قراة العین(اشفاق احمد) (فنی فکری تجزیہ ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
فنی تجزیہ:۔

کردار نگاری:۔

فنی لحاظ سے ڈرامہ قراة العین اختر ، اجالا ، ابو ، نصیر جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔ جن میں اختر اور اجالا اس ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں۔ اس لئے کہ سارا ڈرامہ انہی کرداروں کو محور بنا کر گھومتا ہے۔ اجالا اور اختر دونوں ہی برابر کے کردار ہیں۔ اس ڈرامے میں اختر جتنا متحرک اور پیش پیش نظرآتا ہے۔ اجالا بھی اتنی ہی متحرک نظرآتی ہے۔

اختر:۔

اختر کا کردار کہانی نگار نے بڑی توجہ اور چابکدستی کے ساتھ تراشا ہے۔ جس میں ڈرامائی فنکاری و پرکاری کے تمام تر اصول نمایاں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اشفاق احمد نے فن کردار نگاری کے تمام تر اصولوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ نبھاتے ہوئے ڈرامے کے مرکزی کردار اختر کو تراشا ہے۔ ڈرامہ نگار نے کردار نگاری کرتے وقت مرکزی کردار وں کی تمام تر نفسیاتی کیفیات کو بھی پےش نظررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اختر کے کردار میں اس کے ظاہر و باطن اور نفسیاتی کیفیاتی و جذبات کی تمام تر جھلکیاں صاف طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ وہ ایک لااُبالی اور اپنی دھن کا پکا نوجوان ہے۔ جو اپنے والد سے بھی انتہائی بے تکلف ہے۔ اس لئے ابو بھی اُسے اپنا دوست سمجھتے ہیں او ر اس کے ساتھ ایک رازدار دوست جیسا سلوک کرتا ہے۔ اختر اجالا سے زیادہ ہوابازی اور ہوا پیمائوں سے عشق کرتا ہے۔
ڈرامہ نگار نے اختر کی کردار نگاری کرتے ہوئے اس کے ذوق وشوق کو خوب اجاگر کیا ہے۔ کہ اُجالا کی موجودگی میں بھی جب اختر آسمان میں کہیں ہوائی جہاز کی آواز سن لیتا ہے تو وہ اجالا کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اور آسمان میں ہوائی جہاز ڈھونڈنے لگتا ہے۔ ڈرامہ نگار نے اختر کی شخصیت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کا ظاہری و باطنی سراپا بھی ہمارے سامنے کھل کر نمایاں ہو جاتا ہے۔ ڈرامہ نگارنے اختر کی شخصیت میں رونما ہونے والی بعد کی توڑ پھوڑ یا شکست و ریخت کو اشارتاً جھلکیوں کے طور پر ڈرامے کے آغاز ہی میں ابو کی زبانی ظاہر کر دیا ہے۔ ویسے تو ابو کی یہ بات کہ کسی مقصد سے اتنا لگائو مت رکھو کہ ناکامی کی صورت میں شکست و ریخت کا شکار ہو کر منکے وغیرہ اکھٹے کرتے رہو ۔ ایک وقتی بات معلوم ہوتی ہے لیکن صاف ظاہر ہے کہ بعد میں ابو کی یہی بات پتھر پر لکیر بن کر ثابت ہوتی ہے۔ اور اختر واقعی منکے ہی اکھٹے کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ڈرامہ نگار نے اختر کی شخصیت کو اس انداز میں اجاگر کر دیا ہے کہ اس کردار کا ہر پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔
اختر کی شخصیت میں صبر ، ایثار ، اور دلیری بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ اپنی بصارت کا راز والد اور اجالا سے چھپائے رکھتا ہے تاکہ اُن کے دل کو صدمہ نہ پہنچے۔ ڈاکٹر کے انکشاف کے بعد اسے نہ صرف اپنا مستقبل بلکہ ساری کائنات تاریک دکھائی دیتی ہے۔ ڈرامہ نگار نے اس مقام پر بھی اختر کے کردار کا نفسیاتی اور جذباتی تجزیہ پیش کیا ہے اس غمگین و اندوناک انکشاف کے بعد ردعمل کے طور پر بہت زیادہ خوش دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ اختر کا والد اس بات کو محسوس کرتے ہوئے انتہائی خطرناک قرار دیتا ہے۔ اختر کو معلوم ہوگیاکہ کچھ عرصہ بعد وہ اپنی ظاہر کی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھ سکے گا تو اپنی حسرت و ارمان پورا کرنے کی خاطر نفسیاتی طور پر کبھی گھوڑے پر سوار تیراندازی کرنے لگتا ہے ۔ کبھی آنکھیں بند کرکے پھولوں پر انگلیاں پھیرتا ہے کہ بصارت چلے جانے کے بعد یہ پھول کس طرح محسوس ہوں گے۔ یہاں تک کہ جب اجالا اچانک کمرے کے اندر داخل ہوتی ہے تو اختر یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ کسی دوست کو خط لکھ رہاتھا۔ لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ خط نہیں لکھ رہا تھا بلکہ کاغذ پرآنکھوں کی تصویر بنا رہاتھا۔ نفسیاتی محرومی کی یہ انتہائی کیفیت ڈارمہ نگارنے اختر کی شخصیت میں اس طرح سموئی ہے کہ پڑھنے کے بعد قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ اس مقام پر اخترایثار اور قربانی کے تحت اجالا کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ یہ خط قراة العین نامی لڑکی کو لکھ رہا تھا تاکہ بچھڑنے کے سے پہلے ہی اجالا اس سے متنفر ہو جائے اور جدائی کے عالم میں اجالا کو تکلیف نہ ہو۔ گویا کہ اختر کسی صورت میں اجالا کو کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔ اور وہ چپکے سے غائب ہو جانے پر مجبور ہے۔ ٹھیک ہے کہ اس طرح اس کے والد کو انتہائی دکھ ہوتا ہے لیکن شائد اختر کے نزدیک جدائی کا دکھ اس انکشاف سے کم ہے کہ اختر نابینا ہو گیا ہے۔ بہرحال یہ وہ تابندہ و درخشندہ ستارہ ہے جس کے دل کی آنکھ منور ہو جاتی ہے۔ اور ایک لازوال کردار کی حیثیت سے قراة العین کے افق پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چمکنے دمکنے لگتا ہے۔

