ام اویس

محفلین
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!
رمضان کی آمد کی مناسبت سے گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی قران مجید کی عام معلومات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ سوالات صرف قران مجید میں سے ہوں اور عام فہم ہوں۔ ادق مضامین اور تفسیر کے موضوعات کے لیے علیحدہ تھریڈ شروع کیے جا سکتے ہیں۔
پہلے ایک سوال کا جواب دیں۔ اس کے بعد اگلا سوال پوچھا جا سکتا ہے۔
کوشش کریں کہ دوسروں کو جواب دینے کا موقع دیں ناکہ خود ہی اپنے سوال کا جواب دینے میں جلدی کرنے لگیں۔
جواب تلاش کرنے کے لیے گوگل وغیرہ کے استعمال کی اجازت ہے۔
اس سلسلے کا پہلا سوال یہ ہے ۔

سورۃ فاتحہ کی آخری آیت میں جن انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا سکھائی گئی ہے وہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں اور ان کا ذکر قرآن مجید کی کس آیت میں ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
سورۃ فاتحہ کی آخری آیت میں جن انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا سکھائی گئی ہے وہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں اور ان کا ذکر قرآن مجید کی کس آیت میں ہے؟
صِرَاطَ ۔ الّذِیْنَ ۔ اَنْعَمْتَ ۔ عَلَیْ ۔ ھِمْ۔

راستہ ۔ اُن لوگوں کا ۔ تو نے انعام کیا۔ پر ۔ وہ ۔

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام کیا

اس سے پہلی آیہ میں ہم نے الله تعالی سے دُعا کی تھی ۔ کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھلائے ۔ اب سیدھی راہ کی مزید تشریح اس آیہ مبارکہ میں کی گئی ہے ۔ مکمل تعلیم اور ہدایت کی ساری کی ساری باتیں قرآن مجید میں آ گئی ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ہدایتوں کے عملی نمونے بھی انسانوں میں کثرت سے بھیج دئیے ۔ تاکہ ان کی پاکیزہ زندگی سامنے رکھ کر صراط مستقیم پر چلنا ہمارے لئے اور آسان ہو جائے ۔ چنانچہ ہمیں دُعا سکھائی ۔ کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلائے ۔ جن پر الله تعالی نے انعام نازل فرمائے ۔
ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ نساء کی آیہ 69 میں موجود ہے ۔ اس آیہ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے

" اُن لوگوں کے ساتھ جن پر الله تعالی نے انعام کیا ۔ یعنی نبی ، صدیق ، شہید اور صالح اور ان کی رفاقت کیسی اچھی ہے "

نبی ۔۔۔ ا
س محترم شخصیت کو کہتے ہیں جسے الله تعالی نے اپنا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لئے چُن لیا ہو ۔ نبی کی تعلیم میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہوتا ۔ وہ ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ اور معصوم ہوتا ہے ۔ بے شمار انبیاء علیھم السلام کی زندگی کے واقعات قرآن مجید میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ نبیوں کی اس پاکیزہ جماعت کے سب سے بڑے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ آپ کی مبارک سیرت کی ایک ایک بات محفوظ ہے ۔ اور ہر بات کی پیروی ہماری زندگی میں کامیابی اورآخرت میں نجات کا باعث ہے ۔
صدیق ۔۔۔ انبیاء کے بعد دوسرے درجے پر ہیں ۔ یہ لوگ نبیوں کی تعلیمات کے ذریعے بڑے اُونچے مرتبہ پر پہنچتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ صدیق اکبر کہلائے ۔
شھداء ۔۔۔ وہ بزرگ کہلاتے ہیں جن پر نبیوں کی تعلیم کا ایک خاص اثر پڑتا ہے ۔ ان کو ثواب اور الله کے وعدوں کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ اور وہ یہاں تک آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کو الله تعالی ہمیشہ کی زندگی عطا فرما دیتا ہے ۔
صالحین ۔۔۔ وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی پیروی ہر ممکن طریق سے کرتے ہیں ۔ یہ سبھی لوگ اپنے اپنے درجہ میں بعد میں آنے والوں کے لئے نمونہ کا کام دیتے ہیں ۔
الله تعالی نے اس آیہ مبارکہ میں فرمایا ۔ کہ سیدھی اور درست راہ وہی ہے ۔ جس پر یہ انعام یافتہ لوگ چلے ۔ انھی کے نقشِ قدم پر چل کر کامیابیاں حاصل ہوں گی ۔
ان شاء الله تعالی
آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ان چار جماعتوں کی اتباع اور رفاقت نصیب کرے، آمین!
 

ام اویس

محفلین
قیامت کے دن
۱- کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا
۲- نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے
۳- اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے
۴- اور نہ لوگ کسی اور طرح مدد حاصل کرسکیں۔
کس آیت میں بتایا گیا ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
تمام لوگوں کو اپنے رب کی عبادت کا حکم کس آیت میں دیا گیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَo

’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
البقرۃ، 2: 21
 

سیما علی

لائبریرین
قیامت کے دن
۱- کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا
۲- نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے
۳- اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے
۴- اور نہ لوگ کسی اور طرح مدد حاصل کرسکیں۔
کس آیت میں بتایا گیا ہے؟
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَھُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء:1)
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ(الحج:1)
” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا ہے جبکہ وہ ابھی تک غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ “
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔
کوئی نفس کسی نفس کے کام نہیں آئے گا !
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَ۔يْ۔۔۔۔ًٔ۔ا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ(البقرہ:4
” اور اس دن سے ڈرتے رہو جب نہ تو کوئی کسی دوسرے کے کام آ سکے گا، نہ اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی، نہ ہی اسے معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا اور نہ ہی ان (مجرموں) کو کہیں سے مدد پہنچ سکے گی۔ “
قیامت کے دن تجارت اور شفاعت کام نہیں آئی گی !
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(آل عمران:254)
”اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اسمیں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لوجس دن نہ تو خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش، اور ظالم تو وہی لوگ ہیں جو ان باتوں کے منکر ہیں۔ “
ماں دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی !
يَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ كُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا ہُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيْدٌ(الحج:2)
”اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا۔ “
قیامت کی ہولناکی بچہ کو بوڑھا کردے گی !
فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَۨا(المزمل:17)
”اب اگر تم نے (اس رسول کا) انکار کردیا تو اس دن (کی سختی) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا۔ “
اصل دوستی کا فائدہ متقین ہی کو ہے!
اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍؚ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ(الزخرف:67)
”اس دن پرہیز گاروںکے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ “
کمزور طاقتورکو اور طاقتورکمزور کو ملامت کریں گے!
ترجمہ:”کاش آپ ان ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے پروردگار کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرےکی بات کا جواب دیں گے۔جو لوگ (دنیا میں) کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑا بننے والوںسے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔اور جو بڑا بنتے تھے وہ کمزور لوگوں کو جواب دیں گے کہ جب تمہارے پاس ہدایت آگئی تھی تو کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا ؟ بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ اور جو کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے بات یوں نہیں بلکہ یہ تمہاری شب و روز کی چالیں تھیں جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کا انکار کریں اور اس کے شریک بنائیں پھر جب وہ عذاب دیکھیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے اور ہم ان کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔انھیں ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے وہ کام کیا کرتے تھے۔“(سبا:31-33 )
 
Top