روابط سورة آل عمران
سورة آل عمران کا سورة بقرہ سے تین طرح کا ربط ہے
ربط اوّل :-
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی
ربط ثانی ۔ معنوی
سورة بقرہ میں
فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
سے مسلمانوں کو کافروں کے مقابلے میں الله تعالی سے نصرت ومدد طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ۔
سورة آل عمران میں بتایا کہ وہ کون سے کفار ہیں جن کے خلاف لڑنا چاہیے ۔ جو الله کے نیک بندوں کو الله تعالی کا شریک بناتے ہیں اور ان کو مالک ومختار سمجھ کر حاجات ومشکلات میں پکارتے ہیں جس طرح نصارٰی حضرت عیسٰی و مریم علیھما السلام کو معبود سمجھتے اور انہیں مافوق الاسباب پکارتے تھے ۔
ربط ثالث :-
سورة بقرہ میں قرآن مجید کے جن تمام مضامین کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ان میں سے چار اہم مضامین کو سورة آل عمران میں بیان کیا گیا ۔
۱- توحید :-
ابتدائے سورة سے لے کر رکوع ۸ (إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ) آیة نمبر 80 تک توحید کا بیان ہے ۔
جس کے ساتھ نصاری کے مشرکانہ عقائد کا رد کیا گیا ۔
۲ - رسالت :-
نویں رکوع کی ابتدا آیة 81 سے
وَإِذْ أَخَذَ الله مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب الله نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اور عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم اس عہدوپیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
سے لے کر دسویں رکوع کی انتہا ۔۔ آیة ۔ 101 تک
وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَن يَعْتَصِم بِاللهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور تم کیوں کر کفر کرو گے جبکہ تم کو الله کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے الله کی رسی کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت و صداقت کا بیان ہے ۔
۳- جہاد فی سبیل الله :-
رکوع ۱۱ آیة ۔ 102 سے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
مومنو! الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔
رکوع ۱۹ ۔ آیة 188 تک
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور وہ کام جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا۔
الله کی راہ میں لڑنا یعنی جہاد فی سبیل الله کا بیان ہے ۔
۴ - انفاق فی سبیل الله :-
سورة کے شروع میں ترغیب الی الجہاد اور ساتھ ہی انفاق فی سبیل الله کا ذکر ہے ۔
سورة آل عمران کے بیسویں یعنی آخری رکوع میں چاروں مضامین یعنی توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله اور انفاق فی سبیل الله کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے ۔
سورة کی آخری آیت میں چاروں مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے اہل ایمان کفار کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو۔ اور الله سے ڈرو۔ تاکہ مراد حاصل کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔ میں توحید کی طرف صراحتاً اور رسالت کی طرف تبعاً اشارہ ہے ۔
اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا ۔۔۔۔ میں جہاد کی طرف صراحتا اور انفاق کی طرف اجمالاً اشارہ ہے
والله اعلم