قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر

ام اویس

محفلین
حضرت آدم علیہ السلام :
قرآن مجید میں لفظ آدم چوبیس بار آیا ہے اور سات مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
یہ بالکل ایک کہانی کی طرح ہے ۔ اور کیونکہ الله جل شانہ نے اپنی کتاب حق میں بیان کیا ہے اس لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے ۔ اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو جھوٹی اور خیالی کہانیاں سنانے کے بجائے یہ واقعہ سنائیں ۔ تاکہ اُن کے دلوں میں الله جل شانہ کی عظمت کا احساس اجاگر ہو ۔ اور الله رب العزت کی ذات پر اُن کا یقین بنے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جلَّ شانہُ نےجب انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :بے شک میں زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں
فرشتوں نے عرض کی، "کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بنائیں گے جو زمین میں فساد مچائے گی اور خون بہائے گی اورہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آپ کی تعریف کے ساتھ اور آپ کی بزرگی بیان کرتے ھیں
اللہ تعالی نے فرمایا :بے شک میں خوب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔(۱)
پھر اللہ جلَّ شانہُ نے آدم علیہ السلام کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سےبنایا ۔(۲)
اور فرشتوں سے کہا : جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔(۳)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ساری چیزوں کے نام سکھائے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:
اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ خلیفہ بنانے سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا ) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ ؟
فرشتوں نے عرض کیا : ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو سکھایا ہے -حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے -
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا : تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ :۔ جب آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو سب چیزوں کے نام بتا دئیے تو اللہ جلّ شانہ نےفرمایا :میں نے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمینوں کی ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں ہیں ، جوکچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔(۴)
(الله تعالی نے فرمایا:) اور جب کہا ہم نے فرشتوں سے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو - تو سب سجدے میں گر پڑے سوائے ابلیس کے وہ جنّوں میں سے تھا - پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی- کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اسکی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو - حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں - بُرا بدلہ ھے ظالموں کے لیے - (۵)
(پھراللہ جلّ شانہ نے پوچھا) ِ " اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ نہ کیا ؟ حالانکہ میں نے اس بات کا حکم دیا ہے- اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔(۶)
شیطان نے جواب دیا : میرا یہ کام نہیں کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے آپ نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔(۷)
اللہ جلّ شانہ نے فرمایا :تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے پس یہا ں سے نکل تو مردود ہے اور روز جزا(قیامت) تک تجھ پر لعنت ہے - ابلیس نے کہا : "اے میرے رب یہ بات ہے تو مجھے اُس دن تک مہلت دے دیں جب سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔
"اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ٹھیک ہے تجھے مہلت ہے - ابلیس نے کہا : جیسا کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا میں آدم اور اس کی اولاد کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر تاک لگا کر بیٹھوں گا - پھر میں ان کے پاس اُن کے سامنے سے اور اُن کے پیچھے سے اور ان کے دائیں طرف سے اور ان کے بائیں طرف سے آؤں گا اور ان میں سے زیادہ تر انسانوں کو شکر گزار نہ رہنے دوں گا-
فرمایا اللہ تعالیٰ نے نکل یہاں سے بُرے حال میں مردود ہو کر جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں تم سب سے دوزخ کو بھر دوں گا۔(۸)
