قاتل کون تھا؟ ۔۔۔

تفسیر

محفلین


قاتل کون تھا؟ ۔۔۔


سید تفسیر احمد



عاقل خان کو پتہ تھا کہ اُسے اپنی بیوی کا قتل کرنا ہے۔ اِس کے علاوہ اور کیا چارا تھا۔ کم ازکم وہ اپنی بیوی زینب کے لیےاتنا تو کرسکتا تھا۔

طلاق ناممکن تھی۔ اِس کےلیے اُس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ زینب حسین، نرم مزاج اور اچھی ساتھی تھی۔ اُس نے بیس سالوں میں کسی غیر مرد کی طرف نگاہ تک نہیں اُٹھائی تھی۔ یہاں تک کہ اُس نے آج تک کسی بھی طرح تنگ نہیں کیا تھا۔ وہ بہت اچھا کھانا بناتی تھی، لوڈو کےگیم میں ماہر تھی اوراُس کی مہمان نوازی محلے میں مشہور تھی۔

حیف صد حیف۔ اُسے زینب کی جان لینی ہوگی۔
وہ کبھی بھی اُس کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ زینب کی کتنی بدنامی ہوگی اور لوگ اُس پر انگلیاں اٹھائیں گے۔اُنہوں نےدو ماہ پہلے اپنی شادی کی بیسویں سالگرہ منائی تھی اور عزیز و احباب کے سامنے کہا تھا کہ اللہ کرے ان کی موت ایک ساتھ ہو۔
پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ زینب کو چھوڑ دے۔

اُس کے بغیر زینب کی زندگی کیا ہوگی؟۔ سوائے کاریگری کئے ہوئےتانبےاور پیتل کے برتنوں کی دوکان جوگھر سے منسلک تھی۔
زینب کو دوکان داری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بس اُس کے بزنس کی وجہ سے کئی دنوں شہر سے باہر رہنا اور اکیلے پن زینب کو دوکان میں مصروف رکھتا تھا۔ دوکان کی وجہ سے محلے کے لوگوں سے بھی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔

اگر وہ زینب کوطلاق دے تو زینب کو سینما گھر کون لےجائےگا!۔ کبھی کبھی وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کرنا چاہتی ہے وہ کیسے کرے گی!۔ اُس کےجانے کے بعد محلے والے زینب سے ملنا چھوڑ دیں گے۔ طلاق شدہ عورت کو شادی شدہ عورتیں اپنےگھروں سے دور رکھتی ہیں تاکہ وہ ان کے شوہروں کو پھنسا نہ لیں۔

وہ زینب کا اس طرح کی زندگی بسر کرنا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اُسے پتہ تھا کہ وہ اگر زینب سے طلاق مانگے تو وہ اتنی فرمانبردار تھی کی اُس کو خوش کرنے کےشاید اس پر بھی تیار ہوجائے۔

نہیں ۔۔۔ وہ زینب سے طلاق مانگ کر ذلیل نہیں کرے گا۔ اُسے کوئی اور ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔

کاش ایک سفر پر وہ فرزانہ سے نہیں ملا ہوتا۔ لیکن وہ کیوں اس خوش قسمتی پر افسوس کرے۔ اس دو ماہ میں اُس کی دنیا بدل گئ۔ اِس وقت کے مقابلہ میں زینب کے ساتھ ساری زندگی خاک تھی۔ فرزانہ سے ملنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ایک اندھے کو آنکھیں مل گئی ہوں۔ وہ ساری زندگی بہرہ تھا مگراب وہ سن سکتا تھا اور نرالی بات یہ تھی کے فرزانہ بھی اُسے بےحد پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اور کسی سے بندھی ہوئی بھی نہیں تھی۔

وہ انتظار میں تھی کہ عاقل کب زینب سے چھٹکارا لے اور وہ ان کی طلاق پر زور بھی دے رہی تھی۔

اُسے کوئی نہ کوئی ترکیب جلد سے جلد نکالنی ہوگی۔ شاید زینب کو ایک جان لیوا حادثہ پیش آسکتا ہے۔ دوکان ایک ایسی جگہ ہوسکتی ہے۔ دوکان میں چیزیں بےترتیبی سے رکھی ہیں۔ اوپری شیلف بھاری چیزوں سے لدے ہیں۔ جب زینب دوکان میں اکیلی ہو اس پر کوئی بھی بھاری چیزگر کر اُس کی جان لے سکتی ہے ۔

