قدرتی نظاروں کی سرزمین، یہی ہے پاکستان !

480525_5727061_updates.jpg

کے ٹو کے بلند وبالا پہاڑ ی سلسلہ ہو یا دریائے سندھ کے زرخیز میدانی علاقے پاکستان ، نگاہیں خیرہ کردینے والے نظاروں اورمتنوع آب وہوا پر مشتمل سرزمین ہےجبکہ اسکا ثقافتی ورثہ متاثر کن ہے۔ عہد قدیم کا سلک روڈاور موہنجودڑو کےکھنڈرات اگر ایک جانب یہاں کا سفر کرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تو دوسری جانب یہاں کے میدانی علاقے اور اب تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ علاقے ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔
آئیے آپ کو ان خوبصورت علاقوں اور وادیوں کی سیرکرائیں اور یہاں کی خاص خاص باتوں سے آپ کو آگا ہ کریں ،،،،!!!

دیوسائی نیشنل پارک
یہ جن یا دیوزادوں کی سرزمین کے نام سے جانی جاتی ہے۔یہاں برف سے ڈھکے ہوئے بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان سطح مرتفع پر جھیلیں ہیں۔بہاروں کے موسم میں یہ سرسبز وادی جنگلی پھولوں اور تتلیوں سے ڈھک جاتی ہے۔ مقامی لوگ اسے گرمائی محل بھی کہتے ہیں اور موسم سرما کے بعد وہ جنگلی حیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ حیاتیاتی تنوع سے بھرپور علاقہ تبتی بھیڑیوں، ہمالیائی پہاڑی بکروں، تبتی سرخ لومڑیوں اور سنہرے گلہریوں کا خاص علاقہ ہے۔حکومت نے اس پارک کو 1993میں جنگلی حیات کے لیے محفوظ پارک قرار دیا تھا، اس کا مقصد معدوم ہوتے ہوئے ہمالیائی براؤن ریچھ کا تحفظ ہے۔اس پارک کو 2016میں عالمی ورثے کے طور پر نامزد کیا جاچکا ہے۔

وادی کاغان

480525_6947897_updates.jpg

انتہائی خوبصورت اور دلکش وادی کاغان شمالی پاکستان میں پریوں کے دیس جیسا علاقہ ہے۔ ایک پرانی مقامی کہانی کے مطابق پرشیا کا ایک شہزادہ جھیل سیف الملوک کے شفاف پانی کے اوپر ایک پریوں کی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوگیا لیکن ایک جن بھی اس شہزادی کا عاشق تھا لہٰذا اس نے شہزادی کو قید کرلیا۔ایک دن موقع پاکر شہزادہ اس پری کو لیکر یہاں سے فرار ہوگیا۔ اس صورتحال پر جن بہت گرجا برسا اور اس نے غصے میں آکر اپنے آنسوؤں سے اس وادی میں سیلاب برپا کردیا جس سے یہاں جھیلیں بن گئیں۔آج دنیا بھر سے لوگ وادی کاغان کا رخ کرتے ہیں جہاں بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان جھیلیں اور دل کو موہ لینے والے نظارے ان کے منتظر ہوتے ہیں جبکہ راتوں میں یہاں کے آسمان بالکل صاف ہوتے ہیں۔
ساحل مکران
480525_5509013_updates.jpg

مکران کوسٹل ہائی وے ایک نہایت ہی خوبصور ت شاہراہ ہے جو جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا گیا ہے، یہ کراچی سے شروع ہوکر گوادر سے ہوتا ہوا یرانی سرحد تک جاتا ہے، اسے اس علاقے میں ترقیاتی حوالے سے ایک بڑا انفراسٹرکچرل کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔اس شاہراہ کا ایک سیکشن ہنگول نیشنل پارک میں درہ بوزی سے گزرتا ہے جو آسمان سے بات کرتے اپنی چٹانوں کی وجہ سے بہت ہی دلکش نظر آتا ہے۔یہاں قدرتی طور پر بنے مجسمے بھی موجود ہیں ۔ان مجسموں کا دھڑتو کسی جانور کا معلوم ہوتا ہے جبکہ اس کا سرانسانوں جیساہے،یہ ’شیر بلوچستان‘ بھی کہلاتا ہے۔
ہنزہ
480525_2403691_updates.jpg

