قرآن مجید کی سورتوں کے مضامین کا آپس میں ربط

ام اویس

محفلین
بسم الله الرحمٰن الرحیم

اصول تفسیر القرآن الحکیم
  1. تفسیر القرآن بالقرآن
  2. تفسیر القرآن بالحدیث الصحیح و سُنّةٍ صحیحةٍ
  3. تفسیر القرآن من اقوال و افعال صحابةٍ کرام رضوان الله علیھم اجمعین
  4. تفسیر القرآن باجماعِ اُمّةٍ
  5. تفسیر القرآن باللغة العرب
  6. تفسیر القرآن بالرائے ( وہ رائے جو مندرجہ بالا پانچ اصولوں کے خلاف نہ ہو )
 

ام اویس

محفلین
سورة الفاتحہ

بعض آئمہ تفسیر کے نزدیک قرآن مجید میں چار مضامین بیان ہوئے ہیں ۔

  1. خالقیت ۔ ( سورة الفاتحہ کی الحمد سے لے کر سورة مائدہ کے آخر تک)
  2. ربوبیت ۔ (سورة انعام کی الحمد سے لے کر سورة بنی اسرائیل کے آخر تک )
  3. بادشاہت ۔ ( سورة کہف کی الحمد سے لے کر سورة احزاب کے آخر تک )
  4. قیامت ۔ سورة سبا کی الحمد سے لے کر سورة النّاس کے آخر تک )
اور بعض آئمہ تفاسیر کے نزدیک قرآن مجید میں چھ مضامین ہیں ۔
  1. توحید
  2. رسالت
  3. قیامت
  4. احکامِ عبادت
  5. احکام شریعت
  6. قصص ( ۱- ماننے والوں کے احوال ۔ ۲- نہ ماننے والوں کے احوال )
 

ام اویس

محفلین
اسماء سورة الفاتحہ

فاتِحَةُ الْکِتاب ۔۔۔ کتاب کا افتتاح کرنے والی
سورةُ الْحمد ۔۔۔ تعریف کی سورة
اُمُّ الْکِتَابِ ۔۔۔ کتاب کی ماں
اُمُّ الْقُرآن ۔۔ قرآن کی ماں
اَلسّبْعَ الْمَثَانی ۔۔۔ سات دہرائی جانے والی آیات
سُورَة الصّلٰوةِ ۔۔۔ نماز کی سورة
سورةُ الوافیةِ ۔۔ وفا کی سورة
سورةُ الکافیة ۔۔۔ کفایت کرنے والی سورة
سورةُ الکنزِ ۔۔۔ خزانے کی سورة
سورة الشّفَآء ۔۔۔ شفا کی سورة
اساسُ القرآن ۔۔۔ قرآن کی بنیاد
اَخْیَرُ سُورةٍ ۔۔۔ سب سے پسندیدہ سورة
اعْظَمُ سورةٍ ۔۔۔ سب سے بڑی سورة
اَلقُرآنُ العظیم ۔۔۔ بڑا قرآن مجید
تَعلیمُ المسئلةِ ۔۔۔ مانگنے کی تعلیم


اَلْفَاتِحَةُ سِرُّ القرآنِ و سِرُّھا ھٰذِہِ الکلمات

اِیّاک نَعْبُدُ وایّاک نَسْتَعِینُ

حوالہ ۔۔ ابن کثیر
 

ام اویس

محفلین
اسماء سورة البقرة
سورة البقرة

سنام ُالقرآن

فِسطَاط القرآن

شانِ نزول سورة البقرہ

مالک بن حنیف یہودی کہتا تھا یہ وہ کتاب نہیں جس کا ذکر تورات اور انجیل میں آیا ہے ۔ چنانچہ اس کی تصدیق میں الله تعالٰی نے فرمایا
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

اردو:

یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے پرہیزگاروں کیلئے راہنما ہے۔

البقرہ آیہ ۔ ۲

فضیلت سورة البقرہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَکُمْ مَقَابِرَ وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ
قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہوتا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ترمذی)

روح سورة بقرہ

دینی و دنیاوی لحاظ سے منظم ہوکر
لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
کے لیے کوشش اور جہاد کرنا
 

ام اویس

محفلین
روابط سورة البقرہ

سورة البقرہ کا سورة الفاتحہ سے چار طرح کا ربط ہے
  1. ربط اوّل ۔ اسمی یا نامی

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ

(اے الله ) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سےمدد مانگتے ہیں اور ہم گائے کی نہ تو عبادت کرتے ہیں نہ اس سے مدد مانگتے ہیں جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا

ربط ثانی

سورة الفاتحہ میں

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

‎ہم کو سیدھے رستے چلا۔

سے ہدایت کی درخواست کی گئی تھی ۔ اب سورة البقرہ کے آغاز

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے پرہیزگاروں کیلئے راہنما ہے۔

