جرگہ ان چند افراد کے کونسل کے اسمبلی کا نام ہے جو قبائیلیوں کی باہمی اختلافات کو ختم کرکے فوری فیصلہ سنا دیتے ہیں۔
پہلے سے منظور شدہ قوانین سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ارہے ہیں۔اس لئے کہتے ہیں کہ پشتو صرف زبان کا نام نہیں بلکہ ضابطہ حیات بھی ہے۔
جرگے کا تصور/اطلاق پشتونوں کے ہاں صدیوں سے چلا ارہا ہے ۔جدید افغانستان (ابدالیوں کا زمانہ) پشتونوں کا تاریخی گرینڈ جرگہ احمد شاہ ابدالی کی امارت کے لئے بلایا گیا تھا۔جب نادر شاہ کو ایرانیوں نے قتل کیا تو اس وقت کندہار کے دو بڑے خاندان غلزی/ اور ابدالی پشتونوں کے امرا ہوا کرتے تھے۔نادرشاہ کو مشہد میں قتل کیا گیا تو یہ لوگ کندہار کی طرف چل پڑے کندھار پہنچنے سے پہلے ارزگان کے قریب ایک بہت بڑا جرگہ ہوا جس میں سب اس بات پر راضی ہوئےکہ ایرانیوں کی تسلط ختم کرکے اپنی حکومت قائم کی جائے۔کئ روز جرگہ بیٹھا رھا اور اخر کار متفقہ طور پر احمد شاہ ابدالی کو بادشاہ بنایا گیا۔۔
۔۔۔۔اب دوبارہ موضوع کی طرف اتا ہوں۔
پشتونوں کی تاریخ جنگوں اور لڑائوں سے بھری پڑی ہے وھاں کوئی مستقل حکومت نہیں رہی تو لوگوں نے اپنے طور پر فیصلے کرنے کے لئے چند مشترکہ ضابطے بنائے۔
جرگے کے کونسل میں تمام افراد کو ان ضابطوں کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے۔
طریقہ کچھ یوں ہے کہ دونوں فریقن کو شخصی ضمانت پر بٹھایا جاتا ہے کہ جرگہ جو فیصلہ کریگا اس کو ماننا پڑے گا اور اگر کسی نے نہ مانا تو اتنا جرمانہ جو انہوں نے پہلے سے دونوں کے مشترکہ منتحب کونسل کے پاس بطور ضمانت اسلحہ کی شکل میں یا جرگے میں منتحب رکن کی شخصی ضمانت پر سب کے سامنے اقرارکرکے کیا ہوتا ہے
دونوں مدعیوں کو سننے کے بعد جرگے کے اراکین اپس میں بیٹھ کر دعوی اور جواب دعوی کا تجزیہ کرتے ہیں کیونکہ بعض اوقات مدعیان اپنے دعووں میں حد سے زیادہ مبالغہ کرتے ہیں۔چونکہ جرگے کے اراکین کو پہلے سے سب حالات معلوم ہوتے ہیں لہذا کئ ایک کو موقع پر ہی جرح کرکے انکی ناجائز دعووں کو مسترد کردیتے ہیں ۔۔بعد میں اراکین جرگہ ایسا فیصلہ سنادیتے ہیں کہ اگر مان لیا جائے تو بھی مصیبت اور اگر نہ مانا جائے تو رکھی ہوئی ضمانت ضبط ہوجاتی ہے۔
کئی ایک کے ساتھ زیادتی بھی ہوجاتی ہے اور فیصلہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔اور دوسرے جرگے کا ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
یہ جرگے زیادہ تر قبائیلی علاقوں میں ہوتےرھتے ہیں اور اب بندوبستی علاقوں میں بھئی پہلی فرصت میں جرگے کے زریعے معاملات رفع دفع کئے جاتے ہیں۔لیکن اگر جرگہ ناکام ہوجائے تو عدالتوں کے لمبے پروسس شروع ہوجاتے ہیں۔
قبائیلی چونکہ پاکستان کے ازادی کے بعد شہروں اور قصبوں کی طرف انے شروع ہوگئے ہیں۔جو لوگ شہروں کے قریب اباد ہوئے انکے بچے تھوڑا بہت پڑہ لیتے ہیں لیکن چند سال پہلے تک اپنے علاقے کے اندر سکول سڑک اور بجلی کی تنصیبات کو نہیں