" تم اپنی بیوی کو ہمارے بارے میں کب بتاؤ گے۔ تم اس کو طلا ق دو تاکہ ہم دونوں شادی کرسکیں “۔ فرزانہ نے مدہم ، پیاری اورمسمرانہ آواز میں سوال کیا۔ فرزانہ اور وہ ایک ریسٹورنٹ میں تھے۔

لیکن وہ زینب کو فرزانہ کے متعلق کیسے بتا سکتا تھا۔ اُسے تو فرازنہ کی خواہش بھی سمجھ نہیں آرہی تھی، زینب کے ساتھ بیس سال گزارنے کے بعد وہ اس سے یہ جاکر کہے کہ میں اور فرزانہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔

اگر زینب ماہرِخوش اسلوبی تھی تو فرزانہ بھی اپنی فصاحت میں کسی طور کم نہیں تھی ۔ فرزانہ ، زینب کی طرح خوبصورت یا دل آویز نہیں تھی۔ لیکن فرزانہ کی موجوودگی میں وہ آتش مزاج اور عاشق تھا۔ زینب کی موجودگی میں وہ خلیق اور بامروت شوہرتھا۔ فرزانہ کےساتھ اس کی خوشی اور جذبات آسمان کی بلندیوں کوچھوتے تھے۔ مگر زینب کےساتھ بیس سال رہنے کے بعد بھی اُس نے یہ بلندیاں حاصل نہیں کیں تھیں۔ فرزانہ زمین، ہوا، آگ اور پانی، سب ہی تھی۔ زینب ۔۔۔ نہیں وہ زینب کے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ ان کو نسبت دینے کا کیا فائدہ۔

اُس نے ریسٹورنٹ میں ساجد کوداخل ہوتے دیکھا۔ ساجد یہاں کیا کر رہا تھا! لیکن کوئی بھی کہیں ہوسکتا ہے۔ اور یہ خطرہ ہر اُس شخص پر منڈلاتا ہے جو ناجائز رشتہ استوارکرتا ہے ۔کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہوتی۔ شاید وہ ایک دن پکڑے جائیں ۔۔۔ اور ساجد تو آخری شخص تھا جسے وہ یہاں دیکھنا پسند کرتا۔ ساجد کا اُس کو ایک عورت کےساتھ اکیلا دیکھنا ۔۔۔ وہ اس خبر کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا۔وہ اُس کی بیوی، اُس کےدوستوں ، اُس کےڈاکٹر، اس کے وکیل، مطلب ہر سڑک پرملنے والے کوبتا دے گا۔

وہ ایک بڑے ستون کے پیچھے چھپ کر ساجد کےجانے کا انتظار کرنےلگا۔ ساجد نے ہیڈ ویٹر سے کچھ بات کہی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا۔
ہمیشہ اس قسم کی صورت حال سے وہ بچے تھے۔ اور آج بھی ایسا ہوا۔۔۔

لیکن عاقل اس رشتہ کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا اس سے پہلے کہ اس کے دوست احباب اس رشتہ کو ایک ناجائزتعلقات کی نظردیکھیں۔وہ اس رشتہ کو شادی کرکےجائز بناناچاہتا تھا۔ مگر وہ زینب کو بھی دکھ نہیں پہچانا چاہتا تھا۔

ہر روز ہزاروں لوگ رات سونےجاتے ہیں اور صبح وہ بستر سے نہیں اٹھتے۔ زینب ان لوگوں میں سےایک کیوں نہیں ہوسکتی۔ وہ بغیر میرے اس کی جان لئے کیوں نہیں مرسکتی۔

جب وہ پھرفرزانہ سے ملا اورفرزانہ سے اپنے اندر اُٹھنے والی وہشت کا ذکر کیا ۔ توفرزانہ نے اُس سے کہا۔" یہ ماجرا وہی ثابت کرتا ہے جو میں تم سے بار بار کہہ رہی ہوں ۔ تمہیں زینب کو بتانا ہوگا۔ ساری زندگی ہم زینب سے یہ چُھپا نہیں سکتے“ ۔