اجالا:۔

جہاں تک اس ڈرامے کے دوسرے مرکز ی کردار اجالا کا تعلق ہے تو یہ کردار بھی اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شوخ و شنگ اور چنچل کردار ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے۔ ہر وقت ہنستا کھیلتا اور اختر سے دل لگی کی محفلیں سجاتا رہتا ہے۔ کبھی پکچر ہے کبھی چائنیز میں کھانا ہے کبھی نہر کے کنارے پکنک ہے اور کبھی ہنسی خوشی کا کوئی دوسرا پروگرام اجالا کے زیر اہتمام تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اجالا کی شخصیت میں ایک طرح کا الہڑ پن اور بے پروائی دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اجالا خلوص اور محبت کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک زمانہ ساز بھی ہے۔ اس لئے کہ ڈرامے کے حوالے سے اجالا کا کردار محبت کو مادی وسائل کے ترازو میں پرکھتا اور تولتا نظرآتا ہے۔ اس لئے کہ اختر اور اجالا کے باہمی سوا ل جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اختر سے پہلے اجالا کسی اور سے محبت کرتی تھی لیکن بیچ میں اختر کے آن ٹپکنے سے اجالا اپنی پہلی محبت کو خیر باد کہہ دیتی ہے۔ اور اختر کی محبت کا دم بھرنے لگتی ہے۔ ایسی محبت میں پوشیدہ طور رپر کوئی مادی فائدہ کارفرما نظرآتا ہے۔ ورنہ اجالاہر گز اپنی پہلی محبت کو فراموش نہ کرتی ۔ اور اب جبکہ وہ اختر کی محبت کا دم بھر رہی ہے ٹیلی فون پر کسی اور سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی ہے۔ درحقیقت یہ کوئی سنجیدہ انداز نہیں اور نہ کسی سنجیدہ شخصیت کی ترجمانی ہے۔ اس بناءپر اجالا کے مقابلے میں اختر کا کردار زیادہ سنجیدہ اور پرخلوص اور مکمل کردار ہے۔