سے اس کی منظوری آگئی کہ یہ کتاب سرچشمہ حیات ہے اور سیدھی راہ دکھاتی ہے ۔
پھر اس سورة میں ہدایت کے مکمل پروگرام کا بیان فرمایا ۔

ربط ثالث

سورة الفاتحہ میں تین جماعتوں کا ذکر ہوا ہے

  1. مُنعَم علیھم ۔ جن پر انعام کیا گیا مرادمؤمنین ہیں ۔
  2. مَغْضُوبٌ عَلَیھم ۔ اس سےمراد وہ لوگ ہیں جو فساد باطن کے ساتھ ساتھ فسادِ عمل میں بھی مبتلا ہیں ۔ یعنی نہ تو ان کے عقائد درست ہیں اور نہ ہی ان کے اعمال درست ہیں یہ کافروں کا گروہ ہے ۔
اَلضّآلّین ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف فسادِ باطن کا شکار ہیں یعنی ان کے عقائد میں تو کفر وشرک کی گندگی بھری ہوئی ہے البتہ ان کے کچھ ظاہری اعمال مسلمانوں کے سے ہیں یہ منافقوں کا گروہ ہے ۔
سورة الفاتحہ میں ان تینوں جماعتوں کا ذکر اجمالی طور پر تھا ۔ سورة البقرہ میں لف ونشر مرتب کے طور پر قدرے تفصیل سے ان کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے کچھ اوصاف اور جزاء وسزا کا بیان بھی آگیا ہے ۔

ربط رابع

سورة فاتحہ میں بندوں سے

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

کے ذریعے الله سبحانہ وتعالی کی توحید کا اقرار لیا گیا اور عبادت و استعانت کا الله تعالی ہی کے ساتھ خاص ہونے کا اعلان کیا گیا ۔
سورة البقرہ میں دعوٰی توحید کو مختلف مقاصد کے پیشِ نظر تین جگہ ذکر کرکے ہر جگہ عقلی دلیل سے واضح اور ثابت کیا گیا۔
سب سے پہلے آیہ ۲۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ

اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو

اور ساتھ ہی

الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 2️⃣1️⃣
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ

جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم اسکے عذاب سے بچو۔
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔

سے عقلی دلیل پیش کی گئی ۔

دوسری جگہ آیہ ۔ ١٦٣

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ

اور لوگو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس بڑے مہربان اور رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

سے دعوٰی توحید کا اعادہ کیا گیا اور ساتھ ہی آیہ ۱٦٤میں

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کے فائدے کے لئے رواں ہیں اور مینہ میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو اسکے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ یعنی خشک ہو جانے کے بعد سرسبز کر دیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

عقلی دلیل پیش کی گئی ۔

تیسری مرتبہ آیت ٢٥٥ یعنی آیت الکرسی میں دوبارہ دعوٰی توحید کو دہرایا گیا اور ساتھ ہی عقلی دلیل پیش کردی ۔

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

الله وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں

دلیل عقلی

الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

وہ زندہ ہے سب کو تھامنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش کر سکے۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے انکی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ ہے جلیل القدر ہے۔

سورة بقرہ میں تین بار دعوٰی توحید کو ذکر کرنے کا مقصد جداگانہ ہے ۔ پہلے موقع پر “شرک فی الدعاء “ کی نفی مقصود ہے ۔ دوسرے موقع پر “نذرومنت “ کی نفی کی گئی ہے اور تیسرے موقع پر شفاعت قہری کی نفی مقصود ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
یہ سب کچھ دورانِ تعلیم میرے ہاتھ کا قرآن مجید کے حاشیے پر لکھا ہوا موجود ہے ۔ زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے اس کی سیاہی مدہم ہو رہی ہے ۔ میں نے سوچا یہاں محفوظ کر دیتی ہوں ۔
کچھ حوالہ جات موجود نہیں کوشش کروں گی کہ گوگل سے اگر حوالہ وغیرہ مل سکا تو ساتھ ہی لکھ دوں ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة بقرہ کے مضامین
  1. توحید
  2. رسالت
  3. جہاد فی سبیل الله
  4. انفاق فی سبیل الله
  5. امور انتظامیہ
  6. امور مصلحہ
سورة بقرہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں شمار ہوتی ہے ۔مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں یہودی کافی تعداد میں آباد تھے اس لیے اس سورة میں یہود کی اصلاح کا پہلو نمایاں ہے ۔ تمام انبیاء اور کتب سابقہ کی تعلیمات کا ماحصل اور ان کی دعوت کا مرکزی نقطہ نظر توحید باری تعالٰی تھا یعنی صرف الله سبحانہ وتعالی ہی کو معبود و مستعان ، نافع و ضار اور نذر ومنت کا مستحق سمجھنا ۔
سورة البقرہ کا مرکزی مضمون یہی دعوتِ توحید ہے باقی تمام مضامین اس دعوٰی کے گرد گھومتے ہیں چنانچہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا سورة بقرہ میں تین مقامات پر دعوت توحید کو عقلی دلائل و عالمگیر حقائق سے واضح اور مدلل کیا گیا ۔
دعوٰی توحید کو بار بار ذکر کرنے سے توحید کے ہر پہلو سے اثبات اور شرک کی ہر پہلو سے نفی کرنا مقصود ہے
 