ابلیس نے کہا : ( اے میرے الله) دیکھ تو سہی کیا یہ (انسان) اس قابل تھا کہ آپ نے اسے مجھ پر فضلیت دی ؟ اگر آپ مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیں تو میں اسکی پوری نسل کے پاؤں سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں گا - بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اچھا تو جا ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنم ہی بھرپور سزا ہے - تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے ، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا ، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ شامل ہو جا ، ان کو اپنے وعدوں کے جال میں پھانس لے اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہیں - بے شک میرے بندوں پر تجھے کوئی قدرت اور اختیار حاصل نہ ہو گا - اور توکل کے لیے تیرا رب ہی کافی ہے -(۹)
اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رھو پھر کھاؤ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ تم ہو جاؤ گے گنہگاروں میں سے۔
پھر بہکایا ان کو شیطان نے تاکہ کھول دے ان پر وہ چیز جو ان کی نظر سے پوشیدہ تھی ان کی شرمگاھوں سے ۔ اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس لئے اس درخت سے روکا ہے کہ اس کو کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ زندہ رہنے والے ہو جاؤ گے ۔
اور ان کے سامنے قسم کھائی کہ میں۔ تمہارا دوست ہوں پھر مائل کر لیا ان کو فریب سے ۔ پھر جب چکھا ان دونوں نے درخت کو تو کھل گیئں ان پر شرمگاہیں (جنت کا لباس اتر گیا)۔اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے ۔ اور پکارا ان کو ان کے رب نے کیا میں نے منع نہ کیا تھا تم کو اس درخت سے اور کہہ دیا تھا تمہیں کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
وہ دونوں (حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام ) بولے:
اے رب ہمارے ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ نے ہماری مغفرت نہ کی اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے ۔
فرمایا اللہ تعالی نے :- تم اترو ، تم ایکدوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لیے مقررہ وقت تک زمین میں ٹھکانا اور نفع اٹھانا ہے ۔ فرمایا تم اسی زمین میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی زمین سے نکالے جاؤ گے ۔
اے اولاد آدم !
ہم نے اتاری تم پر پوشاک اور آرائش کے کپڑے جو ڈھانپتے ہیں تمہاری شرمگاہیں اور پرھیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے ۔ یہ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں -تاکہ لوگ غوروفکر کریں ۔(۱۰)
(الله تعالی فرماتے ہیں) اور اس سے پہلے ہم نے تاکید کر دی تھی آدم علیہ السلام کو پھر وہ بھول گئے - اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا - اور جب کہا ہم نے فرشتوں سے ! آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ پس کہا ہم نے ، "اے آدم یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے - سو تم کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے - بے شک جنت میں تو نہ تمہیں بھوک لگتی ہے اور نہ تم ننگے ہو ( جنت کے لباس میں ہو) اور نہ تمہیں پیاس لگتی ہے اور نہ دھوپ
پھر وسوسہ ڈالا شیطان نے کہا ، اے آدم ! کیا میں تجھے بتاؤں (درختِ حیات ) ہمیشہ رہنے والا درخت اور بادشاہی جو کبھی پرانی نہ ہو - پھر دونوں نے کھا لیا اسمیں سے - پھر کھل گئیں ان پر ان کی بری چیزیں اور وہ جوڑنے لگے ان پر جنت کے پتے - اور حکم ٹالا آدم علیہ السلام نے اپنے رب کا پھر راہ سے بھٹکا ۔ پھر نواز دیا اس کو اسکے رب نے پھر اس پر متوجہ ہوا اور راہ پر لایا - فرمایا اللہ تعالی نے ،اتر جاؤ یہاں سے سارے - تم ایکدوسرے کے دشمن ہو گے - پھر جب پہنچے تم کو ہماری طرف سے ھدایت پھر جو ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلے گا سو نہ تو وہ بھٹکے گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا - اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور اسے ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے - وہ کہے گا ، اے رب میرے کیوں اٹھا لائے آپ مجھے اندھا اور میں تو دیکھنے والا تھا (آنکھوں والا تھا ) اللہ جل شانہ فرمائیں گے ،اسی طرح تیرے پاس میری آیات آئی تھیں پھر تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے - اور اس طرح بدلہ دیں گے ہم اس کو جو حد سے نکلا اور اپنے رب کی باتوں پر ایمان نہ لایا اور آخرت کا عذاب سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے - )۱۱)
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱-البقرہ : 30
۲-الحجر : 26
۳-الحجر: 29
۴-البقرہ: 31-32-33
۵۔ الکہف : 50
۶-الاعراف :21
۷- ۔الحجر:33
۸سورۃ اعراف آیۃ ۔13-14-15-16-17 ۔18
۹۔ الاسرا: 62,63,64,65
۱۰۔الاعراف:19تا 23
۱۱۔ طٰہٰ: 115تا 127
 
Top