معظم جاوید
محفلین
قانون شکنی …ایک دلچسپ مشغلہ!!!
کسی بھی معاشرے کی اقدار و تہذیب کی ترقی و خوبصورتی میں قانون کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ قانون کا بنیادی مقصد معاشرے میں پیدا ہونے والے شر انگیز رحجانات اور ان سے ظہور پذیر تکلیف دہ نقصانات کا تدارک کرکے پیدا شدہ خرابیوں کی مسلسل مرمت کرنا ہے۔اس کیلئے چند اداروں کو خصوصی اختیارات دئیے جاتے ہیں جو معاشرتی توازن کو درست رکھنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ محض دُنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں دے کر واضح کر دیا ہے کہ یہ تمام کائنات ایک خاص قانون (کلیہ) کے ماتحت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ اگر کائنات کی کوئی شے قانون کے دائرے سے تجاوز کر جائے تو اس کا حشر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ سورۂ المومنون میں فرماتا ہے کہ ’’اگر (اللہ) برحق ان کی خواہشوں پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو، ان میں ہیں سب درہم برہم ہو جائیں، بلکہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (کی کتاب) پہنچا دی ہے اور اپنی (کتابِ) نصیحت سے منہ پھیر رہے ہیں ۔ (آیت ۷۱) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وضع کردہ قانون کے نفاذ اور اس کی صحت کا ذکر کرکے یہ اعلان بھی فرمایا ہے کہ کوئی بھی انسان اس میں سے کسی قسم کا عیب نکال کر تو دکھائے! وہ یقینا ناکام و نامراد ہوگا۔احادیث میں تواتر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے قانون کے نفاذ کیلئے مختلف فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں جو اپنے اپنے ذمے کا کام بالکل درست اور پوری صحت کے ساتھ انجام دینے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کا سلسلہ بے عیب اور بلاروک ٹوک چل رہا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت انسان کے بس میں اتنا بڑا سسٹم قابو میں رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ مگر معاشرتی نظام کی صحت کو برقرار رکھنا یقینا اس کے بس میں ہے۔ اس کی بڑی مثال اہل یورپ و امریکہ کی ہے جہاں قانون کی پاسداری کو نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ وہاں قانون شکن افراد موجود نہیں مگر قانون شکنی کی گرفت پر خصوصی توجہ نے اس معاشرے کو ہم سے زیادہ بہتر بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب میں قانون شکنی اور جرائم کی شرح بھی کافی کم ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی افراد پوری دنیا میں بدنام اور قانون شکن مشہور ہیں…
کیونکر… ؟
اس مضمون کا موضوع انہی چند عوامل پر مشتمل ہے۔پاکستان کو وجودمیں آئے ہوئے ایک صدی بھی پوری نہیں ہو پائی ہے اور پاکستانی تمام دُنیا میں جرائم کی فہرست میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانیوں کو ائیرپورٹ پر الگ قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے اور ان کی تفصیلی تلاشی اور پوچھ گچھ کا اہتمام ہوتا ہے۔ غیرقانونی سفر، جعلی دستاویزات، منشیات کی سمگلنگ، دھوکہ دہی و فراڈ اور ان جیسے کئی سنگین الزامات میں ملوث پاکستانیوں کی بڑی تعداد دنیا بھر کی جیلوں میں سزا کاٹ رہی ہے۔ کہنے کو تو یہ سب پاکستانی مسلمان ہیں اور اپنے معاشرے میں خود کو نمایاں رکھنے کیلئے ہر قسم کے جتن بھی کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ہندی مسلمانوں کی کثرت ہے، جو ہندی تہذیب سے نہایت متاثر اور ہندی رسم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب ہندی تہذیب و تمدن کا فکری نتیجہ ہے۔
پاکستانی افراد دو قسم کے قوانین کے پابند ہیں، ایک قانون تو وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان پر نافذ کیا گیا ہے اور دوسرا قانون ملکی (برطانوی ایکٹ) ہے جو ہمیں آزادی کی نعمت کے ساتھ وراثت میں ملا ہے۔ پہلے قانون کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے، چھوٹے موٹے گناہوں و خطاؤں کو معاف فرما دے گا جبکہ دوسرے قانون کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہے کہ یہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا ہے، اس لئے اسے توڑنے میں کوئی عار نہیں۔ ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ میری بات سے اختلاف کریں مگر ہمارے ملک کی اکثریت اسی اصول کو ملحوظ نگاہ رکھتی ہے۔ یہ درحقیقت بنیادی رویہ ہے جو آگے چل کر سنگین قانون شکنی کا باعث بنتا ہے۔ اس کی ابتدا ہمیشہ بچپن سے ہوتی ہے۔ والدین اکثر اپنے بچوں سے جھوٹ بلواتے ہیں، دروازے پر کھڑے ناپسندیدہ شخص کو ٹالنے کیلئے بچوں کے ذریعے گھر میں موجود نہ ہونے کا جھوٹ، سکول میں فیس کی ادائیگی میں تاخیر کیلئے بہانے کا جھوٹ وغیرہ۔ اس عمل سے ایک منفی رحجان کی نشوونما ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے بعد اس کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جب بچہ مختلف خامیوں اور برائیوں کو چھپانے کیلئے خود بھی جھوٹ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ سکول سے واپسی پر دیر کیلئے، گھر سے زیادہ دیر تک باہر رہنے کیلئے، ممانعت شدہ افعال کیلئے وغیرہم۔ بچہ جب لڑکپن کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو وہ کافی حد تک جھوٹ و دروغ گوئی کا ماہر بن چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر جب والدین کو بچے کے جھوٹ یا برائی کا علم ہوتا ہے تو وہ بجائے اس کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینے کے زودوکوب کا سہارا لیتے ہیں۔ پہلے پہل یہ سلسلہ ڈانٹ ڈپٹ تک رہتا ہے تو بعد میں متشدد مارپیٹ میں بدل جاتا ہے۔ اس زمانے میں بچہ معمولی قسم کا مجرم بن چکا ہوتا ہے۔ اس کے جرائم کی فہرست میں دھوکہ دہی نہایت اہم ہوتی ہے، اسے عرف عام میں دُھول جھونکنا کہا جاتا ہے۔ بچے والدین کے نظروں میں دھول جھونکنا شروع کردیتے ہیں۔ بیشتر والدین اس مرحلے پر کبوتر ی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہتے ہیں۔ خصوصاً مائیں بچوں میں پیداشدہ خامیوں اور خرابیوں کی ستر پوشی کرتی رہتی ہیں۔ غلط امور پر سزا ملنے کا خوف قریباً مٹ جاتا ہے۔ سکول لائف کے بعد کالج کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ اس زمانے میں بچہ جو نوجوان بن چکا ہے، نہایت بے خوف، نڈر اور جوشیلے روپ میں سامنے آتا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتا کہ دھوکہ دہی غلط فعل ہے۔ وہ والدین سمیت دوسروںکو دھوکا دے کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ درحقیقت وہ نوجوان کسی کو دھوکا نہیں دے رہا بلکہ خود کو دھوکے میں مبتلا کئے ہوتا ہے۔ بیشتر والدین اس عمر میں بچوں کو موٹرسائیکل، موبائل، کمپیوٹر اور کئی اضافی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔ ان اشیاء کے استعمال کی تربیت کا فقدان حقیقتاً قانون شکنی کا باعث بنتا ہے۔ چونکہ ان نوجوانوں کیلئے باقاعدہ پروفیشنل ادارے موجود نہیں ہیں جہاں ایسی اشیاء کی صحیح تربیت میسر ہو۔ مثلاً موٹرسائیکل چلانے کا فن تو وہ گلی محلے کے دوستوں سے سیکھ لیتے ہیں مگر ٹریفک کے قوانین سے نابلد رہتے ہیں۔ اس لئے وہ ٹریفک قوانین کو توڑتے دکھائی دیتے ہیں، بسا اوقات وہ خود بھی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رف ڈرائیونگ میں ماہر ہوتے ہیں، دوسروں کو جل دینا مہارت سمجھتے ہیں، زگ زیگ ڈرائیونگ کو فن قرار دیتے ہیں، ون وہیلنگ کو جوش و خروش کا اظہار بیان کرتے ہیں، فٹ پاتھ پر راہگیروں کو اچانک ڈرا دینا،پریشان کرنا ان کی نگاہ میں مذاق ہوتا ہے، ون وے پر مخالف سمت چلنا، تین یا چار افراد کو موٹرسائیکل پر لادنا، پولیس کے سپاہیوں پر فقرے کسنا پسندیدہ فعل ہوتا ہے، لڑکیوں کا تعاقب کرنا، انہیں ستانا، ان کے ساتھ بے ہودگی کرنا ان کی نگاہ میں جوانی کی مستیاں ہوتی ہیں، بہرکیف اس طرح کے بے شمار افعال ان کے اندر پنپنے والے مجرم کی تعمیر کرتے رہتے ہیں۔ والدین عموماً اولاد کے معاملے میں غفلت کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی حرکات کی شکایات کو نادانی و ناسمجھی سمجھ کر نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ اکثریت گھروں میں مذہبی ماحول نہیں ہوتا اور نہ ہی اولاد کو سمجھانے بجھانے کا دستور ہوتا ہے، اس لئے ایسے بچوں میں قانون سے صحیح آشنائی اور اسے توڑنے پر سزا کا تصور موجود ہی نہیں ہوتا۔ بچوں سے گفتگو اور اخلاقی تربیت جوکہ نہایت ضروری عمل ہے، ہمارے معاشرے میں قریباً ناپید ہو چکا ہے۔ کالج کے زمانے میں غیراخلاقی تربیت شدہ نوجوانوں کا ملاپ سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے۔ یہ گروپ میں شکل ڈھلتا ہے اور معاشرے میں مختلف ناپسندیدہ کام سرانجام دیتا رہتا ہے، جو آگے چل کر سنگین جرائم کا روپ دھار جاتے ہیں۔ ٹریفک کے ہجوم میں فٹ پاتھ پر موٹرسائیکل چڑھا دینے کے مناظر عام دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کو پرے دھکیلتے ہوئے آگے نکل جانے کا یہ رحجان بے صبری اور عجلت پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ معمولی قسم کی قانون شکنی شمار ہوتی ہے مگر یہ سنگین جرائم پسندی کی بنیادیں استوار کرتی ہے۔ موبائل فونز کے ذریعے رانگ نمبرز ملانا اور لڑکیوں کے نمبرز تک رسائی حاصل کرنا اور پھر بلاوجہ انہیں تنگ کرنا جہاں قانون شکنی کا موجب بنتا ہے وہیں یہ اخلاقی طور پر غلط اور مذہبی طور پر گناہ کی طرف دھکیلتا ہے۔ لڑکوں کی طرح لڑکیوں میں بھی قانون شکنی کا جذبہ پنپتا رہتا ہے۔ من چلے نوجوانوں کی ہمت افزائی اور موقعہ دینے کا عمل ان کے ہاں محض وقت گزاری اور دل لگی سہی مگر اس کے نتائج معاشرتی بے رواہ روی کو ہوا دیتے ہیں۔ جب یہ نوجوان کالج لائف سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو کچھ کر گزرنے کا جذبہ ٹھاٹھیںمارتا ہے۔ اس موقعے پر صحیح اور غلط طرزعمل کا باقاعدہ اظہار ہوتا ہے۔اخلاقی تربیت سے ناآشنا افراد غلط امور پر ندامت محسوس نہیں کرتے۔ کیرئیر کے آغاز کیلئے والدین بھی نوجوانوں کو غلط رائے دیتے ہیں۔ پہلا تصور تو یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ پیسہ ہی ہے۔ پیسے کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے۔ ملازمت کے حصول کیلئے رشوت فراہم کرنے میں والدین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی پہلا سبق یہ سیکھتا ہے کہ رشوت بازی کوئی برائی نہیں ہے۔ وہ آئندہ زندگی میں جائز و ناجائز کام نکلوانے کیلئے رشوت کا سہارا لیتا ہے اور ساتھ یہ بھی زبانی بیان جاری رکھتا ہے کہ رشوت دینا اور لینا جہنمی کام ہیں مگر عملی طور پر وہ مسلسل جہنمی کاموں کو سرانجام دیتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ اسے آڑ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ بلارشوت تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جائز کام کے لئے بھی رشوت دینا مجبوری بن گیا ہے، یہ درحقیقت اللہ کے وجود سے انکار ہے، قرآنی آیات سے انحراف ہے۔ کچھ لوگ اپنے اوپر افسران کو آڑ بناتے ہیں۔اس طرح ہزارہا توجیہات و تاویلیں سننے کو ملیں گی، جو دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے مستعمل ہوتی ہیں مگر بقول خدائے بابرکت یہ لوگ خود کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ جب لوگ مل کر ایک دوسری کی برائیوں کو ڈھانپتے ہیں اور انہیں برائی نہیں سمجھتے تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آجاتا ہے جہاں جرم کو محض ایک کھیل سمجھا جاتا ہے اور کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ اگر ہم ان چھوٹے چھوٹے امور کی اصلاح کی طرف توجہ دیں تو یقینا آنے والی نسلیں عمدہ شہری ثابت ہوں۔ پاکستان میں ہر شخص اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری سے جان چھڑاتا ہوا ملے گا۔ کوئی بھی پہلا پتھر رکھنے کیلئے تیار نہیں۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں سے جرائم کا قلع قمع کرے مگر افسوس ہے کہ وہ خود جرائم کی سرپرست ہے، سپاہی چوراہوں اور چھوٹی سڑکوں پر ناکہ لگا کر شریف لوگوں کو پریشان و ہراساں کرتے ہیں، راہ زنی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں، منشیات فروخت کرتے ہیں، علاقائی غنڈوں کو جرائم کی تحریک دیتے ہیں۔ اگر ان کی مکمل فہرست بیان کی جائے تو لمبا چوڑا مضمون بن جائے گا۔ سرکاری اہلکار بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ معمولی کاموں کو لٹکا کر ایسا پیچیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ شریف آدمی کی جوتیاں گھس جاتی ہیں۔ ہر محکمہ اپنے امور میں غفلت اور ناہلی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ لوگ ذہنی طور پر شرافت اور خدا خوفی سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ زبان سے اخلاقیات، سزا و جزا اور شرافت کے گن گاتے ضرور دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے باطن کا ان کتابی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(اس مضمون کا بقیہ حصہ آئندہ تحریر کیا جائے گا)