ام اویس

محفلین
سورة آل عمران
وجہ تسمیہ :-
اس سورة کے آخر میں آل عمران کا ذکر ہے اس لیے اس سورة کا نام آل عمران رکھا گیا ۔

شانِ نزول سورة آل عمران

مفسرین نے لکھا ہے کہ نجران کے نصارٰی کا ایک وفد مدینہ طیبہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو ان کے ساٹھ چیدہ چیدہ آدمیوں پر مشتمل تھا ۔ وفد میں تین آدمی سرکردہ تھے ۔
عاقب جس کا نام عبد المسیح تھا اور وہ امیر القوم تھا ۔
سید جس کا نام ایہم تھا اور وزیر مالیات وتجارت ، خورد ونوش وغیرہ تھا
ابو حارثہ بن علقمہ علماء کا پیشوا اعظم تھا ۔
یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے اور کہا کہ عیسٰی علیہ السلام الله کے بیٹے اور نائب ہیں ۔
اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیٹا باپ سے مشابہ ہوتا ہے ۔
ہمارا رب تو زندہ و جاوید ہے ۔ سارے جہانوں کا رزاق اور نگہبان ہے ۔ زمین اور آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۔ وہ ماں کے رحم میں اپنی مرضی کےمطابق بچے کی شکل بناتا ہے اور وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ۔
اب تم بتاؤ کیا ان تمام صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی عیسٰی علیہ السلام میں پائی جاتی ہے اگرنہیں تو وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں ۔
یہ سُن کر وہ ساکت رہ گئے اور ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا
حوالہ ۔ تفسیر خازن ، حاشیہ شاہ عبد القادر جلد 1 ص ۲٦٦۔
 

ام اویس

محفلین
روابط سورة آل عمران

سورة آل عمران کا سورة بقرہ سے تین طرح کا ربط ہے
ربط اوّل :-

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی

ربط ثانی ۔ معنوی

سورة بقرہ میں

فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

سے مسلمانوں کو کافروں کے مقابلے میں الله تعالی سے نصرت ومدد طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ۔
سورة آل عمران میں بتایا کہ وہ کون سے کفار ہیں جن کے خلاف لڑنا چاہیے ۔ جو الله کے نیک بندوں کو الله تعالی کا شریک بناتے ہیں اور ان کو مالک ومختار سمجھ کر حاجات ومشکلات میں پکارتے ہیں جس طرح نصارٰی حضرت عیسٰی و مریم علیھما السلام کو معبود سمجھتے اور انہیں مافوق الاسباب پکارتے تھے ۔

ربط ثالث :-
سورة بقرہ میں قرآن مجید کے جن تمام مضامین کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ان میں سے چار اہم مضامین کو سورة آل عمران میں بیان کیا گیا ۔

۱- توحید :-

ابتدائے سورة سے لے کر رکوع ۸ (إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ) آیة نمبر 80 تک توحید کا بیان ہے ۔
جس کے ساتھ نصاری کے مشرکانہ عقائد کا رد کیا گیا ۔

۲ - رسالت :-

نویں رکوع کی ابتدا آیة 81 سے

وَإِذْ أَخَذَ الله مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

اور جب الله نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اور عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم اس عہدوپیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

سے لے کر دسویں رکوع کی انتہا ۔۔ آیة ۔ 101 تک

وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَن يَعْتَصِم بِاللهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اور تم کیوں کر کفر کرو گے جبکہ تم کو الله کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے الله کی رسی کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت و صداقت کا بیان ہے ۔

۳- جہاد فی سبیل الله :-

رکوع ۱۱ آیة ۔ 102 سے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

مومنو! الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔

رکوع ۱۹ ۔ آیة 188 تک

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

جو لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور وہ کام جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا۔