مکالمہ نگاری:۔

ڈرامہ نگار نے ڈرامے کی کہانی کو بیانیہ انداز کی بجائے مکالموں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ دراصل فنی نقطہ نظرسے کہانی کو مکالموں کے طفیل پیش کرنا انتہائی مشکل ہوتے ہوئے فنکارانہ مہارت کا متقاضی ہوتا ہے۔اشفاق احمد نے ”قراة العین “ میں اس فنی مہارت کا بدرجہ اتم ثبوت باہم پہنچایا ہے۔ اور پھر ویسے بھی ڈرامے کو راوی کی زبانی پیش کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ ڈرامائی تاثر اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب کہ کسی کہانی کو کردار اسٹیج پر سے باہمی گفتگو یا مکالموں کے ذریعے پیش کرے۔ چنانچہ اشفاق احمد نے انتہائی شستہ اور برجستہ مختصر اور جامع اور موثر سوال جواب کے ذریعے ڈرامے کی کہانی کا تاروپود تیار کیا ہے۔ ہر کردار اپنی حیثیت اور ذہنی سطح کے مطابق بات کرتا دکھائی دتیا ہے۔ اگر چہ اس میں شک نہیں کہ کہیں کہیں اختر اور اس کے ابو کی گفتگو ذوق سلیم سے گری ہوئی دکھائی دیتی ہے جیسا کہ اختر کا ابو سے کہنا،You r getting to oldآ پ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے ۔ باپ اور بیٹے کے درمیان ایسی گفتگو دل و دماغ پر گراں گزرتی ہے۔ لیکن شائد یہ اس لئے کہ اختر اور ابو جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ طبقہ ایسی باتوں کی پرواہ نہ کرتا ہو۔ بہرحال مجموعی طور پر ڈرامے کے مکالمے کو مکالماتی ڈرامہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ ڈرامے میں مکالمے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ بات بات پر سوال جواب اور مکالماتی فضا قائم کردی گئی ہے۔ ہر سوال و جواب کے نتیجے میں یہ ڈرامہ لحظہ بہ لحظہ پیش رفت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

المیہ:۔

فنی لحاظ سے یہ ایک ٹی وی یعنی سماعتی و بصری ڈرامہ ہے المیہ اس کا موضوع ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”قراة العین“ المیہ Tragedyہے۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا جاتا ہے۔ ڈرامے کی المیاتی فضا میں رنج و غم زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور جب بینائی کی وجہ سے (جو ختم ہو جاتی ہے) اختر گھر سے نکل جاتا ہے تو ڈرامے کی تمام فضاءپر غم کے بادل گہرے ہو جاتے ہیں اور پھر جب اجالا اپنے خاوند نصیر کے ساتھ داتا دربار میں کسمپرسی کے عالم میں اختر کو دیکھتی ہے تو یہ Tragedyاپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔

اسلوب:۔

فنی نقطہ نظر سے جہاں تک انداز تحریر کا تعلق ہے تو اس ڈرامے میں اشفاق احمد نے حسب معمو ل آسان اور عام فہم زبان استعما ل کی ہے۔ جس کی وجہ سے ڈرامے کی عبارت میں تسلسل اور ربط جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ عام فہم اور سلاست کی بناءپر پڑھنے اور اور دیکھنے والے کسی ذہنی دبائو یا اکتاہٹ کا شکار ہوئے بغیر حالات و واقعات کی تہہ میں اتر جاتے ہیں۔ اس سادہ او رسلیس الفاظ اور مکالموں نے قراة العین کی دلچسپی اور دلکشی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس لئے کہ جو لفظ ہے انتہائی موثر ہے۔ اور بغیر کسی مشکل کے پڑھنے یا دیکھنے والے کی کہانی کا احاطہ کر لیتے ہیں۔