" ہاں تم صحیح کہتی ہو۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا "۔

" تم کچھ نہ کچھ جلد از جلد کرو"۔ فرزانہ نے پیار سے کہا۔

عجیب بات ہے کہ زینب کی بھی عاقل جیسی حالت تھی۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس عمر میں اسے عشق ہوجائےگا۔ بلکہ وہ یہ ہی سمجھتی تھی کہ اُسےاپنے شوہرسے بےحد محبت ہے۔ شاہد سےملنے سے پہلے وہ کتنی سادہ لوح تھی۔ ایک دن شاہد اس کی دوکان میں آیا۔ شاہد ایک مشاطہ تھا اور اپنے ایک آسامی کے لیے اُسے مغلیہ دور کی ایک صراحی کی ضرورت تھی۔ زینب نے دسویں صراحیاں دیکھائیں۔ مگر شاہد ایک سے بھی متاثر نہیں ہوا۔ زینب کو یاد آیا کے چند قدیم صراحیاں پیچھےاسٹور روم میں ہیں۔ ان کو باہرلانے کے بجائےاس نے شاہد کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔

اندر پہونچنے کے بعد اس نے ایک صراحی کی طرف اشارہ کیا اور وہ شاہد کو یہ بتانے کے لئے مڑی کے اُسے یہ صراحی کیسے حاصل ہوئی تھی۔ شاہد نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر اس کے کندھوں پر رکھ دیئے۔ زینب کے کندھوں سے بجلی کی ایک لہر شروع ہوکراس کے سارے بدن میں دوڑگئی۔

" یہ آپ کیا کر رہے ہیں! ۔ بیرونی کمرے میں اور بھی خریدار موجود ہیں“۔ زینب نے کمزور آواز میں کہا۔

زینب کے ساتھ جو ہو رہا تھا اسےاس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس بات کو بہت عرصہ ہوچکا تھا جب کہ عاقل نےاس کو اپنی باہوں میں لے کر پیار کیا ہو۔ وہ عموماً اس کےگالوں پر ایک ہلکا سے بوسہ دے دیتا تھا۔

اس ملاقات کے بعد جب کبھی عاقل اپنے بناؤٹی بزنس سفر پرجاتا، شاہد اور زینب اس اسٹور روم میں ایک دوسرے کی باہنوں میں کھوجاتے۔

اس طرح کے ایک دن وہ ان حسین لمحات میں جذب تھے کہ ایک آواز ان تک پہنچی ۔

مسسزخان ۔ آپ کیا اندر ہیں؟۔ مجھےاس تانبے کے تھال سے متعلق کچھ پوچھنا ہے“۔

زینب جلدی سے اپنے کپڑوں کوترتیب دیتے ہوے اسٹور روم کےاندھیرے سے باہر نکلی۔ اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کی۔ مگر اسے اندیشہ تھا کہ شاید اس کی لپ سٹک ہونٹوں کی حدود سے باہر ہو۔

یہ مسسز آغا تھیں جو ِادھر کی اُدھر لگانے کی ماہرتھیں۔ اگر مسسز آغا کوذرا سا بھی شک ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے تو اس سے پہلے کے سورج اپنا آدھا راستہ طے کرے، عاقل تو کیا، نکڑ کا ڈینٹسٹ ، ٹیکسی ڈرائیور، بک اسٹور کا مالک ، تمام محلے والے اور تمام فیملی فرینڈز کو پتہ چل جائے کےمسسز آغا نے زینب کو ایک غیر مرد کی باہنوں میں دیکھا۔ چاہئے ان کو صرف ایک کمرے میں دیکھا ہو۔

اس دن زینب کی قسمت کا ستارہ اس پر رحم کررہا تھا۔ مسسز آغا جلدی میں تھیں اور وہ ان مہمانوں کے متعلق سوچ رہیں تھیں جو ان کےگھر اس رات آنے والے تھے۔ اور وہ مہمانوں پرظاہر کرنا چاہتی تھیں کہ اس کے پاس خوب صورت کاریگری کردہ تانبے اور پیتل کے برتن ہیں۔ لہذا اُسے ایک رات کے لیے زینب سے کچھ تھال اُدھار لینے تھے۔

اس دن شاہد نے کہا ۔“ دیکھو زینب میں تم سےمحبت کرتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ تم بھی مجھ سےمحبت کرتی ہو لیکن میں اب اس طرح سے تم سےنہیں مل سکتا۔ اگر ہم پکڑے گےتواس میں تمہاری بدنامی ہے۔ میں تم سے شادی کرناچاہتا ہوں۔ تمہیں اپنے شوہرسےطلاق لینی ہوگی“۔