الله کی راہ میں لڑنا یعنی جہاد فی سبیل الله کا بیان ہے ۔

۴ - انفاق فی سبیل الله :-

سورة کے شروع میں ترغیب الی الجہاد اور ساتھ ہی انفاق فی سبیل الله کا ذکر ہے ۔

سورة آل عمران کے بیسویں یعنی آخری رکوع میں چاروں مضامین یعنی توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله اور انفاق فی سبیل الله کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے ۔
سورة کی آخری آیت میں چاروں مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے اہل ایمان کفار کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو۔ اور الله سے ڈرو۔ تاکہ مراد حاصل کرو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔ میں توحید کی طرف صراحتاً اور رسالت کی طرف تبعاً اشارہ ہے ۔

اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا ۔۔۔۔ میں جہاد کی طرف صراحتا اور انفاق کی طرف اجمالاً اشارہ ہے
والله اعلم
 

ام اویس

محفلین
سورة النّساء

سورة نساء کو ماقبل سورتوں سے دو طرح کا ربط ہے
ربط اسمی :-

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی وَ نُؤَدّی حُقُوقُ النّساء ۔

اے الله ! ہم صرف اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ ہم گائے کی عبادت کریں گے اور نہ ہم اسے پکاریں گے جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا اور نہ ہم آل عمران کی عبادت و استعانت کریں گے جیسا کہ نصاری نے کیا
اور ہم عورتوں کے حقوق ادا کریں گے ۔


ربط معنوی :-

سورۃ بقرہ میں چار بنیادی مضامین

توحید
رسالت
جہاد فی سبیل الله
انفاق فی سبیل الله

بیان کیے گئے ہیں ساتھ ساتھ امورِ انتظامیہ اور امور مصلحہ بھی مذکور ہیں ۔ توحید کا بیان اور شرک کا ہر پہلو سے رد کیا گیا اس کے علاوہ سورة بقرہ میں نفی شرک فعلی ،نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک قہری کا ذکر کیا گیا
سورة آل عمران میں توحید ورسالت کے متعلق شبھات کا ازالہ کیا گیا شرک اعتقادی کی نفی کی گئی اور انفاق فی سبیل الله کی ترغیب بھی دی گئی ۔​
اب
سورة النّساء میں
مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر منظم کرنے کے لیے تفصیل سے امورِ انتظامیہ بیان کیے گئے اور ساتھ ہی ایک امر مصلح نماز کا ذکر آگیا کیونکہ نماز امور انتظامیہ پر عملدرآمد کروانے میں ممد ومعاون ہے ۔ گویا کہ سورة بقرہ کے مضامین میں سے ایک مضمون یعنی امور انتظامیہ کا سورة النّساء میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة النساء کے مضامین کا خلاصہ
سورة النّساء کا مضمون امور انتظامیہ ہے ۔ امورِ انتظامیہ کی دو قسمیں ہیں ۔
تدبیر منزل :- یعنی حقوق الزوجین ( میاں بیوی کے حقوق ) اصلاح و تربیت برائے اولاد
تدبیر مدن :- تدبیر مدن کی دو قسمیں ہیں ۔
احکام رعیت
احکام سلطانیہ

سورة النساء میں جو احکام مذکور ہیں ان کی دوقسمیں ہیں ۔ کچھ احکام کا تعلق عام لوگوں یعنی پبلک سے ہے اور کچھ احکام کا تعلق حکّام سے ہے ۔ اس اعتبار سے سورة دو حصوں میں منقسم ہے ۔
حصہ اوّل ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ ۔۔۔۔۔ آیة ۱ سے شروع ہوکر آیة ۵۷ ۔ ۔۔۔۔۔ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
تک
حصہ ثانی :-

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ۔۔۔۔۔۔ آیة ۵۸ سے شروع ہوکر آیة ۱۲٦ رکوع ۱۸

وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا تک

پہلے حصے میں احکامِ رعیت اور دوسرے حصے میں احکام سلطانیہ کا بیان ہے اور ہر حصے کے بعد اصل مسئلہ یعنی توحید کا بیان کیا گیا ہے احکام رعیت کے ساتھ توحید کا ذکر اجمالا ہے اور احکام سلطانیہ کے ساتھ توحید کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ۔
مقصد احکام رعیت :- آپس میں ظلم نہ کرو اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرو ۔
مقصد احکام سلطانیہ :- دوسروں کی حق تلفی اور ان پر ظلم نہ ہونے دو ۔

سورة کی ابتداء میں تخویف اخروی ہے یعنی جو احکام آگے آرہے ہیں ان کو بجا لاؤ ورنہ آخرت میں تمہیں دردناک عذاب دیا جائے گا ۔ اس کے بعد عذاب سے بچنے کے لیے امورِ ثلاثہ کا بیان فرمایا ۔
امر اوّل ۔ ظلم نہ کرو
امر ثانی ۔ شرک نہ کرو
امر ثالث ۔ احسان کرو

