قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر:

ام اویس

محفلین
حضرت نوح علیہ السلام
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں الله رب العزت نے نوح علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ان حالات کو بیان کیا ہے جن کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا۔ انتیس سورتوں میں اس عظیم پیغمبر کی دعوت توحید کا بیان ہے۔ تبلیغِ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات ، قوم کی نافرمانی اور اس پر عذاب کا ذکر کہیں مختصر طور پر اور کہیں تفصیل سے کیا ہے۔قرآن مجید میں تینتالیس مرتبہ نوح علیہ السلام کا نام آیا ہے۔

اللہ تعالی نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں سے منتخب فرمایا۔(۱) فرمایا کہ ہم نے نوح اور ابراہیم کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور انکی اولاد میں پیغمبری اور کتاب کے سلسلے کو وقتاً فوقتاً جاری رکھا سو بعض تو ان میں سے ہدایت پر ہیں۔ اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں۔(۲) (الله تعالی فرماتے ہیں کہ) ہم نے نوح علیہ السلام کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں نو سو پچاس سال (تبلیغ کرتے) رہے۔ (۳)
جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اے میری برادری کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں محشر کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔ قوم کے سردار کہنے لگے کہ ہم تمہیں کھلی گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔
نوح علیہ السلام نے فرمایا: اے قوم مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں پروردگار عالم کا پیغمبر ہوں۔تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے ایسی باتیں معلوم ہیں جن سے تم بے خبر ہو۔کیا تمہیں اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ذریعے تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی ہے تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(4) میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمے ہے۔(5)
(الله تعالی نے اپنے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: )
اے محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور انکے بعد والے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اورعیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی۔(6) اس (الله ) نے آپ کے لئے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جسکے اختیار کرنے کا حکم نوح کو دیا تھا اور جسکی اے نبی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسٰی اور عیسٰی کو حکم دیا تھا وہ یہ کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ انکو ناگوار گذرتی ہے۔ اللہ جسکو چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ کر لیتا ہے اور جو اسکی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف کے رستے پر چلا دیتا ہے۔(7)
آپ انہیں نوح علیہ السلام کا قصہ پڑھ کر سنا دیں، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم! اگر تمہیں میرا اپنے درمیان رہنا اور اللہ کی آیتوں سے نصیحت کرنا ناگوار ہو تو میں تو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر ایک کام جو میرے بارے میں کرنا چاہو مقرر کر لو اور وہ تمہاری تمام جماعت کو معلوم ہو جائے اور کسی سے پوشیدہ نہ رہے پھر وہ کام میرے خلاف کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔اب اگر تم نے (ہدایت سے) منہ پھیر لیا تو تم جانتے ہو کہ میں نے تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگا میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمے ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں رہوں۔)8)
الله تعالی نے نوح علیہ السلام کے واقعے کی مزید تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان سے کہا کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے اور یہ پیغام پہنچانے آیا ہوں۔
کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہاری نسبت دردناک عذاب کا خوف ہے۔ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا ایک آدمی دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنٰی درجے کے ہیں۔ اور وہ بھی سطحی رائے رکھنے والے اور ہمیں اپنے اوپر تمہاری، کسی طرح کی فضیلت نہیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ (9)
وہ بولے کہ کیا ہم تمکو مان لیں جبکہ تمہارے پیرو تو رذیل ترین لوگ ہوئے ہیں۔
نوح نے کہا مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ان کے اعمال کا حساب میرے پروردگار کے ذمے ہے کاش تم سمجھو۔اور میں مومنوں کو نکال دینے والا نہیں ہوں۔ میں تو فقط صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔(10)
کافر سردار اپنی قوم سے کہنے لگے کہ یہ تو تم ہی جیسا آدمی ہے۔ تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے اتار دیتا۔ ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو یہ بات کبھی سنی نہیں۔اس آدمی کو تو دیوانگی کا عارضہ ہے تو اسکے بارے میں کچھ مدت انتظار کرو۔(11)
(نوح علیہ السلام نے) فرمایا کہ اے قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ ہو گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اس پر راضی نہیں اور اے قوم! میں اس نصیحت کے بدلے تم سے مال و زر کا مطالبہ تو نہیں کرتا میرا صلہ تو اللہ کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انکو نکالنے والا بھی نہیں ہوں۔ وہ تو اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔ اے میری قوم! اگر میں انکو نکال دوں تو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لئے کون میری مدد کر سکتا ہے۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟
اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ان لوگوں کی نسبت جنکو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ اللہ انکو بھلائی یعنی اعمال کی جزا نہیں دے گا۔ جو انکے دلوں میں ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہو جاؤں۔
انہوں نے کہا کہ نوح تم نے ہم سے جھگڑا تو کیا اور جھگڑا بھی بہت کیا اب اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر لا نازل کرو۔
نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ اس عذاب کو تو اللہ ہی چاہے گا تو نازل کرے گا۔ اور تم اللہ کو کسی طرح ہرا نہیں سکتے۔ اور اگر میں یہ چاہوں کہ تمہاری خیرخواہی کروں اور اللہ یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ رہنے دے تو میری خیر خواہی تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر نے قرآن اپنے دل سے بنا لیا ہے کہدو کہ اگر میں نے دل سے بنا لیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔(12)
انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کر دیئے جاؤ گے۔(13)
پھر نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کر رہے ہیں انکی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔(14)
انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں انکے مقابلے میں کمزور ہوں بس تو ہی بدلہ لے لے۔(15)
نوح علیہ السلام نے کہا: پروردگار انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو میری مدد کر۔(16)
