قرآن مجید کی سورتوں کے مضامین کا آپس میں ربط

ام اویس

محفلین
سورة الانفال کے مضامین کا خلاصہ
مضامین کے اعتبار سے سورة انفال کے دو حصے ہیں ۔
حصہ اوّل :- سورة کی ابتداء آیة 1 سے
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِله وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا الله وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا الله وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اردو:

اے نبی ! مجاہد لوگ تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے کہدو کہ غنیمت الله اور اسکے رسول کا مال ہے۔ تو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو الله اور اسکے رسول کے حکم پر چلو۔
آیة 40 تک
وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ الله مَوْلَاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ

اردو:

اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ الله تمہارا حمایتی ہے اور وہ خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے۔

حصہ دوم :- آیة 41
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اردو:

اور جان رکھو کہ جو مال غنیمت تم کفار سے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ الله کا اور اسکے رسول کا اور اہل قرابت اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم الله پر اور اس نصرت پر ایمان رکھتے ہو جو حق و باطل میں فرق کرنے کے دن یعنی جنگ بدر میں جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہو گئ۔ ہم نے اپنے محبوب بندے محمد ﷺ پر نازل فرمائی۔ اور الله ہر چیز پر قادر ہے۔

سے لیکر سورة کے آخر یعنی آیة 75 تک ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللهِ إِنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

اردو:

اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں اور رشتہ دار الله کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں کچھ شک نہیں کہ الله ہر چیز سے واقف ہے۔

دونوں حصوں میں دو مضامین بیان کیے گئے ہیں ۔ تقسیم غنائم ( مال غنیمت کی تقسیم الله کے حکم کے مطابق کرو ۔ اور قوانین جہاد

پہلے حصے میں مضمون اول یعنی تقسیم غنائم سات علل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور پانچ قوانین جہاد بیان کیے گئے ۔
دوسرے حصے میں مضمون اول تقسیم غنائم پانچ علل کے ساتھ اور سات قوانین جہاد ( جن میں سے دو مؤمنین کے لیے اور پانچ خاص نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ) ہیں ۔

باقی حسب موقع تبشیریں ، تخویفیں ، زجریں اور شکوہ جات بیان کیے گئے ہیں
 

ام اویس

محفلین
سورة التوبہ
سورة التوبہ کو ماقبل سے دوطرح کا ربط ہے ۔
ربط معنوی
سورة النفال میں مشرکین سے جہاد کرنے کا حکم اجمالا دیا گیا ۔ اگر جہاد میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو اور مالِ غنیمت ہاتھ آئے تو اس کی تقسیم الله سبحانہ وتعالی کے حکم کے مطابق کرو ۔ اس میں اختلاف و جھگڑا نہ کرو ۔ مالِ غنیمت کے مصارف کی تقسیم بھی کی گئی ۔
سورة التوبہ میں جہاد کے اعلان کا اعادہ کیا گیا اور تفصیل سے بتایا گیا کہ کن لوگوں سے جہاد کرنا ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو غیر الله کی تحریمیں کرتے ہیں ، ان کی نذریں نیازیں دیتے ہیں ، انبیاء اور بزرگان دین کو متصرف و مختار سمجھتے ہیں الله کی تحریمات قائم نہیں کرتے ان کے ساتھ اعلانِ جنگ کر دو


سورة الانفال میں اگرچہ حکمِ قتال بالاجمال مذکور تھا مگر وہاں مقصود قانونِ جنگ اور مصارفِ غنیمت کا بیان ہے اور سورة توبہ میں مقصود اعلانِ جنگ کا حکم ہے اس لیے یہ مضمون یعنی قتال فی سبیل الله تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

ربط اسمی
ربط اسمی یہ ہے کہ مشرکین سے اعلانِ جنگ کردو اور فتح کے بعد حاصل ہونے والے انفال کو الله تعالی کے حکم کے مطابق تقسیم کرو ۔ لیکن فَاِنْ تابُوا ۔۔۔۔ الخ اگر وہ مشرک توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں ۔ اسلام کے احکام مان کر ان پر عمل پیرا ہوجائیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں ان سے جہاد مت کرو ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة التوبہ کے مضامین کا خلاصہ
مضامین کے اعتبار سے سورة توبہ کے دو حصے ہیں ۔
حصہ اول :- ابتداء سورة سے

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ


اردو:

اے اہل اسلام اب الله اور اسکے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری اور جنگ کی تیاری ہے۔

آیة 37 تک

إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ الله زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

اردو:

ادب کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں بڑھ جانا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اسکو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام تاکہ ادب کے مہینوں کی جو اللہ نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں۔ اور جو الله نے منع کیا ہے اسکو جائز کر لیں۔ انکے برے اعمال انکو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور الله کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

اس حصہ میں
بد عھدی کرنے والے مشرکین سے اعلان براة
مشرکین سے اعلانِ جنگ
مشرکین سے جنگ کرنے کے متعلق شبھات کا جواب جو ان کے ساتھ قتال کرنے سے مانع تھے اور مشرکین سے قتال کے اسباب و وجوھات
مذکور ہیں ۔

حصہ دوم :- آیة 38 سے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ


اردو:

مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ الله کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپکے جاتے ہو یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ سو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔

آیة 122 تک

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

اردو:

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو انکو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔

اس حصے میں منافقین کے لیے زجریں اور مؤمنین کے لیے ترغیب الی القتال ہے ۔

اسی حصے میں آیة 113

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

اردو:

پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہو گیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو انکے لئے بخشش مانگیں گو وہ انکے قرابت دار ہی ہوں۔

میں فرمایا کہ مشرکین سے جہاد جاری رکھو اور تمہارے جو متعلقین حالتِ کفر میں مر چکے ہیں یا جن کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے ان کے لیے دعائے مغفرت نہ کرو اگرچہ وہ تمہارے قریبی رشتہ دار ہی ہوں ۔

آخر سورة آیة 123 سے آیة 129 تک مضامینِ سورة کا اعادہ کیا گیا ۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
سورة یونس
ربط اسمی
سورة التوبہ آیة 5 میں فرمایا

فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ

پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔

اور سورة یونس آیة 98 میں فرمایا

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ

اردو:

سو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان اسے نفع دیتا۔ ہاں یونس کی قوم کہ جب ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے ذلت کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک فوائد دنیاوی سے انکو بہرہ مند رکھا۔

یعنی اب توبہ کرنے ، ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجا لانے کا وقت ہے اس لیے ایمان لے آؤ ورنہ جب ہمارا عذاب آگیا پھر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ یہ صرف قوم یونس ہی تھی جس نے عذاب خداوندی دیکھ کر ایمان قبول کیا اور اس وقت کے ایمان لانے سے ان کو فائدہ بھی پہنچ گیا