احکام رعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلم نہ کرو ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة مائدہ
وجہ تسمیہ سورة مائدہ
إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

وہ قصہ بھی یاد کرو جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی ابن مریم! کیا آپ کا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کھانے کا خوان نازل کرے؟ فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو۔
المائدہ ۔ 112

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

تب عیسٰی ابن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رزق دینے والا ہے۔
المائدہ ۔ 114
سورة المائدہ کی آیات ۔ ۱۱۲ اور ۱۱۴ میں مائدہ کا لفظ آیا ہے ۔ اسی پر اس سورة کو سورة المائدہ کہا گیا ۔
 

ام اویس

محفلین
روابط سورة المائدہ
سورة المائدہ کو اپنی ماقبل سورتوں سے تین طرح کا ربط ہے ۔
ربط اوّل :- اسمی یا نامی
سورة الفاتحہ سے سورة المائدہ تک سورتوں کا اسمی یا نامی ربط اس طرح سے ہے ۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی وَ نُؤَدّی حُقُوقُ النّساء ۔
اللّٰھمّ اَنْزِلْ عَلَینَا مَآئِدَةَ انعَامِکَ وَ رَحْمَتِکَ


اے الله ! ہم صرف اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ ہم گائے کی عبادت کریں گے اور نہ ہم اسے پکاریں گے جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا اور نہ ہم آل عمران کی عبادت و استعانت کریں گے جیسا کہ نصاری نے کیا
اور ہم عورتوں کے حقوق ادا کریں گے ۔
اے الله ! ہم پر اپنے انعامات اور رحمتوں کا خوان نازل فرما

ربط ثانی :-
سورة بقرہ میں وہ تمام مضامین بیان کیے گئے ہیں جو سارے قرآن مجید میں تفصیل سے ذکر کیے گئے ۔
توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله ، امور انتظامیہ
نیز سورة بقرہ میں نفی شرک فی التصرف ، نفی شرک فعلی اور نفی شفاعت قہری کو عقلی اور نقلی دلائل سے واضح کیا گیا ۔
سورة آل عمران میں شرک فی الدعا کی نفی کی گئی اور توحید اور رسالت پر علمائے اہل کتاب کے شبھات کا رد کیا گیا ۔
اس کے بعد سورة النساء میں امورِ انتظامیہ متعلقہ احکام ( احکام رعیت و احکام سلطانیہ ) کو تفصیل سے بیان کیا گیا اور درمیان میں تفصیل سے شرک کی نفی بھی کی گئی
اب سورة المائدہ اور سورة الانعام میں نفی شرک فعلی کو تفصیل سے ذکر کیا گیا اس کے پہلو بہ پہلو شرک فی التصرف کی نفی بھی مذکور ہے ۔

ربط ثالث :-

سورة النساء کے آخر میں فرمایا
يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

یہ احکام الله تم سے اسلئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو اور الله ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

اس لیے کفر و شرک کی گمراہی سے بچانے کے لیے سورة المائدہ میں شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا تفصیل سے رد فرمایا ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة مائدہ کے مضامین کا خلاصہ
سورة المائدہ کے دو حصے ہیں ۔
حصہ اوّل :-
شروع سورة سے لے کر آیة 40
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَالله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں الله ہی کی سلطنت ہے۔ جسکو چاہے عذاب کرے اور جسے چاہے بخش دے۔ اور الله ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تک ۔ اس حصہ میں شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا رد کیا گیا ہے
آیة ایک سے آیة چودہ تک شرک فعلی کی نفی کا بیان ہے اور آیة پندرہ سے چالیس تک شرک اعتقادی کی نفی کی گئی ہے ۔
شرک فعلی کے رد کے دوران آیة چھ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ
سے ایک امر مصلح یعنی نماز کا ذکر کیا گیا ہے ۔
حصہ اوّل کے بعد
آیة 41
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ
سے آیت 50
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ

پس کیا یہ زمانہ جاہلیت کے سے فیصلے کے خواہشمند ہیں۔ اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے الله سے اچھا فیصلہ کس کا ہو گا۔

تک آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین و منافقین کے متشدادنہ رویے پر غم کھانے سے منع فرمایا اور تسلی دی ۔ یہود ونصارٰی کے مولویوں اور پیروں پر زجریں کیں جو الله تعالی کی کتاب میں ردوبدل کرتے تھے خود بھی دونوں قسم کا شرک کرتے تھے غیر الله کو پکارتے اور غیر الله کی نذریں حلال سمجھ کر کھاتے تھے ۔ لوگوں کو شرک سکھاتے اور ان کو گمراہ کرتے تھے ۔
اس کے بعد آیة 51

