کا سد باب کرنے کے لئے دو عدد محترم خواتین کو نگراں‌ بنایا گیا ہے۔ واضح مقصد اس حکم کا یہ ہے کہ ایک خاتون پر ہونے والی ممکنہ زبردستی یا دباؤ کا سد باب کیا جائے۔ دیوانی اور تعزیراتی معاملہ کی طرح معاہداتی معاملہ میں بھی ایک عورت کی گواہی، ایک مرد کے برابر تصور کی جائے گی ۔ جب تک کہ وہ عورت بھول نہ جائے، جب وہ بھول جاتی ہے ، تو دوسری عورت اس بات کو یاد دلا سکے گی۔

تو کیا وجہ ہے کہ ایسا سوچا جائے کہ عورت کی گواہی آدھی ہے؟ یا عورت کا مقام آدھا ہے؟

والسلام

 
آخری تدوین:
کیا عورت اور مرد کا درجہ مساوی ہے؟
کیا عورت حاکم ہوسکتی ہے؟
کیا عورت کو تعلیم کا حق ہے ؟
کیا عورت اور مرد کی تعلیم میں فرق ہونا چاہئے؟
آپ کو ایسے مباحثہ عام طور پر مل جائیں گے جس میں لوگ چند نکات کو بنیاد بنا کر خواتین کی کھلے عام تضحیک کرتے ہیں ۔ یہ نکات عام طور پر اس طرح ہیں۔
1۔ عورت کی گواہی آدھی ہے
2۔ عورت کا جائیداد میں اآدھا حصہ ہے
3۔ عورتوں کو تعلیم دینے کی ممانعت ہے
4۔ عورت حاکم نہیں ہوسکتی ،
5۔ عورت کی ذمہ داری صرف گھر ہے ، اس لئے عورتوں کو بس امور خانہ داری کی تعلیم تک محدود رکھنا چاہئے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ان معاملات میں اللہ تعالی کا فرمان ، رسول اکرم کی زبان مبارک سے ادا ہوا ، قرآن حکیم کیا کہتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا کہ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں مجلس شوری یعنی پارلیمنٹ، کانگریس یا قومی اسمبلی جیسے ادارے ملک و قوم کے فیصلے باہمی مشورے سے کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں-

سورۃ شوریٰ آیت 38
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

اللہ تعالی کا حکم ہے کہ نیک کاموں کی تلقین اور بری باتوں سے روکنے کے لئے ایک جماعت ہو جو قانون سازی کرے:
سورۃ العمران آیت 104
اور
تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں قانون سازی کے لئے ادارے ، اسمبلیاں ، کانگریس اور پارلیمنٹ قائم ہیں جن کا بنیاد مقصد ایسے قوانین باہمی مشورے سے بنانا ہے جو بری باتوں سے روکتے ہیں اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے حاکموں اور قانون سازوں میں عورتوں کا کیا درجہ اور مقام دیا ہے ؟

سورۃ التوبہ آیت نمبر 71:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں کہ بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں، یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے
قانون ساز اسمبلی یا حاکمیت میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے برابر کے رفیق ہے تاکہ نیکی کا حکم دیں اور بدی سے روکیں۔ یہ مقام مساوی ہے ، جس کے لئے بہترین تعلیم یافتہ مرد و عورت درکار ہیں۔

اللہ تعالی نے معاشرہ میں عورتوں اور مردوں کو ایک مساوی مقام عطا کیا ہے۔ دیکھئے​
سورۃ الاحزاب:32 , آیت:35​
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے

قرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض‌ ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔​

سورۃ الاحزاب:32 , آیت:58​
اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا

جب خوتین و حضرات مل کر کام کریں گے تو کیا ہوگا؟ اللہ تعالی کی پیشین گوئی آخرت کے بارے میں
سورۃ الحديد:56 , آیت:12​
جس دن آپ مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

سورۃ النسآء:3 , آیت:124​
اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے​

اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:​
سورۃ آل عمران:2 , آیت:195​
پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے​

مرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔​
سورۃ غافر / المؤمن:39 , آیت:40​
جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا​

جنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تل۔فی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔​
سورۃ النسآء:3 , آیت:124​
اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گی​


ان آیات سے بآسانی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عورتوں کا درجہ معاشرے میں مساوی ہے، یہ اعلی ترین عہدے یعنی قانون سازی اور حاکمیت میں مردوں کی برابر کی رفیق ہیں ، بہترین تعلیم کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتے اس لئے بہترین تعلیم خواتین و حضرات کا مساوی حق ہے ۔

والسلام
 
Top