قانون ہاتھ میں لینے والے وکلا کو مولوی کا پیغام

الف نظامی

لائبریرین
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
میں دورہ حدیث کا طالب علم تھا، میرے صحیح مسلم کے استاذ مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ مغربی گیٹ سے بنوری ٹاؤن میں داخل ہوئے جہاں میں پہلے سے ان کا منتظر تھا۔ میں نے پوچھا

"استاذ جی ! اگرریاست دینی امور کے مجرم کو سزا نہ دے تو ہم خود اسے وہ سزا دے سکتے ہیں؟"
چلتے چلتے میری آنکھوں میں بغور دیکھا اور پوری قطعیت کے ساتھ فرما یا
"نہیں !"
میں نے عرض کیا
"کوئی تو ایسی صورت ہوگی جس میں جواز بنتا ہوگا ؟"
فرمایا
"کسی صورت بھی جائز نہیں"
میں نے پوچھا
"اس کی وجہ کیا ہے ؟"
فرمایا
"ہمارے دین نے ذمہ داریاں تقسیم کر رکھی ہیں، جن میں کچھ شہریوں کی ہیں اور کچھ ریاست کی۔ شہری کو ریاستی ذمہ داریاں از خود انجام دینے کی کسی صورت اجازت نہیں"

اتنے میں ہم دارالافتاء کے قریب پہنچ چکے تھے۔ آخری جملے انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے میری جانب دیکھتے ہوئے ادا کئے، میں نے فوراََ اگلا سوال پیش کیا
"استاذ جی ! اس کی حکمت کیا ہے ؟"
فرمایا
"اسلام ریاست میں انتشار کی اجازت نہیں دیتا، اگر شہری قانون ہاتھ میں لینا شروع کردیں تو ملک کا امن و سکون تہہ و بالا ہو جائے گا۔ گلیوں، محلوں میں شہری شہریوں کا قتل عام شروع کردیں گے اور ریاست خانہ جنگی کی جانب چلی جائے گی"

میں نے پوچھا
"اگر کسی کی غیرت ایمانی برداشت ہی نہ کر سکے ؟"
پوچھا
"تم میں ہے کیا ؟"
عرض کیا
"محسوس تو ہوتی ہے"
فرمایا
"اگر کسی مذہبی شعار کی توہین آپ کو ناگوار گزرتی ہے اور آپ میں اس سے غم و غصے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو یہ ایمان کی علامت ہے لیکن اس غصے کے زیر اثر کوئی ایسا قدم اٹھا لینا جس سے اسلام کے ہی احکامات ٹوٹ جائیں، تو پھر یہ غیرت ایمانی نہیں رہتی بلکہ شریعت کی نگاہ میں جرم کا درجہ اختیار کرجاتی ہے۔ اگر یہ انتہائی اقدام غیرت ایمانی ہوتا تو تم سے زیادہ تمہارے اساتذہ میں ہوتا"

یہ آخری جملہ تو ایسا سمجھ آیا کہ پورا فلسفہ ہی سمجھ آگیا، میں ہاتھ ملا کر کلاس کی جانب روانہ ہونے لگا تو مسکراتے ہوئے پوچھا

"ملنگا ! تم کسی کو مارنے کے منصوبے تو نہیں بنا رہے ؟"

میں نے سختی سے تردید کردی۔۔۔۔ دو سال بعد ایک روز حضرت لدھیانوی چار بجے آفس سے گھر کے لئے رخصت ہوئے تو اتفاق سے مفتی صاحب موجود تھے، مولانا سعید جلالپوری شہید نے از راہ تفنن مجھے چھیڑنا شروع کردیا، مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا

"ایک دن اس کی غیرت ایمانی بیدار ہوگئی تھی اور یہ کسی کا کام تمام کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا لیکن شکر ہے اسے مجھ سے مسئلہ سمجھ لینے کا خیال آگیا"

مولانا سعید صاحب نے چونک کر میری جانب دیکھا اور ایک طویل
"ہیں !!!!!!!!!"
پکار اٹھے، میں انکار کرنے ہی لگا تھا کہ مفتی صاحب نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے فرمایا
"سچ بولنا، جھوٹ بالکل نہیں !"
میں نےبے چارگی سے اثبات میں سر ہلایا تو مولانا سعید جلالپوری شہید نے بے اختیار فرمایا
"لاحول و لاقوۃ الا باللہ"
 
آخری تدوین:
Top