ربط معنوی
اسکی دو تقریریں ہیں ۔
تقریر اول :- قرآن مجید میں نفی شرک کے سلسلہ میں دو باتوں پر زور دیا گیا ہے ۔
اوّل :- یہ کہ الله تعالی کے سوا کوئی کارساز و متصرف نہیں ۔
دوم :- کہ الله تعالی کے ہاں کوئی شفیع غالب نہیں ۔
اس سے پہلی سورتوں میں مسئلہ توحید کے ہر پہلو کو تفصیل سے بیان کیا گیا ۔ عقلی ، نقلی اور وحی دلائل سے ثابت کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کارساز ، متصرف و مختار اور نذر ونیاز کا مستحق نہیں ۔ اب سورة یونس میں مشرکین کے اس خیال باطن کا رد فرمایا
کہ الله تعالی کے سامنے کوئی شفیع غالب ہے جو اس سے اپنی بات منوا سکے
تقریر ثانی :-
سورة
البقرہ میں مندرجہ ذیل مضامین خصوصیت سے بیان ہوئے ۔
توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله ، انفاق فی سبیل الله ، امور انتظامیہ ، امورِ مصلحہ
اس کے بعد سورة
آل عمران میں ان مضامین میں سے توحید کے ایک پہلو یعنی نفی شرک اعتقادی
اور رسالت ، جہاد ، انفاق کا ذکر کیا گیا
سورة
نساء میں سورة بقرہ کے ایک مضمون امور انتظامیہ مع امور مصلحہ کو تفصیل سے بیان کیا گیا
چودہ احکام رعیت اور نو احکامِ سلطانیہ
اس کے بعد سورة
مائدہ اور سورة الانعام میں مسئلہ توحید کے دونوں پہلوؤں نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک فعلی کو واضح کیا گیا ۔ مائدہ میں دعوٰی کی وضاحت پر اور الانعام میں دلائل عقلیہ پر زور دیا گیا ۔
اس کے بعد سورة
الاعراف میں نفی شرک فعلی و نفی شرک اعتقادی پر زیادہ تر دلائل نقلیہ بیان کیے گئے ۔
سورة
الانفال اور سورة التوبہ میں قَاتِلوھم سے مشرکین کے ساتھ جہاد کا حکم ہوا ۔ اور جہاد فی سبیل الله کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے ۔
یہاں تک سورة البقرہ کے تمام مضامین مفصل اور دلائل کے ساتھ بیان ہوچکے صرف توحید کا ایک پہلو باقی رہ گیا یعنی نفی شفاعت قہری
سورة یونس میں شفاعت قہری کی نفی پر دس دلائل عقلیہ اور ایک دلیل وحی پیش کی گئی اور ثابت کیا گیا کہ الله تعالی مالک الملک اور مختار مطلق ہے اس کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں ۔ اسکے سامنے کوئی مقرب فرشتہ ، کوئی نبی مرسل ، کوئی ولی مکرم دم نہیں مار سکتا ۔
نفی شفاعتِ قہری کا یہ مضمون سورة یونس سے لے کر سورة الکہف کے آخر تک چلا گیا ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
خلاصہ سورة یونس
شرک کا قلب : نفی شفاعت قہری
قرآن مجید کا قلب : توحید ، رسالت ، قیامت (تین مضامین )
سورة یونس میں تین جگہ دعوٰی موجود ہے
دعوٰی اوّل : اجمالاً
آیة :3
مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ
کوئی اسکے پاس اسکی اجازت حاصل کئے بغیر کسی کی سفارش نہیں کر سکتا۔

یعنی الله تعالٰی کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں ۔ قیامت کے دن جن انبیاء و صلحاء کو شفاعت کی اجازت ملے
گی وہ سفارش کر سکیں اور اسکی اجازت کے بغیر کسی کو لب کشائی کی اجازت نہ ہوگی

دعوٰی ثانی :
آیة :18
وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللهِ ۔۔۔۔۔ الخ

اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں

اس دعوٰی پر گیارہ دلائل پیش کیے گئے ہیں دس دلائل عقلیہ اور ایک دلیل وحی ۔ دلائل عقلیہ میں سے ایک دلیل نفی شرک فی العلم پر ہے اور ایک دلیل عقلی نفی شرک فعلی پر ۔ آٹھ دلائل عقلیہ نفی شرک فی التصرف پر دآلّ ہیں ۔ ان آٹھ دلائل کے درمیان تین بار ان کا ثمرہ بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس دعوٰی یعنی نفی شفاعت قہری پر تخویف دنیوی کے تین نمونے پیش کیے گئے دو نمونے تفصیلی اور ایک اجمالی ۔
ساتھ ساتھ حسب مواقع تخویفیں ، تبشیریں ، زجریں ، شکوے ، جواب شکوے ، دنیا کی ناپائیداری اور حقارت کی تمثیل ، ترغیب الی القرآن اور تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم کا بیان ہے ۔

دعوٰی ثالث : تفصیلا

آیة 104 تا 107
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اردو:
اے پیغمبر کہدو کہ لوگو اگر تم کو میرے دین میں کسی طرح کا شک ہو تو سن رکھو کہ جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو میں انکی عبادت نہیں کرتا۔ لیکن میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے۔ اور مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ ایمان لانے والوں میں ہو جاؤں۔

وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اردو:
اور یہ کہ اے نبی سب سے یکسو ہو کر دین اسلام کی پیروی کئے جاؤ اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا۔

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
اردو:
اور اللہ کو چھوڑ کو ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کر سکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے اب اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اردو:
اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے۔ تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں۔ اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اسکے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے۔ اور وہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
 

ام اویس

محفلین
سورة ھود
سورة ھود کا ماقبل سے دو طرح کا ربط ہے۔
اسمی ربط
سورة یونس میں جس طرح مسئلہ توحید کو بیان کیا گیا، شرک اعتقادی ( نفی شرک فی التصرف و نفی شرک فی العلم ) اور شرک فعلی کا جس انداز سے رد کیا گیا جب تم اس کو اسی انداز سے بیان کرو گے تو تم بھی مشرکین کی طرف سے طعنوں اور ملامتوں کا نشانہ بنو گے۔
اسی طرح ھود علیہ السلام کو انکی قوم نے مسئلہ توحید بیان کرنے پر طرح طرح کے طعنے دئیے۔
جیسا کہ سورة ھود کی آیت 53 اور 54 میں مذکور ہے۔

قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
اردو:
وہ بولے ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیل ظاہر نہیں لائے۔ اور ہم صرف تمہارے کہنے سے نہ اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تم پر ایمان لانے والے ہیں۔

إِن نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
اردو:
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں تکلیف پہنچا کر دیوانہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں الله کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جنکو تم الله کا شریک بناتے ہو۔ میں ان سے بیزار ہوں۔

معنوی ربط
اسکی تین تکریریں ہیں ۔
تکریر اول :
سورة یونس کے آخر میں فرمایا:

وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
اردو:
اور اے پیغمبر تم کو جو حکم بھیجا جاتا ہے اس کی پیروی کئے جاؤ اور تکلیفوں پر صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

اب سورة ھود کے شروع میں فرمایا:

الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
اردو:
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جسکی آیتیں جچی تلی ہیں پھر یہ کہ الله حکیم و خبیر نازل کرنے والے کی طرف سے بہ تفصیل بیان کی گئ ہیں۔