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں شمار ہو گا۔ بیشک الله ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

سے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب ان کو معلوم ہوچکا کہ یہود ونصارٰی اپنی خواہشات کی وجہ سے توحید کو نہیں مانتے تو جو ان سے بائیکاٹ نہیں کرے گا اس کو ان ہی میں شمار کیا جائے گا ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة المائدہ کے مضامین کا خلاصہ
حصہ ثانی


آیة ۔ 67
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔
سے سورة کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو سورة کے آخر تک چلا گیا ہے ۔ اس حصہ میں شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا لف ونشر غیر مرتب کے طور پر اعادہ کیا گیا ہے ۔
حصہ ثانی کی ابتداء یعنی آیة 67 سے لے کر
آیة 86

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔
تک شرک اعتقادی کی نفی مذکور ہے ۔
آیة ۔ 87

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

مومنو! جو پاکیزہ چیزیں الله نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انکو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ الله حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

سے سورة کے آخر تک شرک فعلی کی نفی مذکور ہے ۔ اس حصہ میں الله تعالی نے تفصیل سے ذکر فرمایا :
  1. تحریمات الله کو باقی رکھو ۔
  2. غیر الله کی تحریمات کو ختم کرو ۔
  3. الله تعالی کی نذر ونیاز کو حلال سمجھو اور کھاؤ ۔
  4. غیر الله کی نذر ونیاز کو حرام سمجھو اور مت کھاؤ ۔
پھر سورة المائدہ کی آخری آیة 120
لِلهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

میں پوری سورة کا خلاصہ بیان فرما دیا کہ
آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر الله ہی کی بادشاہی ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس کے سوا کوئی متصرف و کارساز اور عبادت و پکار کے لائق نہیں ۔
والله اعلم ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة الانعام
روابط سورة الانعام
سورة المائدہ اور سورة الانعام کے درمیان دو قسم کا ربط ہے ۔
ربط اسمی :-
الله تعالٰی تم پر انعامات کا مائدہ نازل فرمائے گا بشرطیکہ تم انعام و حرث میں غیر الله کی نیازیں نہ دو اور غیر الله کی تحریمیں نہ کرو ۔
ربط معنوی :- سورة المائدہ میں دو مضامین بیان کیے گئے
  1. نفی شرک اعتقادی
  2. نفی شرک فعلی
خلاصہ سورة الانعام
مضامین کے اعتبار سے سورة الانعام کے دو حصے ہیں
حصہ اوّل :- ابتدائے سورة
آیہ نمبر ۱ ۔

الْحَمْدُ لِله الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

اردو:

ہر طرح کی تعریف الله ہی کیلئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرے اور روشنی بنائی پھر بھی کافر دوسری ہستیوں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹہراتے ہیں۔

آیة ۔ ۱۱۷ تک

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

اردو:

تمہارا پروردگار ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چل رہے ہیں۔
اس حصہ میں نفی شرک فی التصرف کا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔

حصہ ثانی :- آیة ۔ ۱۱۸
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ

اردو:

سو جس چیز پر ذبح کے وقت الله کا نام لیا جائے اگر تم اسکی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو۔

سے لے کر آیة ۔ ۱۵۳

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اردو:

اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور دوسرے رستوں پر نہ چلنا کہ ان پر چل کر اللہ کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔


اس میں نفی شرک فعلی کا مضمون ذکر کیا گیا ہے ۔

اس کے فورا بعد آیة ۔ ۱۵۴

ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ

اردو:

ہاں پھر سن لو کہ ہم نے موسٰی کو کتاب عنایت کی تھی تاکہ ہم ان لوگوں پر جو نیکوکار ہیں نعمت پوری کر دیں اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے تاکہ انکی امت کے لوگ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کریں۔

میں دونوں مسئلوں پر دلیل نقلی پیش کی گئی ہے ۔

اس کے بعد اگلی آیة ۔ ۱۵۵

وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

اردو:

اور اے کفر کرنے والو یہ کتاب بھی ہمی نے اتاری ہے برکت والی۔ تو اسکی پیروی کرو اور الله سے ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے۔

سے دونوں مسئلوں پر دلیل وحی کا بیان ہے ۔ یعنی پہلے توریت میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ الله کے سوا کوئی غیب دان و کارساز نہیں اور اس کے سوا کوئی نذر ونیاز کے لائق نہیں اب قرآن مجید میں بھی ان دونوں مسئلوں کی وضاحت کی گئی ہے اس لیے قرآن مجید کی پیروی کرو ۔

اس کے بعد سورة الانعام کے آخری رکوع میں آیة ۔ ۱۴۲

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اردو:

یہ بھی کہدو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔

سے لے کر سورة کے آخر تک دونوں مضمونوں کا اجمالی اعادہ کیا گیا ہے اور دونوں مسئلوں کو ہر قسم کے عقلی ونقلی دلائل سے مبرہن کیا گیا ہے ۔ حصہ اول میں شرک فی التصرف عقلی ، نقلی اور وحی کے سولہ دلائل پیش کئے گیے ہیں ۔ جن میں سے گیارہ دلائل عقلی و نقلی ہیں اور تین دلائل وحی ہیں ۔
سلسلہ دلائل کے دوران تین بار ان کا ثمرہ بھی بیان کیا گیا ہے دلائل کے علاوہ مضامین کے تین سلسلے بھی آگئے ہیں ۔


  1. سلسلہ رد شبہات مشرکین
  2. سلسلہ طریق تبلیغ
  3. سلسلہ بیان وجوہ انکار مشرکین
حصہ اول میں شرک فعلی کی صرف تین شقوں کا بیان ہے ۔

  1. تحریمات غیر الله
  2. تحریمات الله
  3. نیازات لغیر الله
چوتھی شق یعنی الله تعالی کی نذر و نیاز کا ذکر اس سورة میں نہیں کیا گیا کیونکہ غیر الله کی نذرونیاز کی نفی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نذر و نیاز صرف الله سبحانہ وتعالی کے نام کی دینی چاہیے ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة الاعراف
وجہ تسمیہ
اعراف بلند مقام پہاڑی یا ٹیلے کو کہتے ہیں قرآن مجید میں اعراف لفظ دو دفعہ آیا ہے جو اسی سورة کی آیت ٤٦ اور ٤٨ میں ہے ۔ اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان ایک مقام ہے اور وہاں موجود لوگوں کو اصحاب اعراف کہا گیا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس سورة کا نام سورة الاعراف ہے
روابط سورة الاعراف
سورة اعراف کو اپنے ماقبل سے چھ طرح کا ربط ہے ۔
1- ربط اول
اگر تم نے انعام و حرث کی پیداوار میں غیر الله کو شریک نہ بنایا تو الله تعالی تمہیں نہ صرف دوزخ بلکہ اعراف سے بھی بچا کر جنت میں داخل کرے گا ۔
2- ربط ثانی
سورة المائدہ اور سورة الانعام میں مسئلہ توحید کے دونوں پہلوؤں ( نفی شرک فعلی اور نفی شرک اعتقادی ) کو تفصیل سے ذکر کیا گیا اور انہیں دلائل سے واضح کیا گیا اب سورة اعراف میں فرمایا کہ جب مسئلہ توحید واضح ہوچکا ہے تو اب جراءت اور بہادری سے اس کی تبلیغ کرو ، بلا خوف و خطر ہر ایک تک پہنچاؤ اور تمہارے دلوں میں تنگی اور پریشانی کا ہرگز گزر نہ ہو ۔
3- ربط ثالث
سورة الانعام میں نفی شرک فی التصرف پر دلائل عقلی تفصیل سے ذکر کیے گئے اور دلیل نقلی صرف ابراہیم علیہ السلام سے مفصل اور باقی انبیاء سے اجمالا مذکور ہے ۔ سورة اعراف میں بعض انبیاء سے تفصیلا دلائل نقلی ذکر کیے گئے ۔
4- ربط رابع
سورة الانعام میں شرک فعلی ( نیازات لغیر الله ، تحریماتِ غیر الله ) کو تفصیل سے ذکر کیا گیا اب سورة اعراف میں تحریمات لغیر الله کی ایک اہم صورت کا بیان کیا گیا یعنی ننگے ہوکر طواف کرنا اور اسے قرب الٰہی کا موجب سمجھنا اور بوقت طواف کپڑے پہننے کو حرام اور گناہ کبیرہ سمجھنا ۔
5- ربط خامس
سورة الانعام میں پہلے نفی شرک فی التصرف اور اس کے بعد نفی شرک فعلی کا ذکر تھا لیکن سورة الاعراف میں ترتیب اسکے برعکس ہے یعنی نفی شرک فعلی پہلی اور نفی شرک اعتقادی بعد میں مذکور ہے ۔
6- ربط سادس
سورة المائدہ اور سورة الانعام میں نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی کو دلائل سے بیان فرمایا اب سورة الاعرف میں کہا کہ مسئلہ توحید کی خوب تبلیغ کرو اور اس کی اشاعت میں تمہیں جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑے ان کو تحمل سے برداشت کرو
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
خلاصہ سورة الاعراف
سورة اعراف میں تین دعوے مذکور ہیں
دعوٰی اوّل :-
مسئلہ توحید (نفی شرک فعلی و اعتقادی ) کی تبلیغ جراءت و استقلال سے کرنا اور اس کی راہ میں جو تکلیفیں آئیں ان کی خاطر آزردہ حال نہ ہونا ۔ یہ دعوٰی سورة الاعراف کی دوسری آیت