چھوڑتے تھے کہ مبادہ انکی فطری ازادی سلب نہ ہوجائے۔ اب وھاں پر لوگ نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور باقاعدہ سکول ،کالج،ہسپتال(جیسے تیسے) بن گئے ہیں۔
فاٹا میں سات ایجنسیاں(ٹیرٹوریل) ہیں۔ نارتھ وزیرستان ساوتھ وزیرستان جو دو بڑی ایجنسیاں ہیں اسکے ساتھ لگی ہوئی کرم ایجنسی پھر اورکزئی ایجنسی(نئ بنی ہوئی)پھر خیبر ،مھمند اور ملاکنڈ ایجنسیز ہے۔تقریبا 4 میلیون کی ابادی ہے اور3000 سکوائر کلو میٹر علاقہ ہے جو سرحد کا 33؏ بنتا ہے۔
تعلیم کی شرح 3-4؏فیصد سے زیادہ نہیں۔
قبائیلیوں کی اکثریت نے زندگی کی بنیادی سھولتوں کا مزا نہیں چکھا ہے۔۔کسی بھی حکومت نے اسے کوئی اھمیت نہیں دی۔اب یہ لوگ اپنی ازاد فطری ماحول میں خوش ہیں۔۔اپکو یہ بتادوں کہ قبائیلیوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس لئے فاٹا کے ممبران جو حکومت بنائے اسی کیساتھ ہوتے ہیں اور ازاد منتحب ہو جاتے ہیں۔ابھی تک قبائیلیوں کے اندر پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو اجازت نہیں ہے۔
تمام پشتونوں میں بالعموم اورقبائیلی پشتونوں میں بالخصوص عورت کی تعظیم اور انکی عصمت کی حفاظت مروجہ نظام کی تحت بہت مظبوط ہے۔کچھ رسمیں اچھی نہیں ہے لیکن یہ رسمیں اول زمانے کے تمام قوموں میں پائے جاتے ہیں ۔چونکہ قبائیلی نظام اوائل وقتوں کا ہی چلا ارہا ہے ۔کوئی باقاعدہ ریاست یا حکومت نہیں رہی جہاں اصلاحات کے زریعے مروجہ ضابطوں میں تبدیلی لاتے مگر اب اھستہ اھستہ لوگ عورت کو ازادی
اسلامی حدود کے اندر دیے رہے ہیں۔
ایک بات ہے کہ سخت گیر قبائیلی سزا کے خوف سے عورت کی عزت محفوظ ہیں۔
قبائیلی عورت بہت ہی جفاکش ہے ان کے ذمے جو کام ہیں وہ بہتر طریقے سے نباتی ارہی ہیں۔ویسے بھی قبائیلیوں کی زندگی انتھائی سادہ ہے۔
قبائیلیوں میں ایک مشترکہ گھر ہوتا ہے جسکو حجرہ کہتے ہیں۔وہاں مھمانوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے ۔۔صبح چائے پیتے ہیں پھر 9-10 بجے کھانا کھاتے ہیں شام کو بعد از نماز مغرب کھانا کھاتے ہین اور عشا پڑھنے کے فورا بعد سو جاتے ہیں۔
کھانا حسب دستور جو کچھ بھی گھر کے اندر پکتا ہے تمام گھرانوں کے مرد افراد مشرکہ حجرے میں لیکر لاتے ہیں وھاں اکٹھے کھاتے ہیں اور مھمان بھی اسی دسترخوان پر بیٹھ کر بغیر کسی کے احسان کے کھالیتا ہے۔
عورت کی ذمہ داریوں کھانا پکانا،جانوروں کے لئے چارہ کاٹنا ،پانی سر پر دور دراز علاقوں سے لانا۔۔قریبی جنگل سے لکڑی کاٹنا اور فصلوں اور مویشیوں کی دیکھبال کرنا شامل ہیں۔
قبائیی عورت بندوق چلانا بھی جانتی ہے اور اگر مرد گھر پر نہ ہو تو اسکا استعمال کرنا جانتی ہے۔بہت ہی کم عمری میں شادی،اور سخت کام کی وجہ سے قبائیلی عورت 30-35 میں بھوڑی ہوجاتی ہے یا مر جاتی ہے۔اس کے اوپر میں نے ایک نظم بھی لکھی ہے۔