تکریر ثانی:
سورة یونس میں دلائل عقلیہ سے ثابت کر دیا کہ الله سبحانہ وتعالی کے ہاں کوئی شفیع غالب نہیں اب سورة ھود میں کہا جا رہا ہے کہ جب الله تعالی کے ہاں کوئی شفیع غالب نہیں تو حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب صرف الله تعالی کو پکارو کیونکہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں ۔ غیر الله کی پکار کا مسئلہ اگرچہ سورة یونس میں بھی مذکور ہے لیکن اس میں زیادہ زور دلائل پر دیا گیا ہے۔ سورة ھود میں زیادہ زور غیر الله کی پکار سے ممانعت پر ہے۔ یعنی غیر الله کی پکار کی نفی سورة ھود کا موضوع ہے۔
تکریر ثالث:
سورة یونس میں دعوی توحید پر صرف عقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں اب سورة ھود میں دلائل نقلیہ بھی ذکر کیے جائیں گے چنانچہ اس سورة میں دعوی توحید دلائل عقلیہ و نقلیہ سے مدلل ہو جائے گا ۔
اور کہہ دیا جائے گا کہ دعوی توحید تو بالکل واضح اور ثابت ہے لیکن مشرکین ضد و عناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔
 

ام اویس

محفلین
سورة ھود
خلاصہ
سورة ھود کے ابتدائی حصے میں چار دعوے مذکور ہیں ۔
دعوٰی اول ؛
آیة 2 ,3:

أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
اردو:
اس کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
اردو:
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اسکے آگے توبہ کرو

دعوٰی ثانی ؛
آیة:5

أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اردو:
دیکھو یہ اپنے سینوں کو دہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں۔ سن رکھو جس وقت یہ اپنے کپڑوں میں لپٹ رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ انکی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے۔ وہ تو دلوں کی باتوں تک سے آگاہ ہے۔

صرف الله سبحانہ وتعالی ہی عالم الغیب ہے اور ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس پر آشکار ہے۔

دعوٰی ثالث :
آیة : 12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
اردو:
تو شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو اور اس خیال سے تمہارا دل تنگ ہو کہ کافر یہ کہنے لگیں کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا اسکے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ اے نبی تم تو صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ اور اللہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
مشرکین کے طعنوں سے آزردہ خاطر ہو کر تبلیغ میں کوتاہی نہ کرو۔

دعوٰی رابع:
آیة : 17

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أُولَئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَى رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اردو:
اور اس سے بڑھ کو ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا۔ سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

مسئلہ توحید بالکل واضح اور روشن ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔لیکن معاندین ضد کی وجہ سے نہیں مانتے ۔
مذکورہ چاروں دعووں کے درمیان زجریں ، تخویفیں ، تبشیریں حسبِ مواقع مذکور ہیں۔
اس کے بعد انبیاء علیھم السلام کے سات قصے بیان کیے گئے ہیں جو بطور لف و نشر مرتب مذکورہ دعووں سے متعلق ہیں ۔

 

ام اویس

محفلین

سورة یوسف
روابط
اسمی ربط:
سورة ھود کا سورة یوسف سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة ھود میں جس مسئلے کا ذکر کیا گیا
کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہم اور ضروری ہے
کہ یوسف علیہ السلام نے جیل میں بھی اس کی تبلیغ و اشاعت کو یاد رکھا۔
قید خانے میں دو قیدیوں کو تعبیر دینے سے پہلے ان کو مسئلہ توحید سمجھایا اور انہیں بتایا کہ غیر الله کی عبادت اور پکار پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔
شرک عقل و نقل کے خلاف ہے اس لیے الله سبحانہ وتعالی نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔
معنوی ربط :
سورة یوسف کو سورة ھود سے معنوی ربط یہ ہے کہ سورة ھود کا دوسرا دعوٰی تھا۔ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار نہیں۔ اب سورة یوسف میں اس دعوٰی پر ایک بڑی نقلی دلیل مفصل ذکر کی گئی ہے۔ سورة ھود کا مقصودی دعوٰی تو پہلا ہی ہے یعنی الله کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ لیکن دوسرا دعوٰی چونکہ پہلے دعوے کے لیے بمنزلہ علت و دلیل ہے اور علت ودلیل کا مضبوط و مستحکم ہونا معلول و مدلول کے ثبوت و استحکام کو لازم ہے اس لیے دوسرے دعوے کو مفصل دلیل نقلی سے مضبوط کیا گیا۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق بھی نہیں۔ سورة ھود میں متعدد انبیاء علیھم السلام کی زبان سے دعوی ذکر کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی نبی ، فرشتہ یا ولی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔
سورة یوسف میں ایک جلیل القدر پیغمبر جن کا باپ پیغمبر ، دادا پیغمبر اور بیٹا پیغمبر یعنی یعقوب علیہ السلام کا واقعہ مفصل ذکر کیا گیا۔ جس کی ایک ایک کڑی سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ وہ نہ غیب جانتے تھے نہ ہی متصرف و مختار تھے۔ اس لیے عبادت و پکار کے بھی لائق نہ تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں عرصۂ دراز آزردہ رہے لیکن اس کا حال نہ معلوم ہو سکا اور نہ ہی وہ اس کی جدائی کو وصال میں بدل سکے۔
 

ام اویس

محفلین
سورة یوسف
مضامین کا خلاصہ

سورة یوسف میں چار دعوے مذکور ہیں۔ دو عظیم دعوے اور دو صغیر دعوے
عظیم دعوے
وہ جو سورة ھود کے آخر میں آیة : 123 میں ذکر کیے گئے۔

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

اردو:

اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم الله ہی کو ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف رجوع کئے جائیں گے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں۔

اصل میں دعوٰی ثانی

وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ
پہلے دعوے کی علت ہے کیونکہ جب سب کچھ کرنے والا بھی وہ ہے تو سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔
صغیر دعوے
دعوٰی اول
آیة 102 تا 104​
ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ لِلعالمین ۔
یعنی آپ سچے رسول ہیں اور الله تعالی کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

دعوٰی ثانی
آیة 108 تا 110
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم ۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ مجرمین ۔
انبیائے سابقین کی طرح آپ پر بھی مصائب آئیں گے لیکن آخر کامیابی اور فتح مندی آپ کے قدم چومے گی۔
اس سورة میں ایک تخویف دنیوی اور جواب و سوال مقدر ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے 15 احوال مذکور ہیں جن میں سے ہر حال ان دونوں دعووں کو ثابت کرتا ہے ۔
آیة 1 تا 3
آلرٰ ۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔ اَلغَافلین
اس کے بعد احوال شروع ہوتے ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة الرعد
روابط
سورة الرعد کا سورة یوسف سے دو طرح کا ربط ہے
اسمی ربط

اسمی ربط یہ ہے کہ مسئلہ توحید اس قدر اہم اور واضح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں بھی اس کی تبلیغ کی اور خوابوں کی تعبیر پوچھنے والوں کو پہلے مسئلہ توحید سمجھایا پھر تعبیر بتائی۔ رعد اور دوسرے تمام فرشتے الله کی ہیبت اور خوف سے لرزاں و ترساں ہر وقت اس کی تسبیح اور تحمید میں مصروف رہتے ہیں اور ہر قسم کے شرک سے اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔
معنوی ربط
سورة الرعد کا سورة یوسف کے ساتھ معنوی ربط یہ ہے کہ سورۃ یوسف میں ایک بڑی اور مفصل دلیل نقلی کو ثابت کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی پیغمبر ، کوئی ولی ، کوئی فرشتہ اور کوئی جن وبشر عالم الغیب اور کارساز نہیں۔ سورة یوسف تک یہ دونوں دعوے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ثابت کر دئیے گئے ہیں یہاں تک کہ اب مسئلہ توحید نظری نہیں رہا بلکہ بدیہی ہوگیا معاندین محض ضد و عناد کی وجہ سے اسے نہیں مانتے۔ اس کے باوجود ان دعووں کی مزید توضیح اور تفہیم کے لیے سورة الرعد میں گیارہ دلائل عقلیہ بطور تنبیہ ذکر کیے گئے ہیں۔