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ

اردو:

اے نبی یہ کتاب جو تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگدل نہیں ہونا چاہیے یہ نازل اس لئے ہوئی ہے کہ تم اس کے ذریعے سے لوگوں کو ڈر سناؤ اور یہ ایمان والوں کے لئے نصیحت ہے۔

دعوٰی ثانی :-
جو احکام الله تعالی نے نازل فرمائے ان کی پیروی کرو اور شیاطین کی پیروی کرکے اپنی طرف سے تحریفات مت گھڑو ۔ یہ دعوٰی سورة الاعراف کی تیسری آیت میں مذکور ہے

اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

اردو:

لوگو جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اسکی پیروی کرو۔ اور اسکے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔

اس کے بعد چھٹے رکوع کے آخر تک تخویفیں ، تبشیریں اور زجریں مذکور ہیں

دعوٰی ثالث :-
غیب دان و کارساز اور متصرف و مختار صرف الله تعالی ہی ہے اور اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کر رکھا ۔ یہ دعوٰی آیت نمبر ۵۴ ، ۵۵ ، ۵۶ میں مذکور ہے ۔

إِنَّ رَبَّكُمُ الله الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
54 ۔
اردو:

کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار الله ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے جو اسکے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند اور ستاروں کو پیدا کیا سب اسکے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے الله رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
55۔
اردو:

لوگو اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ الله قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
56۔
اردو:

اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور الله سے خوف رکھتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ الله کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔

اس دعوٰی کو ذکر کرنے کے بعد اگلی آیات ۵۷ اور ۵۸ میں

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
57۔
اردو:

اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔ پھر بادل سے بارش برساتے ہیں پھر بارش سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو زمین سے زندہ کر کے باہر نکالیں گے۔ یہ آیات اس لئے بیان کی جاتی ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔


وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
58۔
اردو:

اور جو زمین پاکیزہ ہے اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے نفیس ہی نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگذار لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔

مؤمن کے لیے زرخیز اور کافر کے لیے بنجر زمین (آیات الٰہی ) کی مثال دی ۔ جس طرح عمدہ زمین میں بارش کی وجہ سے سر سبز وشاداب کھیت لہلہانے لگتے ہیں اسی طرح آیاتِ الٰہی سن کر مؤمنین کے دلوں میں ایمان کی تازگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے ۔ جس طرح ناقص اور بنجر زمین میں بارش کے باوجود کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی اسی طرح معاندین پر سیم و تھور کی مانند آیاتِ الٰہی کا کچھ اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے دلوں میں بغض و عناد کی بیماری بدستور رہتی ہے ۔

اس کے بعد رکوع آٹھ سے رکوع بیس یعنی سورة الاعراف کے آخر تک چھ انبیاء کے قصص بیان کیے گئے جو لف ونشر مرتب کے طور پر مذکورہ تینوں دعووں سے متعلق ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
سورة الانفال
سورة الانفال کو اپنے ماقبل سے دو طرح کا ربط ہے
ربط معنوی
سورة مائدہ ، سورة الانعام اور سورة الاعراف میں نفی شرک فعلی اور نفی شرک فی التصرف کو پوری تفصیل سے نقلی اور عقلی دلائل کے ساتھ بیان فرمایا ۔ اب سورة الانفال میں بتایا گیا ہے کہ مسئلہ توحید کی وجہ سے تم پر مصائب آئیں گے ان پر صبر کرنا اور تنگ نہ ہونا ۔ جہاں مشرکین کا زور ہوگا وہ مسلمانوں کو تنگ کریں گے جسطرح پہلے پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں کو تنگ کیا گیا ۔
سورة انفال اور سورة توبہ میں
وَ قَاتِلُوا ھُم حتٌٰی لا تَکُون فِتنَةٌ
سے جہاد کا حکم بیان فرمایا ۔
الله کا دین بلند کرنے اور مشرکوں کا زور توڑنے کے لیے جہاد کرو ۔

ربط اسمی
ربط اسمی یہ ہے کہ مسئلہ توحید واضح کرنے کی وجہ سے مشرکین تم پر سختی کریں گے اور تم سے جنگ کریں گے ۔ جنگ میں الله کی مدد سے فتح کی صورت میں تمہیں مال غنیمت حاصل ہوگا اسلیے تم انفال کی تقسیم الله تعالی کے حکم کے مطابق کرنا اور اپنی مرضی کو مالِ غنیمت کی تقسیم میں شامل نہ کرنا ۔
 
Top