http://www.pukhtunwomen.org/
جس دن تیرا وجود پیدا ہوا
che kuma wraz wujood daa sta peda sho
پشتون بیٹی تیرے بابا کو فکر لاحق ہوئی
pukhtaney loorey baba de po sodaa sho
اپنے گھر میں ہی تماری قسمت ساتھ چھوڑ گئی
pa khapal kor ke khpal naseeb darta soor oor sho
جیسے کہ تیری وجود بابا کے لئے طعنہ ہو
sta wajood da khpal pradi makh-ke peghor sho
اور اپنے ہی گھر میں بھائی بہن سے اچھا سمجھا گیا
pa khpal kor ke wror da khor no mu’tabar sho
کیونکہ بھن کمزوری کی علامت اور بھائی خاندان کیلئےطاقتور بازو سمجھا گیا۔
khor kamzorey wror ye mattey da tabar sho
ایک ہی اولاد ایک حقیر دوسرا معتبر
khpal olad wi , yow be wazala bal behtar sho
کیا عجب قانون ہے زوراور کا؟
ajeeba ghunde qanoon da zorawar sho
گھر اور باہر بھی حکم مرد کا چلتا رہے
kor bahar da nareena hukum chaleegi
اور عورت خاموش رہے جو بھی گزرے اس پر
khaza ghaley wi ka har sa pe tereegi
کیوں مرد بچہ ناز و نعم میں پلتا رہے؟
nar niazbeen wi da har chaa da stargo tor wi
اور عورت گھرانے کیلئے باعث شرم اور طعنہ رہے
khaza tor wi khaza sharam wi peghor wi
حالانکہ نازک جسم پر تمام گھر کے کاموں میں جتی رہے
pa nazuk wajaood daa har kaar dadey pa gharha
گھر، کھیت،لکڑی اور مال مویشی تک پالتے رہے
kor, patay, oba largi wakha’ tol waarha
پانی لائے ،جانور سنبھالے فصل سنبھالے
ka oba di ka largi ka zanawar di
کھانا پکائے کھانا کھلائے سب ان کے ذمے رہے
pakhawal aw marhawal dadey pa sar dee
ازل سے ابد تک یہی کام کرتی رہے
da azal na tar abada krhi kaaruna
اپنی ھنسی خوشی کے بدلے دوسروں کے غم لیتی رہے
da khanda pa badala akhli ghamoona
کھبی کھائے کبھی خالی پیٹ ہی سوئے
kala wukhri kala samli be khwarho na
جب سب نارینہ کھائے تو اخر میں اگر بچا کچھا ہو تو کھائے
ka sa patey shi katwai ke da sarho na
تقدیر اس کی ایسی کہ انکو کبھی اپنا گھر نصیب نہ ہوا
che warha wi da khpal plar pa kor dera wi
جب پیدا ہوئ تو باپ کے گھر اور جوان ہوئی تو خاوند کے گھر
che shi loya biya da bal pa kor spera wi
اور یہاں بھی خدمت اور وہاں بھی خدمت
che zwani wi da khawand da kor harkara
اب جب بوڑھی ہوئی تو پوتے نواسوں کی چوکیدار بنی
che zarha shi da lamso shi sokeedara
اور جب کسی کام کی قابل نہ رہی
che da kor kaaruna patey shi trey waarha
تو نھنے بچے ، مرغے مرغیان کو سنبھالنے کا کام ذمے رہا
mashuman chargey chargaan ye shi pa gharha
یہی عورت جس نے انسان کو جنم دیا
dagha khaza che insan ye zegawalay
وہی انسان اج کیوں انکا گلہ گھونٹ رہا ہے؟؟؟
biya ye waley pa marai de sarhay ghalay