خلاصہ سورة الرعد
سورة الرعد میں دونوں دعووں (یعنی غیب دان اور کارساز صرف الله تعالی ہی ہے ) پر بطور تنبیہ گیارہ دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں آٹھ دلائل عقلیہ اور ان کے ثمرہ جات ، دو دلائل وحی اور ایک نقلی دلیل برائے مؤمنین سابقین ہے۔ حسب موقع شکوے ، زجریں ، تبشیریں ، تخویفیں اور تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم کا ذکر ہے۔
 

ام اویس

محفلین
سورة ابراھیم
روابط
اسمی ربط :
ماقبل سے اسمی ربط یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بیان سن چکے ہو جو انہوں نے جیل میں قیدیوں کے سامنے دیا نیز رعد اور دوسرے فرشتوں کا حال بھی سُن لیا کہ وہ ہر وقت شرک سے الله تعالی کی پاکیزگی بیان کرتے رہتے ہیں۔ اب حضرت ابراھیم علیہ السلام کا حال بھی دیکھ لو وہ بھی اپنے اہل وعیال کو بحکم خدا بے آب و گیاں بیاباں میں چھوڑ کر الله تعالی کی توحید کا اعلان کرتے رہے کہ الله سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں۔
حضرت ابراھیم نے الله تعالی سے دعا کی تھی۔
آیة 35 تا۔ 39

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
35

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
36.

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
37.

رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
38.

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ
39

اردو:
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھیو۔ اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ اے پروردگار میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ انکی طرف جھکے رہیں اور انکو میووں سے روزی دیتے رہنا تاکہ تیرا شکر کریں۔ اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ تو سب جانتا ہے اور اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ کو بڑی عمر میں اسمٰعیل اور اسحٰق بخشے۔ بیشک میرا پروردگار دعا سننے والا ہے۔

معنوی ربط
گذشتہ سورة میں مسئلہ توحید کو دلائل عقلیہ ونقلیہ سے واضح کیا گیا یہانتک کہ مسئلہ توحید بدیہی ہو گیا۔ اس کے بعد سورة الرعد میں مزید دلائل بطور تنبیہات ذکر کیے گئے تاکہ شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے لیکن معاندین پھر بھی نہیں مانتے۔ اب سورة ابراھیم میں دلائل کے ساتھ وقائع دنیوی و اُخروی بیان کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ بعض طبائع خوشخبری یا ڈر سن کر راہ راست پر آ جاتی ہیں۔ وقائع سے تخویفات دنیوی و اُخروی مراد ہیں۔

خلاصہ مضامین سورة ابراھیم
اس سورة میں توحید ہر تین عقلی دلیلیں (دو مختصر ، ایک مفصل ) ایک نقلی دلیل اجمالی (تمام انبیاء اور مؤمنین سے) اور ایک نقلی دلیل تفصیلا از حضرت ابراھیم علیہ السلام اور چھ وقائع دنیوی و اُخروی ۔ ایک زجر اور عذاب کو ہٹانے کے لیے امورِ ثلاثہ کا بیان ہے۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
سورة الحجر
روابط

اسمی ربط
سورة ابراھیم کو سورة الحجر سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة ابراھیم میں وقائع امم سابقہ کے ساتھ جو مسئلہ بیان کیا وہ مان لو وگرنہ پچھتاؤ گے۔ جس طرح اصحاب حجر نے مسئلہ توحید کی تکذیب کی تو انہیں درد ناک عذاب نے ہلاک کر دیا اسی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دیا جائے گا ۔
معنوی ربط
سورة ابراھیم میں وقائع بیان کرکے ڈرایا گیا کہ مسئلہ توحید کو مان لیں۔ اب سورة الحجر میں یہ بیان ہوگا کہ مسئلہ توحید کو مان لو ورنہ امم سابقہ کی طرح تم پر بھی عذاب آئے گا پھر پچھتاؤ گے۔


خلاصہ مضامین سورة الحجر


سورة الحجر میں دو عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک مفصل اور دوسری مختصر ، تخویف دنیوی کے پانچ نمونے ذکر کیے گئے تین گزشتہ قوموں کے اور دو مشرکین مکہ کے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لیے تین تسلیاں مذکور ہیں۔ یعنی سورة الحجر میں پانچ امور بیان کیے گئے ہیں۔
 

ام اویس

محفلین
سورة النحل
روابط
اسمی ربط
ماقبل سے اسمی ربط یہ ہے کہ آصحاب حجر(قوم ثمود) کا حال تم نے سن لیا کہ انکار وتکبر کی وجہ سے انہیں دنیا ہی میں ہلاک کر دیا گیا۔ تمہیں اس عبرت ناک واقعہ سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ اگر اصحاب حجر سے عبرت حاصل نہیں کرتے تو نحل (شہد کی مکھی) کا حال دیکھ لو شاید وہی تمہارے لیے نصیحت کا سبب ہو۔ یہ معمولی مکھی کس طرح پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر لاتی ہے اور شہد جیسی بے نظیر چیز تیار کرتی ہےاور اپنے چھتے کا راستہ بھی نہیں بھولتی۔ یہ معمولی سا کیڑا اتنا بڑا کام سر انجام دے رہا ہے جو قدرت الہی اور اس کی صفت کا ایک ادنی سا نمونہ ہے ۔ اس سے عبرت حاصل کرو اور مسئلہ توحید کو مان لو۔
معنوی ربط
سورة ابراھیم میں وقائع امم سابقہ بیان کرنے کے بعد سورة الحجر میں فرمایا کہ اب وقت ہے مان لو ورنہ جب عذابِ الہی آگیا تو ہرگز نہ بچ سکو گے۔ اب سورة النحل میں بیان کیا جائے گا کہ اگر تم دعوٰی توحید کو نہیں مانتے اور ضد و عناد کی وجہ سے عذاب الہی کا مطالبہ کر رہے ہو تو عذابِ الہی آیا ہی سمجھو۔ عذاب مانگنے میں زیادہ جلدی نہ کرو۔

خلاصہ مضامین سورة الحجر

آیة ۔1
أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
اردو:
اللہ کا حکم یعنی عذاب گویا آ ہی پہنچا تو کافرو اس کے لئے جلدی مت کرو۔اور یہ لوگ جو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
میں سورة الحجر کے ربط وتعلق سے فرمایا اگر سب کچھ جاننے اور سننے کے بعد بھی نہیں مانتے تو تیار ہوجاؤ عذاب الہی آیا ہی چاہتا ہے۔ اب جلدی نہ کرو۔ چنانچہ اہل مکہ اس کے فورا بعد قحط کے شدید عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ جیسا کہ آخر میں اس کا بیان ہے۔
آیة 112.
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اردو:
اور اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو کہ ہر طرح امن چین سے تھی ہر طرف سے اس کا رزق با فراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انکے اعمال کے سبب انکو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا۔

