قرآن اور حدیث سے متعلق شبہات (تبصرے)

آپ کی پوسٹ میں سے کچھ اقتباسات ۔ اگر آپ یہ کتاب تحریر کررہے ہیں‌تو بتا دیجئے، میں اس پوسٹ کو حذف کردوں گا۔

جناب مودودی کے الفاظ جو قابل قدر ہیں :

کچھ دوسرے عناصر ہیں جو دین و دنیا کی تقسیم کا نظریہ اختیار کرچکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص تصورات کے مطابق جس چیز کو دین سمجھ بیٹھا ہے صرف اسی کے دائرے تک قرآن کی ہدایت کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ اور عناصر ہیں جو قرآن کی ہدایت کو جامع اور ہمہ گیر مانتے ہیں، مگر جب اس سے استفادے کا سوال سامنے آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے لیے رہنمائی کا اصل ماخذ و منبع قرآن سے باہر کسی اور جگہ ہے جہاں سے نظریات و تصورات لاکر وہ قرآن سے ان کی تصدیق و توثیق کرانے کے لیے زور لگارہا ہے۔ اور کسی کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کا تعلق نہ صرف سنت سے کاٹ کر، بلکہ پچھلی چودہ صدیوں میں امت کے علماء و فقہاء اور مفسرین نے قرآن کی تشریح اور تعلیماتِ قرآن سے اخذ و استنباط کا جو کچھ کام کیا ہے اس سب سے بے نیاز ہوکر، اس کا اپنا ذہن الفاظِ قرآن سے جو مفہوم اخذ کرتا ہے صرف اس سے ہدایت حاصل کرے۔
ہم نے کبھی اس خیال کی تائید نہیں کی کہ ہر شخص کو ائمہ حدیث کی اندھی تقلید کرنی چاہیے یا ان کو غلطی سے مبرا سمجھنا چاہیے۔ نہ کبھی ہم نے یہ دعویٰ کیا کہ ہر کتاب میں جوروایت قال رسول اللہ سے شروع ہو اس کو آنکھ بند کرکے رسول اللہ کی حدیث مان لیا جائے۔ برعکس اس کے ہمارے نزدیک کسی حدیث کو حدیثِ رسول قرار دینے کی ذمہ داری ایک گراں بار ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے کی جرات کافی تحقیق کے بغیر ہر گز نہ کرنی چاہیے۔

اب دوسرے گروہ کو لیجیے جو دوسری انتہا کی طرف چلا گیا ہے۔ یہ لوگ محدثین کے اتباع میں جائز حد سے بہت زیادہ تشدد اختیار کرتے ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ محدثین کرام نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی نگاہ میں احادیث کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیار ہے ، ٹھیک اسی معیار کی ہم بھی پابندی کریں۔ مثلا مشہور کو شاذ پر، مرفوع کو مرسل پر، مسلسل کو منقطع پر لازما ترجیح دیں اور ان کی کھینچی ہوئی حد سے یک سرِ مُو تجاوز نہ کریں۔ یہی وہ مسلک ہے جس کی شدت نے بہت سے کم علم لوگوں کو حدیث کی کلی مخالفت یعنی دوسری انتہا کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس بحث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جس طرح حدیث کو بالکلیہ رد کردینے والے غلطی پر ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی سے محفوظ نہیں ہیں جنہوں نے حدیث سے استفادہ کرنے میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرلیا ہے۔ مسلکِ حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہ وہی مسلک ہے جو ائمہ مجتہدین نے اختیار کیا ہے۔

جب ہر روایت بلحاظِ متن اور بلحاظِ اسناد دوسری روایت سے مختلف ہے تو ہر روایت کے متعلق جدا جدا تحقیق کرکے رائے قائم کرنی چاہیے کہ وہ قبول کرنے کے لائق ہے یا رد کردینے کے لائق۔ سب کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے لیکر پورے مجموعے کے متعلق ایک ہی رائے قائم کرلینا کسی معقول انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ لوگ احادیث پر فردا فردا نگاہ ڈالیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک قلیل تعداد ایسی حدیثوں کی ہے جنہیں دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حدیثیں رسول اللہ کی نہیں ہوسکتیں، وہاں ایک کثیر تعداد ایسی حدیثوں کی بھی ہے جو حکمت کے جواہر سے لبریز ہیں، جن میں قانون اور اخلاق کے بہترین اصول پائے جاتے ہیں، جو اسلام کی حقیقت اور اس کے مصالح و حکم پر بہترین روشنی ڈالتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک رسول ہی کی حدیثیں ہوسکتی ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ فاروق بھائی۔ میں نے آپ نے تبصرے کو اس تھریڈ میں علیحدہ کر دیا ہے تاکہ اصل متن کا ربط برقرار رہے۔
 
Top