منظر کشی:۔

چونکہ یہ ایک ٹی،وی ڈرامہ ہے اس لئے اس میں ہرطرح کے مناظر باآسانی دکھائے گئے ہیں۔ کہیں جنگل ہیں کہیں نہر ہے۔ کہیں گھر ہے کہیں چلتا موٹر سائیکل ، کہیں تیرتا جہاز اور کہیں کوئل کی آواز انسان کو مختلف مراحل سے گزارتی چلی جاتی ہے۔ اور یہ سب دور جدید کے کیمرے کا کمال ہے ۔ ڈرامہ نگار نے جگہ جگہ ہدایات بھی دیں ہیں۔

تجسّس و جستجو:۔

کسی بھی کہانی کی دلکشی کے لئے تجسّس و جستجو انتہائی ضروری ہے۔ عشق و محبت کی کہانی میں یہ عناصر خود بخود پیداہوتے ہیں۔ ڈرامے کا عنوان ”قراہ العین“ بذات خودتجسّس کا سر چشمہ ہے۔ کیونکہ عنوان دیکھ کر ہمارے دل دماغ میں مختلف سوالات ابھرنے لگتے ہیں کہ اس عنوان کے تحت ڈرامہ نگار نے کون سےحالات و واقعات پر مشتمل ڈرامہ تحریر کیا ہوگا۔ یہ دیکھنے کے لئے ہم ڈرامہ پڑھنا یا دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا جاتا ہے تجسّس و جستجو اور دلچسپی و دلکشی کی تہیں نکلتی چلی جاتی ہیں۔ کبھی ہم سوچتے ہیں کہ آیا اجالا اور اختر ایک دوسرے کو پا لیں گے ۔ ڈرامے کا بڑا حصہ اختر کی اپنے مقصد میں کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے تجسّس و جستجو پر مشتمل ہے۔ ڈاکڑ ی معائنے کے فوراً بعد ہمارا یہ تجسّس ایک نئی کروٹ بدلتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ صا ف ظاہر ہے کہ اختر کا پائلٹ بنتے کا ارمان پورا نہیں ہو سکتا اس ضمن میں ناکامی اس کا مقدر بنتے ہوئے نوشتہ دیورا بن چکی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ بینائی کے نہ ہوتے ہوئے اجالا کو کیونکر حاصل کر سکے گا؟ ۔ اس وقت یعنی اس مقام پر ہمارا تجسّس ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ شائد اختر کو دوسری بڑی ناکامی کا سامنا یوں کرنا پڑے کہ وہ بدقسمتی سے اجالا کو بھی حاصل نہ کرپائے اور جب اختر بصارت جاتے رہنے کی صورت میں انتہائی مایوس ہوجاتا ہے تو چپکے سے اپنے ابو ، اجالا دنیاوی عیش و عشرت اور گھر کو بھی خیر آباد کہہ دیتا ہے۔ اور ہم اجالا اور ابو کی طرح یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اختر اس حال میں کہاں ہوگا ۔حتیٰ کہ منکے اور تسبیحیں بیچتے ہوئے ہماری ملاقات اخترسے داتا دربار میں ہوجاتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شروع سے لے کر آخر تک ڈرامے کا تجسّس و جستجو لمحہ بہ لمحہ پروان چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور پڑھنے ، دیکھنے والے تجسّس کی اس مسحور کن رو میں آخر تک بہتے چلے جاتے ہیں۔ فنی لحاظ سے ”قراة العین “ ایک مکمل المیاتی ، ٹی ،وی ڈرامہ ہے۔