باعتبار مضامین سورة النحل کے دو حصے ہیں ۔
حصہ اول:
ابتدا سورة سے لے کر آیة 12 تک
اس میں نفی شرک اعتقادی کا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس حصے میں تین بار دعوی سورة مذکور ہے۔ نہ ماننے کی وجہ سے مشرکین پر عذاب آیا۔ توحید پر چھ دلائل عقلیہ ، ایک نقلی دلیل اور ایک دلیل وحی بیان کی گئی ہے۔ ضمنا بطور زجر دو بار نفی شرک فعلی کا ذکر کیا گیا اور مسئلہ توحید کی خاطر ہجرت کی فضیلت بھی مذکور ہے۔
حصہ دوم :

آیة 114:
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اردو:
پس اللہ نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بھی کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔
تا
آیة :119
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اردو:
پھر جن لوگوں نے نادانی سے غلط کام کر لیا۔ پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیکوکار ہو گئے تو تمہارا پروردگار انکو توبہ کرنے اور نیکوکار ہو جانے کے بعد بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔

اس حصہ میں نفی شرک فعلی کا بیان ہے اور شرک فعلی کی مندرجہ ذیل شقوں کا بیان کیا گیا ہے۔
شق اول: تحریمات لغیر الله
شق دوم: نذرونیاز لغیر الله

تخویف اخروی اور سوال مقدر کا جواب ، تبشیر اور آخر میں آیة 120
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اردو:
بیشک ابراہیم لوگوں کے امام اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔

نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی پر حضرت ابراھیم علیہ السلام سے دلیل نقلی بیان کی گئی ہے۔

آیة :123
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اردو:
پھر اے نبی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔

نفی شرک فعلی پر دلیل وحی ہے۔

آیة :125
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اردو:
اے پیغمبر لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اسکے راستے سے بھٹک گیا۔ تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔

میں طریقہ تبلیغ کا ذکر ہے۔ اور پھر آیة :127

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
اردو:
اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ سازشیں کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو۔

میں تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم ہے۔

 

ام اویس

محفلین
سورة بنی اسرائیل
روابط
ربط اسمی:-
سورة بنی اسرائیل کا سورة النحل سے اسمی ربط یہ ہے کہ نحل (شہد کی مکھی) الہامِ الہی سے جس طرح شہد بناتی ہےاس سے الله تعالی کے متصرف و کارساز ہونے کا پتہ چلتا ہے؛اس لیے تم یہ بات مان لو۔ اگر نہیں مانو گے اور بنی اسرائیل کی طرح شرک کرکے زمین میں فساد کرو گے تو عذابِ خداوندی سے ہلاک کر دئیے جاؤ گے۔
ربط معنوی :-
سورة النحل میں مشرکین کے مطالبۂ عذاب کو پورا کرنے کا ذکر تھا۔ مشرکین ازراہِ عناد کہتے تھے کہ جس عذاب سے تو ہمیں ڈراتا ہےاس میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔ اس پر الله تعالی نے مشرکینِ مکہ کو سخط ترین قحط میں مبتلا کر دیا۔ جس کا ذکر سورة النحل کی آیت نمبر ۱۱۲ میں ہے۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہِ فَأَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

اردو :- اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔

مگر وہ عذاب ایسا تھا جس میں ان کو ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ ان کو تکلیف میں ڈالا گیا تاکہ ان کو مشرکانہ اعمال کا احساس ہو اور وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان پر سے قحط کا عذاب ہٹا کر ان کو مزید موقع دیا گیا تاکہ وہ الله تعالی کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں اور شرک سے باز آ جائیں؛ مگر ان ظالموں نے نہ تو عذاب سے عبرت حاصل کی اور نہ عذاب اٹھا لینے سے نرم ہوئے بلکہ ضد وعناد اور انکار پر اڑے رہے اور ایک بے جا مطالبہ پیش کر دیا کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھایا جائے ، تاکہ ہمیں آپ کی صداقت کا یقین ہو جائے۔ پھر ہم مسئلہ توحید کو مان لیں گے۔
سورة الرعد آیت ۷
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ
اردو :
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔
سورة بنی اسرائیل میں فرمایا: ہم نے تمہیں معجزہ اسری دکھا دیا ہے اگر یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر بھی نہیں مانو گے تو ہلاک کر دیے جاؤ گے؛ کیونکہ معجزات تخویف کے لیے دکھائے جاتے ہیں اور یہ ہماری سنتِ جاریہ ہے کہ جب کوئی قوم معجزہ دیکھنے کے بعد بھی نہیں مانتی تو اس کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ قومِ ثمود نے معجزہ ناقہ دیکھنے کے بعد بھی مسئلہ توحید کو نہ مانا تو ان کو ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح قومِ فرعون عصا ، یدِ بیضا اور دیگر معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی تو اسے غرق کر دیا گیا۔
خلاصہ مضامین سورة بنی اسرائیل
اس سورة میں معجزاتِ اسرٰی کا ذکر کیا گیا۔ معجزہ اسرٰی مسئلہ توحید کی خاطر دکھایا گیا تھا اس لیے اس سورة میں دو قسم کی آیات نازل کی گئی ۔
اول : مسئلہ توحید کے متعلق آیات ؛ جس کی خاطر یہ معجزہ دکھایا گیا۔
دوم: وہ آیات جن میں معجزات کا ذکر ہے۔ جن سے مقصود تخویف ہے۔ یعنی اگر اس معجزے کے بعد بھی تم مسئلہ توحید کو نہ مانو گے تو ہلاک کر دیے جاؤ گے۔
دعوٰی سورة کا مرکزی مضمون جس کی سچائی کے اظہار کے لیے معجزہ اسرٰی دکھایا گیا اس کی تفصیل سورة کے آخر میں دی گئی ہے۔
سورة بنی اسرائیل :
قُلِ ادْعُوا اللَّ۔هَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَ۔ٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ
اردو: کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔

یعنی جو چاہے کہہ کر پکارو مگر پکارو صرف اسی کو اس کے علاوہ اور کسی کو نہ پکارو۔ فلہ الاسماء الحسنی میں فا تعلیہ ہے کیونکہ اس کے بہت سے اچھے نام ہیں۔

وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١١٠﴾
اردو: نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔

میں نماز کا ذکر ہے اور نماز کا طریقہ تعلیم دیا گیا ہے کہ نہ بلند آواز سے پکارو کہ مشرکین استھزاء کریں اور نہ بالکل آہستہ آواز سے کہ صحابہ کو تعلیم نہ ہوسکے۔

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ﴿١١١﴾
اردو:
اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره۔

وقل الحمد لله الذی یہ قل ادعوا الله کی دلیل ہے۔ یعنی صرف الله تعالی کو پکارو اس لیے کہ تمام صفاتِ کارسازی کا وہی مالک ہے۔ اس کا کوئی نائب نہیں اور نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار ۔
اس سورة میں دس آیاتِ توحید ہیں جنکی تقسیم کچھ اس طرح ہے۔
چھ دلائلِ عقلیہ
تین دلائلِ نقلیہ
ایک دلیلِ وحی

اس کے علاوہ پانچ آیاتِ معجزہ ہیں ۔ حسبِ مواقع تخویفِ دنیوی کا نمونہ ، تخویفِ دنیوی و تخویفِ اخروی ، شکوے ، جواب شکوے ، زجریں ، امر مصلح نماز کا ذکر، رفع عذاب کے لیے امورِ ثلاثہ کا بیان ، ترغیب الی الاخرٰی اور طریقہ تبلیغ ہے۔
 