وادی ہنزہ گلگت بلتستان کا شمالی علاقہ ہے ،یہاں دریائے ہنزہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ بہہ رہا ہے جبکہ اس کے اوپر برفانی پہاڑوں کا ایک سلسلہ ایک جانب سے دوسری جانب پھیلا ہوا ہے ۔ہنزہ اپنے ہم نام دریا کے کنارے واقع ہےجبکہ اطراف میں بلندوبالا گلیشیئرز اورگھاٹیاں ہیں۔یہ روایتی طور پر ہندوکش پہاڑسے وادی کشمیر جانے والے مسافروں کے لیے نیچے اترنے کے دوران آرام کرنے کی جگہ کے طور پرجانا جاتا تھا۔یہ وادی برفانی چیتے ، مارخور ، پہاڑی بکرے اور سرخ دھاری والے لومڑیوں کا مرغوب علاقہ ہے۔

ہنگول نیشنل پارک
480525_6273620_updates.jpg

ہنگول نیشنل پارک ، پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے اور یہ بلوچستان کے جنوب میں مکران کے ساحل کے ساتھ ساتھ سینکڑوں میل تک چلا گیا ہے۔یہ پارک اپنے تنوع اور ذرا مختلف قسم کی جنگلی حیات کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سندھ کا تیندوا(چیتوں کی ایک قسم)، چنکارا (غزال)، ہنی بیجر (ریچھ سے مشابہہ جانور) اور انڈین پینگولین (یہ پورے بھارت، سندھ اور بلوچستان کے سندھ سے متصل علاقوں میں پایا جاتاہے، اس کا سر چھوٹا جبکہ جسم پر ایک سخت قسم کا خول ہوتاہے)۔یہ علاقہ اپنے مخروطی پہاڑی کے لیے مشہور ہے جو مٹی سے بنی ہوتی ہے ۔یہاں پر مٹی کے آتش فشاں سرگرم رہتے ہیں جو زمین سے نکلنے والی گیس اور پانی کو کیچڑ کے ساتھ لا کر سطحِ زمین پر پھینک دیتے ہیں ۔یہ کھولتا ہوا کیچڑ جب زمین سے باہر آتا ہے تو مخروطی قسم کی چٹان بناتا ہے جو آسانی سے ٹوٹتے یا ختم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور آتش فشاں کا نام چندراگپ ہے ۔یہاں پر ہنگلاج مندر کے قریب ہندو مت کا مقدس مقام ہے اور ہزاروں ہندو ہر سال یہاں آتے ہیں ۔

بالتورو گلیشیئر
480525_793872_updates.jpg

پاکستان کے مشرقی قراقرم کے علاقے میں بالتورو گلیشیئر واقع ہے یہ دنیا کے چند بڑے گلیشیئرز کی وادی میں سے ایک ہے حالانکہ اس تک رسائی کافی مشکل ہے لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کے کوہ پیمائی کے علاقے میں واقع ہے اور یہاں کافی لوگ آتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوہ پیمائوں کا پسندیدہ مقام ہے بالخصوص یہاں کے ٹو، براڈ پیک اور گشربرم کی چوٹیاں اس کے اوپرہی واقع ہیں۔یہ علاقہ نہ صرف اپنی حیرت زدہ کردینے والے قدرتی حسن سے مالامال ہے بلکہ زندگی کا مخزن بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شمالی پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو یہیں واقع قراقرم کے گلیشیئر سے پگھلنے والے برف سے پینے اور دیگر ضرورت کا پانی میسر آتا ہے ۔

وادی نیلم

480525_189831_updates.jpg
یہ وادی تیرہ ہزار فٹ بلند پہاڑوں اور گھنے جنگلات اور چشموں کے درمیان ایک انتہائی خوبصورت وادی ہے، اسے دیکھ قدرت کی صناعی پر سیاح حیران رہ جاتے ہیں۔یہاں اس تصویر میں اوپر کی جانب پہاڑ کے اوپر ایک گائوں نظرآرہا ہے جسے آرانگ کیل کہتے ہیں، یہ وادی نیلم کی موتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عطاآباد جھیل
480525_3175559_updates.jpg
یہ مصنوعی جھیل وادی ہنزہ میں واقع ہے اس کا نیلگوں پانی تیزی سے بہتا ہوا نوکیلے چٹانوں کو کاٹ کر اپنا رستہ بنارہا ہے۔ گو کہ اپنے دلکش نظارے سے یہ یہاں آنے والوں کو مبہوط کردیتا ہے لیکن اس کے وجود میں آنے کی کہانی بڑی خوفناک ہے۔ یہ جنوری 2010میں اس وقت وجود میں آیا جب ایک گاؤں عطاآباد کے قریب ایک بڑی لینڈ سلائیڈ نگ (چٹان سرکنا) ہوئی اور قریبی قصبہ میں سیلاب آگیا جس کے نتیجے میں دریائے ہنزہ کا بہاؤ رک گیا ۔اس تباہ کن صورتحال سے علاقے کے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے لیکن آج یہ ایک مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے اور سیاح یہاں آکر رکتے ہیں اور اس جھیل میں کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
روزنامہ جنگ
 