فکری جائزہ:۔

فکری لحاظ سے ڈرامہ قراة العین میں اشفاق احمد نے زندگی کے بہت سے مسائل و حقائق کا تجزیہ کیا ہے۔ جس میں روحانیت او ر تصوف کا عنصر بھی شامل ہے۔ بےشک زندگی مختلف مراحل اور نشیب و فراز کا نام ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ زندگی کی بہار پر خزاں کا دور دورہ بھی ہوتا ہے۔ بہاروں کی جوانی تعاقب میں خزاں پا کر بڑاافسوس ہوتا ہے۔ اجالا اور اختر کی ہنسی خوشی اور قربت کوئی دائمی چیز نہیں۔ پل و پل کی عیش و مسرت اور تبسم ہمیشہ ہمیشہ کی آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت کسی فردِ واحد تک محدود نہیں بلکہ ہر ذی روح اسی اٹل قانون ِ قدرت کی لپیٹ میں ہے۔اس لئے بے شک،

کہا میں کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

اجالا اور اختر کے حالات زندگی دراصل زندگی کے مجموعی حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں ڈرامہ نگار نے کارزارِ حیات میں حرکت و عمل کو اور کوشش و جدوجہد کو بہت ضروری قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ عمل کے بغیر انسان پر بے عملی سستی اورمایوسی چھا جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ایک بے کار پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اور معاشرے کے دوش پر ایک گراں بار کی حیثیت سے پڑا رہتا ہے۔ چنانچہ واقعی زندگی نام ہے حرکت و عمل اور جوش و جذبے کا۔ اس لئے کہ حرکت و عمل اور جوش و جذبے کے بغیر زندگی کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ جوش و جذبے سے آرزو و تمنا کی روشنی اور نور پیدا ہوتا ہے۔ جس کے طفیل سے بزم کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ گویا کہ ڈرامہ نگارنے یہ فکری پیغام دیا ہے کہ انسان کو اپنے دل میں جوش و جذبے اور آرزو کی تمنا کا شعلہ روشن رکھنا چاہیے ۔ تاکہ وہ متحرک رہتے ہوئے کارزارِ حیات کے معرکے سر کرتے رہیں۔
اس ڈرامے میں اشفاق احمد تصوف کی روشنی میں بھی بات کرتے ہیں۔ کہ انسان کو چاہیے کشتی کی طرح دنیا میں رہے۔ دنیا کو اپنائے ، اس طرح سے فائدہ اٹھائے لیکن دنیا کو اس طرح داخل نہ ہونے دے اپنے اندر جس طرح کشتی پانی کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیتی ۔ اور جب پانی کشتی میں داخل ہوجائے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ اس طرح انسان دنیاوی حرص و ہوا اور لالچ کا اس قدر شکار ہوجائے کہ دنیا کی مادی آرائشیں اس کے باطن میں داخل ہو جائیں تو انسان انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے۔ تو گویا ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انسان دنیامیں غرق نہ ہو بلکہ دنیا کواپنے اندر غرق کرنے کی روحانی قوتیں حاصل کرے۔
بحرحال ڈرامہ نگار کا پیغام یہ ہے کہ انسان کے حالات موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں کبھی بہار ہے کبھی خزاں ۔ لیکن غم بھی زندگی کے مختلف رنگ ہیں۔ جن کا مقابلہ دلیری سے کرنا چاہیے۔ اگرایسا کیا جائے تو تمام درد و غم ہلکے پھلکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب ایک راستہ بند کر دیتا ہے تو اس کے بدلے کوئی دوسرا راستہ کھول دیتا ہے ۔ تصوف اور عبادت کے ذریعے انسان اپنے خالق کے قریب تر ہو جاتا ہے۔ جب ظاہر کی آنکھ نابینا ہو جائے تو اندر کی یعنی دل کی آنکھ روشن ہوجاتی ہے۔ اور انسان وہ کچھ دیکھنے لگتا ہے جو ظاہر کی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا۔ ظاہر مجاز ہے اور مجاز کے پیچھے حقیقت جلوہ گر ہے۔ مجاز کو تو ظاہر کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت کا دیدار دل کی آنکھ کے طفیل حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے کہ

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top