ام اویس

محفلین
روابط سورة کہف
سورة الفاتحہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ مضامین کے اعتبار سے قران مجید چار حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصہ “الحمد“ سے شروع ہوتا ہے۔
سورة الکہف کی “الحمد“ سے تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ الله سبحانہ و تعالی کی خالقیت اور ربوبیت کے بعد اس حصے سے اس کی حاکمیت کا بیان ہے۔ یعنی خالق و مالک ہونے کے ساتھ وہ الله ہی حاکم اعلی ہے۔ ہر طرح کے اختیارات اسی کے قبضہ میں ہیں اور اس نے اپنے اختیارات میں سے کوئی اختیار کسی نبی ،ولی ، جن یا پیغمبر کے حوالے نہیں کیا۔

ربط معنوی:
مشرکین نے مسئلہ توحید کا انکار کرنے کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو مطالبے رکھ دئیے۔
مطالبہ اوّل:

فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

یعنی جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب ہم پر لے آئیں۔
مطالبہ ثانی:

وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط

یعنی اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔
جواب مطالبہ اوّل:
سورة النحل کی ابتدا میں الله تعالی نے فرمایا:

أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ

یعنی الله کا عذاب آکر رہے گا تم اس کی آمد کا مطالبہ نہ کرو۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ جس مسئلہ توحید کا تم انکار کر رہے ہو وہ اس قدر اہم اور ضروری ہےکہ اس کی خاطر تمام انبیاء علیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے۔

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو (2)النحل
مشرکینِ مکہ کے مطالبہ عذاب کو الله تعالی نے ان پر قحط کا عذاب مسلط کرکے پورا کر دیا۔چنانچہ سورة کے پندرھویں رکوع میں ارشاد ہے:

وَضَرَبَ اللَّ۔هُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّ۔هِ فَأَذَاقَهَا اللَّ۔هُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴿١١٢

اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا (112) النحل
جواب مطالبہ ثانی:
مشرکینِ مکہ کے دوسرے مطالبے کا جواب الله تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل میں دیا:


سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١

پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے۔

ربط ثالث​
جس مسئلہ توحید کو سورۃ النحل کی ابتدا میں ذکر کیا گیا اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں ایک دوسرے انداز میں کیا گیا۔

قُلِ ادْعُوا اللَّ۔هَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَ۔ٰنَ ۖأَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١١٠

کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔

یعنی الله تعالی کی بے شمار اعلی صفات ہیں تم اس کو خواہ کسی صفت سے پکارو تمہیں اختیار ہے مگر صرف اسی کو پکارو، اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔
اس کے بعد فرمایا:

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ﴿١١١

اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره

یہ ماقبل کے لیے بمنزلہ دلیل ہے، یعنی تمام صفاتِ کارسازی الله تعالی کے لیے مختص ہیں جس کا کوئی نائب اور شریک نہیں اور نہ کوئی اس کا مددگار ہے۔

اب سورة کہف کے شروع میں فرمایا:

الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ﴿١

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔

اس میں الحمد لله دعوی ہے یعنی تمام صفاتِ کارسازی صرف الله تعالی کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بعد دعوی توحید پر دلائل مذکور ہیں۔
خلاصہ مضامین سورة کہف​
انبیاء، اولیا، ملائکہ و جنات کے متعلق مشرکین بعض الجھنوں میں مبتلا تھے، جن کی وجہ سے وہ انہیں عالم الغیب، مالک و متصرف اور کارساز سمجھتے تھے۔ اس سورة میں مشرکین کے چار شبھات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
پہلا شبہ :
اصحاب کہف جو رئیسوں کے بیٹے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے غلاموں کے بیٹے تھے تین سو نو سال تک غار میں صحیح سلامت پڑے رہے، اتنے لمبے عرصے میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی، یہاں تک کہ اس دوران وہ دھوپ کی تپش سے بھی محفوظ رہے۔ اس سے مشرکین کو شبہ ہوا کہ وہ مافوق الاسباب قدرت و طاقت کے مالک تھے۔ اس لیے انہوں نے اصحاب کہف کی نذریں ، نیازیں دینا شروع کردیں، چنانچہ وہ سات روٹیاں اصحابِ کہف کے نام کی اور آٹھویں ان کے کتے کے نام کی دینے لگے۔

جواب شبہ :
شبہ اولی کا مختصر جواب دیا گیا کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ہماری قدرت کے نشانات میں سے ہے اس میں اصحاب کہف کے اپنے تصرف و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ مشرک بادشاہ دقیانوس سے بھاگ کر انہوں نے ایک غار میں چھپ کر اپنی جان بچائی اور وہاں انہوں نے الله تعالی سے رحمت اور معاملے کی درستی کی دعا مانگی۔ ہم نے غار میں انہیں مدتِ دراز تک سُلا دیا، پھر انہیں بیدار کیا۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اصحاب کہف متصرف و مختار نہ تھے بلکہ الله تعالی کے مواحد اور عاجز بندے تھے۔

دوسرا شبہ:
کچھ لوگ بعض حالات میں جنوں سے مدد طلب کرتے اور ان کو پکارتے تھے۔ تمام کام تو الله کے حکم سے ہوتے مگر وہ سمجھتے تھے کہ ان کے کام جنوں نے کیے ہیں۔

جوابِ شبہ:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗأَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا، یہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اوﻻد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حاﻻنکہ وه تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ﻇالموں کا کیا ہی برا بدل ہے۔

یعنی جو لوگ جنوں اور اولیاء الله کو متصرف اور کارساز مان کر انہیں حاجات اور مشکلات میں پکارتے ہیں اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ ان کی قبروں اور مقبروں سے گھاس نہیں اکھاڑتے اس ڈر سے کہ وہ نقصان پہنچائیں گے در حقیقت یہ لوگ شیطان اور جنوں کو پکارتے ہیں۔ حالانکہ شیطان اور جن کس طرح ان کے دوست، کارساز اور مدد گار ہو سکتے ہیں۔

تیسرا شبہ:
شبہ یہ تھا کہ موسی علیہ السلام اور خضر کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی علیہ السلام تو غیب دان نہیں تھے لیکن خضر غیب جانتے تھے کیونکہ انہوں نے موسی علیہ السلام سے بہت سے غیبی امور بیان کیے تھے۔

جواب شبہ:
آیات : ۴۰ تا ۸۲ سے اس شبہ کا جواب دیا کہ حضرت خضر علیہ السلام غیب دان اور متصرف نہ تھے انہوں نے جو کچھ کیا یا جو کچھ موسی علیہ السلام کو بتایا وہ سب الله تعالی کے حکم اور اس کی تعلیم سے بتایا تھا۔

چوتھا شبہ:
یہود میں ذوالقرنین کے متعلق مشہور تھا کہ الله نے انہیں بہت طاقت و قدرت دی تھی۔ وہ بھی کارساز اور متصرف ہیں۔

جواب شبہ
آیات: ۸۳ سے ۹۷
ذوالقرنین کو اگرچہ بقدر ضرورت ظاہری اسباب دئیے گئے تھے مگر مافوق الاسباب امور میں سے کسی ایک پر بھی ان کو قدرت نہیں دی گئی، پھر ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی وہ ہر طرف سے عاجز تھے۔ مشرق میں گرمی کی وجہ سے، مغرب میں دلدل کی وجہ سے، شمال میں یاجوج ماجوج کی وجہ سے۔