تو میرے اور انکے درمیان ایک کھلا فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں انکو بچا لے۔(17)
پس ہم نے انکی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ۔ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچے اور تنور پانی سے بھر کر جوش مارنے لگے تو سب قسم کے پالتو حیوانات میں سے جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں بٹھا لو اور اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے انکے جنکی نسبت ان میں سے ہلاک ہونے کا حکم پہلے صادر ہو چکا ہے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا۔ وہ ضرور ڈبو دیئے جائیں گے۔(18)
نوح علیہ السلام نے کشتی بنانی شروع کر دی۔ جب انکی قوم کے سردار انکے پاس سے گذرتے تو ان کا مذاق اڑاتے۔ نوح علیہ السلام جواب میں فرماتے کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ایک وقت آئے گا ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے۔ اور جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے، جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے؟
(الله تعالی فرماتے ہیں)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔ تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم کے پالتو جانوروں میں سے جوڑا جوڑا یعنی ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے کہ ہلاک ہو جائے گا اسکو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اسکو کشتی میں سوار کر لو اور انکے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔ (19) پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے۔
اور زمین میں چشمے جاری کر دیئے تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہو چکا تھا جمع ہو گیا۔(20)
(پھر ہم نے کہا)
جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جاؤ تو اللہ کا شکر کرنا اور کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات بخشی۔
اور یہ بھی دعا کرنا کہ اے پروردگار ہم کو مبارک جگہ اتارنا اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔
بیشک اس قصے میں نشانیاں ہیں اور ہمیں تو آزمائش مقصود تھی۔(21)
نوح علیہ السلام نے کہا: اللہ کا نام لے کر کہ اسی کے کرم سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے اس میں سوار ہو جاؤ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
اور وہ (کشتی) انکو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی۔ لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کشتی سے الگ تھا پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔
اس نے کہا کہ میں ابھی پہاڑ سے جا لگوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ (آپ نے) فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں اور نہ کوئی بچ سکتا ہے مگر وہی جس پر اللہ رحم کرے۔ اتنے میں دونوں کے درمیان لہر حائل ہو گئ اور وہ ڈوب گیا۔
(الله تعالی کی طرف سے) حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی خشک ہو گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بےانصاف لوگوں پر لعنت۔
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے تو اس کو بھی نجات دے تیرا وعدہ سچا ہے اور تو بہترین حاکم ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے۔ وہ تو سراسر بدعمل ہے۔ تمہیں جس چیز کی حقیقت معلوم نہیں اسکے بارے میں مجھ سے درخواست ہی نہ کرو۔ اور میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بنو۔
نوح علیہ السلام نے کہا پروردگار میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی چیز کا آپ سے سوال کروں جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں۔ اور اگر آپ مجھے نہیں بخشیں گے اور مجھ پر رحم نہیں فرمائیں گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔
(الله کا) حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر نازل کی گئی ہیں (کشتی سے) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جنکو ہم دنیا کے فوائد سے بہرہ مند کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔(22)
اور نوح نے ہمیں پکارا سو دیکھ لو کہ ہم کیسے اچھے، دعا قبول کرنے والے ہیں۔(23)
(الله تعالی نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا) یہ حالات غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم آپ کی طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ آپ ہی انکو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم ہی ان سے واقف تھی تو آپ دعوتِ توحید میں صبر کریں کیونکہ پرہیزگاروں کا انجام ہی بھلا ہے۔(24)
اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح کی قوم اور عاد و ثمود کی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو جھٹلا چکی ہیں۔(25)
(اور اپنی قوم کو بتائیے) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ انکے بعد آئے ہیں انکے حال کی طرح تمہارا حال نہ ہو جائے اور اللہ تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔(26)
تمہیں ان کے حالات کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے۔ یعنی نوح اور عاد اور ثمود کی قوم اور جو انکے بعد تھے۔ جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ جب انکے پاس انکے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیئے کہ خاموش رہو اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم کو اس میں بھاری شک ہے۔(27)
اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انکو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(28)
پھر نوح کے بعد ہم نے اور پیغمبر اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ تو وہ انکے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ مگر وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔(29)
الله تعالی فرماتے ہیں:
اے ان لوگوں کی اولاد جنکو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔ بیشک نوح ہمارے شکرگذار بندے تھے۔ (30)
اور ہم نے انکو اور انکے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات دی۔اور انکی اولاد ہی کو ہم نے باقی رہنے والا بنا دیا۔اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں ان کا ذکر جمیل باقی رکھا، یعنی تمام جہان میں۔ سلام ہو نوح علیہ السلام پر۔ نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بیشک وہ(نوح علیہ السلام) ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔(31)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ آیات:
1۔آل عمران:۳۳
2- الحدید: 26
3- العنکبوت:14
4- الاعراف:59 تا 63
5- الشعرا: 107 تا 109
6- النساء:163
7- الشوری:13
8- یونس:71, 72
9- ہود:25,26,27
10- الشعرا:108 تا 112
11- المؤمنون : 24,25
12- ہود: 28 تا 35
13-الشعراء:116
14-ہود: 36
15- القمر:10
16- المؤمنون:26
17-الشعراء:118
18-المؤمنون:27
19- ہود:38,39,40
20- القمر:11,12
21- المؤمنون:28,29,30
22- ہود: 41 تا 48
23- الصافات:75
24- ہود: 49
25- الحج : 42
26-غافر:31
27- ابراھیم: 9
28-الفرقان: 37
29- یونس: 74
30- الاسراء:3
31- الصافات:76 تا 81
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top