پہلے بھی شاید دھاگے بنے ہوں، لیکن اب انشاءاللہ اس لڑی میں آپ کو بہت سی جگہوں کی سیر کروائیں گے۔
میں تو اپنے بچوں کو اپنے شہر لاہور کی ہی سیر نہیں کروا سکا اب تک سوائے ماڈل ٹاؤن پارک کے بس خواہش ہے کہ انہیں لاہور کی ہی بھرپور سیر ایک دفعہ کروا دی جائے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا آبائی ملک شہر کیسا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
میں تو اپنے بچوں کو اپنے شہر لاہور کی ہی سیر نہیں کروا سکا اب تک سوائے ماڈل ٹاؤن پارک کے بس خواہش ہے کہ انہیں لاہور کی ہی بھرپور سیر ایک دفعہ کروا دی جائے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا آبائی ملک شہر کیسا ہے۔
سارا سال کویت کی سیر کراتے رہتے ہیں؟
 

شاہد شاہ

محفلین
پہلے بھی شاید دھاگے بنے ہوں، لیکن اب انشاءاللہ اس لڑی میں آپ کو بہت سی جگہوں کی سیر کروائیں گے۔
آپنے غالبا سارا شمالی علاقہ دیکھ رکھا ہے۔ سیاحوں کیلئے کونسا علاقہ بہترین ہے جہاں رہائش، طعام وغیرہ کی تمام سہولتیں موجود ہوں؟
 
بہت خوب۔
ویسے تو اخباری رپورٹس، اراکین کے سفر ناموں کے تحت کافی مواد موجود ہے۔
زیادہ مناسب تو یہ ہے کہ علاقائی بنیادوں پر پانچ چھ لڑئیاں بنا دی جائیں، جیسے پنجاب کے حوالے سے عبدالقیوم چوہدری صاحب نے بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح کے پی کے، بلوچستان، سندھ، کشمیر، گلگت بلتستان وغیرہ کی ایک ایک لڑی بنائی جا سکتی ہے۔
 

یاز

محفلین
چنی جان غر
انگریزی میں Chinijan Ghar ہے۔ اردو میں نجانے کیسے لکھتے ہیں​
یہ ٹیبل ماؤنٹین نما حیرت انگیز جغرافیائی فیچر زیارت کوئٹہ سے لورالائی جاتے ہوئے زیارت سے کچھ آگے آتا ہے۔ بظاہر چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ فیچر تقریباً 4 کلومیٹر لمبا اور ایک کلومیٹر چوڑا ہے۔ اردگرد کی میدانی زمین سے اس کی بلندی 2000 فٹ سے زیادہ ہے۔

DLijUhpXkAEWphz.jpg


21743156_1501088356639291_8372004220922753355_n.jpg
 
چنی جان غر
انگریزی میں Chinijan Ghar ہے۔ اردو میں نجانے کیسے لکھتے ہیں​
یہ ٹیبل ماؤنٹین نما حیرت انگیز جغرافیائی فیچر زیارت کوئٹہ سے لورالائی جاتے ہوئے زیارت سے کچھ آگے آتا ہے۔ بظاہر چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ فیچر تقریباً 4 کلومیٹر لمبا اور ایک کلومیٹر چوڑا ہے۔ اردگرد کی میدانی زمین سے اس کی بلندی 2000 فٹ سے زیادہ ہے۔

DLijUhpXkAEWphz.jpg


21743156_1501088356639291_8372004220922753355_n.jpg
بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس کے نظارے سے ہیلی کاپٹر پر ہی بہتر طریقے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
جیہڑا ساڈے وس دی گل نئیں
 

یاز

محفلین
بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس کے نظارے سے ہیلی کاپٹر پر ہی بہتر طریقے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
جیہڑا ساڈے وس دی گل نئیں
میرے خیال سے ٹیبل نما فیچر کا سب سے شاندار نظارہ تو سائیڈ سے ہو گا۔ تاہم فضائی نظارہ بھی خوب ہو گا۔
ویسے اس کا سائیڈ سے نظارہ زیادہ مشکل اس لئے نہیں ہے کہ یہ پہاڑ لورالائی والی سڑک کے کنارے ہی واقع ہے۔
5757854362_800fc68b72_b.jpg


اور یہ رہا اس کی ٹاپ سے ایک منظر
60093389.jpg
 
Top