چاروں شبھات کا جواب دینے کے بعد آخری آیات کو لف و نشر کے طور پر چاروں جوابات پر متفرع کیا گیا ہے۔ یعنی الله تعالی کے نیک بندے غیب دان اور کارساز نہیں تو جنات میں یہ صفت کیسے ہو سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
روابط سورة مریم
سورة کہف میں مشرکین کے شبھات کا ازالہ کیا گیا۔ ان میں سے جو شبھات باقی رہ گئے تھے ان کا ذکر سورة مریم میں ہے گویا یہ سورت سورۃ کہف کے لیے بمنزلہ محور ہے۔
خلاصہ سورة مریم
مضامین کے اعتبار سے یہ سورة دو حصوں میں منقسم ہے۔
حصہ اوّل: آیۃ نمبر -1 تا آیۃ نمبر 65
رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚهَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ‎﴿٦٥﴾‏
آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟

اس حصے میں مشرکین کے شبھات کا جواب دیا گیا ہے۔ کچھ شبھات انبیاء علیھم السلام کے متعلق ہیں، ایک شبہ حضرت مریم علیھا السلام کے بارے میں اور ایک شبہ فرشتوں کے متعلق تھا۔
شبہ اول:
حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق تھا، یہود ان کو متصرف و مختار سمجھ کر پکارتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ زکریا علیہ السلام کی آخری عمر میں خلافِ عادت بیٹے کا پیدا ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ جو چاہیں الله تعالی سے کروا سکتے ہیں اور الله تعالی ان کی بات کو رد نہیں کرتے۔
رکوع نمبر ایک میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ خارقِ عادت امر الله تعالی نے خود ظاہر فرمایا جب حضرت زکریا علیہ السلام نے الله تعالی سے بیٹے کی دعا کی تھی۔

شبہ ثانی:
حضرت مریم اور حضرت عیسی علیھما السلام کے متعلق تھا ۔ عیسائیوں کا خیال تھا کہ مریم علیھا السلام کے پاس بے موسم پھل آتے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے، کوڑیوں اور مادر زاد اندھوں کو بھلا چنگا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں ما فوق البشر قدرت اور طاقت کے مالک تھے اس لیے ان کو پکارنا چاہیے۔
دوسرے شبے کا جواب دیا گیا کہ مریم علیہ السلام تو خود الله کے حضور عاجزی کر رہی تھیں اور عیسیٰ علیہ السلام اعلان کر رہے تھے کہ الله میرا اور ہم سب کا معبود ہے۔

شبہ ثالث :
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے بارے میں تھا۔ یہود ونصاری اور مشرکینِ عرب ان کو کارساز سمجھ کر پکارتے تھے۔
رکوع نمبر تین میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ تو خود معبودانِ باطلہ کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے توحید پر قائم رہتے ہوئے ان باطل معبودوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ باطل معبود تمہاری حاجات کو پورا نہیں کر سکتے اس لیے ان کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔
اس کے علاوہ تین پیغمبروں ( موسی، اسماعیل اور ادریس علیھم السلام ) کا بھی مختصر ذکر کیا گیا ۔ ان تینوں کو بھی پکارا گیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا:
وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ‎﴿٥٢﴾‏
ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا۔
یعنی موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے نبوت عطا کی اور ہارون کو ان کا معاون بنایا۔ یہ سب کچھ کرنے والے ہم ہیں اس لیے وہ کارساز نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح اسماعیل علیہ السلام بھی ہمارے فرمانبردار بندے تھے، وہ خود ہماری عبادت کرتے اور دوسروں کو بھی ہماری عبادت کا حکم دیتے تھے اس لیے وہ پکارے جانے کے لائق نہیں۔
ادریس علیہ السلام کو بھی ہم نے درجاتِ عالیہ عطا کیے ، اس لیے وہ کارساز نہیں ہیں۔
اس کے بعد تمام انبیاء علیھم السلام کے متعلق فرمایا وہ سب الله کی مخلوق تھے اور اپنے آباء و اجداد کی اولاد تھے اس لیے وہ بھی متصرف یا کارساز نہیں ہیں۔
فرشتوں کے متعلق بھی شبہ تھا کہ وہ ہر وقت الله تعالی کے پاس رہتے ہیں اس لیے الله نے اپنے بعض اختیارات ان کے حوالے کر رکھے ہیں۔ مشرکین کہتے تھے کہ فرشتے الله تعالی کی بیٹیاں اور نائب ہیں۔
رکوع :4 آیت :64 میں اس کا جواب دیا گیا۔

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ‎﴿٦٤﴾‏
ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے، ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار بھولنے واﻻ نہیں۔
کہ فرشتے خود الله کے حکم کے پابند ہیں وہ الله کے حکم کے بغیر زمین پر نہیں اتر سکتے۔ عاجز اور محکوم ہونے کی وجہ سے وہ عبادت کے لائق نہیں۔
اسی دوران انبیاء کے ذکر کے بعد
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾‏
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا۔

میں ایک سوال مقدر کا جواب دیا گیا۔ سوال یہ تھا کہ تمام انبیاء الله تعالی کو ہی متصرف سمجھ کر پکارتے تھے تو پھر ان کو کیوں متصرف سمجھا گیا اور کیوں حاجات میں پکارا گیا؟
اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کو ناحق شناس لوگوں ، علمائے سوء اور پیرانِ سیاہ کار نے بعض نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے معبود بنایا، لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے شرک کی تبلیغ کی۔
حصہ اول میں شبھات دور کرنے کے بعد
رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚهَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ‎﴿٦٥﴾‏
آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟

بطورِ ثمرہ اصل دعوے کا ذکر کیا گیا کہ زمین و آسمان کا خالق و مالک الله رب العزت ہے ۔ اس کا ہم سر اور ہم صفت نہیں کوئی نہیں لہذا ! صرف اسی کو پکارو۔
 

ام اویس

محفلین
حصہ ثانی:
حصہ ثانی میں شکوے، زجریں، تخویفیں اور بشارتیں ہیں ۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے تسلی بھی مذکور ہے۔ سورة کے اختتام پر وہی مضمون دہرایا گیا ہے جو سورة کہف کی ابتدا میں مذکور ہے۔
سورة کہف میں فرمایا گیا کہ قرآن مجید ان لوگوں کو ڈر سنانے کے لیے ہے جو الله تعالی کے لیے ولد یا نائب تجویز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الله نے اپنے اختیارات اپنے برگزیدہ بندوں کو سونپ رکھے ہیں، اور ان لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے ہے
جو خالص الله جل جلالہ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ۔ اس سورة کے اختتام میں بھی انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے۔ البتہ جھگڑالو لوگوں کو ”قوم لُداً“ اور دوسرے فریق کو ”المتقین“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس حصے میں دو خاص باتیں مذکور ہیں۔
1- وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ‎﴿٨١﴾‏
انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وه ان کے لئے باعﺚ عزت ہوں

ان کی عبادت سے مشرکین کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا میں ان کے مددگار اور کارساز بنیں۔

2- لَّا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا ‎﴿٨٧﴾‏
کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے ان کے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی قول قرار لے لیا ہے۔

شفاعتِ قہری کی نفی ، یعنی یہ معبودانِ باطلہ مشرکین کی سفارش نہ کر سکیں گے اور نہ ان کے کام آ سکیں گے۔
 

ام اویس

محفلین
سورۃ طٰهٰ
روابط
اسمی ربط

سورۃ طٰہ کا سورۃ مریم سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة مریم میں حضرت مریم علیھا السلام کے احوال سے معلوم ہو گیا کہ وہ متصرف و کارساز نہ تھیں اب سورۃ طٰہ میں کہا گیا

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي

یعنی اے موسٰی میں ہی سب کا الہ ہوں لہذا مجھے ہی پکارو!

معنوی ربط

توحید کے متعلق جس قدر شبھات تھے، سورۃ کہف اور سورۃ مریم میں ان کا جواب دے دیا گیا اس کے بعد سورۃ طٰہٰ میں کہا گیا کہ اب مسئلہ توحید کی خوب خوب تبلیغ کرو اور اس سلسلہ میں جس قدر مصائب آئیں ان کو مردانہ وار برداشت کرو ، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے توحید کی خاطر فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں تکلیفیں برداشت کیں۔

خلاصہ سورۃ طٰہٰ

سورۃ طٰہٰ میں دو مضمون مذکور ہیں۔

توحید

یعنی الله تعالی ہی عالم الغیب، متصرف و مختار اور کارساز ہے ۔ لہذا حاجات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو ۔ اس سلسلہ میں پانچ آیاتِ توحید بیان کی گئیں۔

آیاتِ تشجیع

ان آیات کا مقصد جرات دلانا اور شجاعت و بہادری سے مسئلہ توحید کی تبلیغ کی ترغیب دینا ہے۔ آیات تشجیع بھی پانچ ہیں۔

اس کے بعد موسٰی علیہ السلام کی الله جل جلالہ کے حضور پانچ درخواستیں مذکور ہیں اور موسٰی علیہ السلام پر الله تعالی کے پانچ انعامات کا ذکر ہے۔ بعد میں حسبِ موقع تبشیرِ اخروی، تخویفِ دنیوی، شکوہ اور جوابِ شکوہ بیان کیا گیا ہے۔

حضرت موسٰی علیہ السلام کی پانچ درخواستیں

۱- قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي

کہا اے میرے پروردگار اس کام کے لئے میرا سینہ کھولدے۔

۲- وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي

اور میرا کام آسان کر دے۔

۳- وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي

اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔

يَفْقَهُوا قَوْلِي

تاکہ وہ میری بات سمجھ لیں۔

۴- وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي

اور میرے گھر والوں میں سے ایک کو میرا وزیر یعنی مددگار مقرر فرما۔

۵- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي

اور اسے میرے کام میں شریک کر۔

قبولیت دعا:

قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى

فرمایا: موسٰی تمہاری دعا قبول کی گئی

اس کے بعد، قبلِ نبوت موسی علیہ السلام پر الله تعالی کے پانچ احسانات کا ذکر ہے۔


 

ام اویس

محفلین
سورة انبیاء

ربط ماقبل

سورة طٰہ میں یہ بتایا گیا کہ الله تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ پیغام دیا تھا کہ الله تعالی کے سوا کوئی حاجت روا اور کار ساز نہیں ، لہٰذا صرف اسی کو پکارو۔

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي

اب سورۃ انبیاء میں علی سبیل الترقی یہ بتایا جائے گا کہ نہ صرف حضرت موسی علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف یہی وحی کی گئی تھی کہ الله کے سوا کوئی حاجت روا اور کارساز نہیں لہذا اسی کو پکارو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
الانبیاء: 7
اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔

خلاصہ مضامین سورۃ انبیاء

سورة انبیاء کا دعوی یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام باتیں جاننے والا صرف الله تعالی ہی ہے لہذا صرف وہی کارساز اور متصرف و مختار ہے۔ حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔

یہ دعوٰی آیت نمبر 4 میں مذکور ہے۔

قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ


پیغمبر ﷺ نے کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں کہی جاتی ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔

اس دعوی کے اثبات پر تین عقلی اور گیارہ نقلی دلائل پیش کیے گئے، ایک نقلی دلیل اجمالی اور باقی نقلی دلائل کا ذکر تفصیل سے کیا گیا آخر میں ایک دلیل وحی بیان کی گئی۔
دعوی توحید سے پہلے اور دعوی بیان کرنے کے بعد مشرکین پر زجر و شکوی ہے جو آںحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہتے تھے، آپ کی لائی ہوئی دعوت کا انکار کرتے ہوئے حجت بازی کرتے اور کہتے تھے یہ تو آدمی ہے پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہیے ۔
اس کے بعد تین مقدر سوالوں کا جواب دیا گیا۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔

اس آیت میں پہلے مقدر سوال کا جواب ہے یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم سے پہلے بھی جتنے نبی اور رسول آئے سب آدمی اور بشر ہی تھے۔

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ

اور ہم نے انکے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں۔

سے دوسرے مقدر سوال کا جواب دیا گیا کہ تمام انبیاء کھاتے پیتے تھے۔

وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔

سے تیسرے سوال مقدر کا جواب دیا گیا یعنی وہ بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہ رہے۔

آیت نمبر 11 میں تخویفِ دنیوی کا بیان ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے انکی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔

آیت 25 میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دی گئی۔

اس کے بعد آیت 26 سے 28 تک شکوی کا جواب سات وجوہ سے دیا گیا ۔

آیت 16

پہلی عقلی دلیل

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو مخلوقات ان دونوں کے درمیان ہے اس کو کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں کیا۔

آیت 19.

دوسری عقلی دلیل

وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کا مال ہیں اور جو فرشتے اسکے پاس ہیں وہ اسکی عبادت سے نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔

آیت: 30

تیسری عقلی دلیل

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انکو جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔

آیت نمبر 25 میں دلیل نقلی اجمالا از انبیاء پیش کی گئی۔ آیت 48 میں پہلی نقلی دلیل تفصیلا از موسی و ہارون علیھما السلام دی گئی پھر آیت 51 سے ابراھیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے دوسری نقلی دلیل تفصیل سے پیش کی گئی۔ آیت 71 سے تیسری دلیل نقلی تفصیلا از لوط علیہ السلام کا بیان ہے اور آیت 76 سے نقلی دلیل تفصیلا از نوح علیہ السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ پانچویں نقلی دلیل تفصیلا آیت 78 سے حضرت داود اور سلیمان علیہ السلام کے واقعے کو بیان کرکے دی گئی۔ پھر آیت 83 میں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر کرکے چھٹی نقلی دلیل کو تفصیلا بیان کیا گیا۔ ساتویں نقلی دلیل آیت 85 اور آٹھویں دلیل نقلی آیت 87,88 میں بیان کی گئی۔ نویں نقلی دلیل حضرت زکریا علیہ السلام پر آیت 89,90 میں دی گئی اور دسویں نقلی دلیل آیت 91 میں حضرت عیسی و مریم علیھم السلام کے ذکر سے قائم کی گئی۔

گیارھویں نقلی دلیل آیت 92 میں تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف نسبت سے بیان کی گئی۔

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

لوگو یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔

آیت: 92

مذکوہ انبیاء اور ان کے علاوہ جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے گئے سارے کے سارے صرف ایک الله کی عبادت کرتے تھے، نیکی کے کاموں کو بجا لاتے تھے اور امید و خوف ہر حالت میں صرف الله رب العزت ہی کو پکارتے تھے۔
سورت کے آخر میں اس دعوی کا اعادہ کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں وہی غیب دان اور متصرف و مختار ہے۔

۔۔۔۔۔​
 
Top