شاہد طلاق کا اس طرح ذکر کر رہا تھا جیسے طلاق ایک ڈاکٹر کا اپونٹمنٹ تھا۔ ڈاکٹر کے آفس کو کال کردیا اور ایک وقت اور تاریخ مقرر کردی۔ وہ اس شخص کو کیسے طلاق کا کہہ سکتی تھی جو بیس سال سے شفیق، محبوب اور وفادار تھا؟ وہ عاقل سےاس کی خوشی کیسےچھین سکتی تھی؟

اگر کیسی وجہ سے عاقل کی موت ہوسکتی؟ کیوں نہیں اس کا ہارٹ فیل ہوسکتا؟ ہر روز سینکڑوں لوگ دل کے عارضہ کی وجہ سے مرتے ہیں۔ کیوں نہیں اس کا پیارا عاقل دم توڑ دے؟ اس سے کتنی آسانی ہوسکتی ہے!۔

اُسےاب ٹیلیفون کی گھنٹی سے بھی وہشت ہونے لگی۔ اور جب اس نے شاہد سے بات کرنے کے لیے ریسور اُٹھایا توشاہد نے غصہ سے کہا۔ " آج واقعی حد ہوگئی ۔ میں نے اپنے آپ کوایک گرا ہوا انسان محسوس کیا۔ جب تم باہرخریداروں سے تول مول کررہی تھیں۔ میں نےمحسوس کیا کہ میں ایک پنجرے میں ہوں اور دروازے بند ہے “۔

" پلیز تھوڑا انتظار اور کرلو۔۔۔ میں اس کا کچھ نہ کچھ حل نکالتی ہوں“۔ زینب نے کہا۔

" میں انتظار نہیں کرسکتا۔ اب فیصلہ تمہارا ہے"۔ شاہد نےسختی سے کہا۔

زینب کو پتہ تھا کہ جب شاہد ایک فیصلہ کرلیتا ہے تو اٹل ہوتا ہے۔ اگراس نےشاہد کو کھودیا تو زندگی ۔۔۔ یہ اس کی زندگی کا اختتام ہوگا۔

مگر وہ عاقل کو کیسے رد کر سکتی ہے۔ وہ شباب پرتھا۔ اور وہ اُس کی زندگی تھی۔ وہ اُسے ہرطرح سےخوش کرنا چاہتا تھا۔ ان کے شادی شدہ لوگوں کےعلاوہ کوئی دوست نہیں تھے۔ اگر وہ عاقل کو چھوڑ کرچلی گئی تو وہ گمنام زندگی بسر کرے گا۔ شادی شدہ دوست اس پر ترس کھا کر بلائیں گے۔ ہر شخص اس سے ہمدردی جتائےگا۔ مظلوم عاقل! وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھےگا۔ نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتی ۔کاش کہ شاہد سے اس کا ملنا نہ ہوتا۔

مگراب چند لمحہ شاہد کےساتھ ، عاقل کے زندگی بھر کےساتھ سے بہتر تھے۔ صرف ایک راستہ باقی تھا۔ عاقل کی موت۔ ایسی موت جو آرام دہ، جلد اثر اور گڈمڈ نہ ہو۔ مگر جلد ہی۔۔۔

اس رات جب عاقل سفرسے واپس ہوا تو زینب بنی سجی ملی اور ایک سیکنڈ کے لیےعاقل نےسوچا، زینب کےساتھ زندگی بُری نہیں۔ لیکن پھر اسےفرزانہ یاد آئی اور اس کواپنا فیصلہ یاد آیا۔ وہ فرزانہ کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کو زینب کی جان لینی ہوگی لیکن وہ اس موت کو زینب کے لیے آسان بنانا چاہتا تھا۔اور یہ عمل اس کو آج رات ہی کرنا چاہیے۔ اسے رات کا کھانا ایک اچھے شوہر کی طرح کھانا ہوگا۔ آخر اس سے ہمیشہ زینب کے کھانے کی تعریف کی ہے۔

مگراسے زینب کو کھانے کے بعد جان سےمارنا ہوگا۔ کھانے کے بعد زینب نے اس کو اپنا بنایا ہوا کیک دیا۔ یہ کتنی بے رحمی کی بات ہے کہ وہ ایک وفادار ، محبت کرنے والی بیوی جس نے اس کو لذید کھانا بنا کردیا اُسی ہی کے بنائے ہوئے کیک کو کھاتے ہوئے اسے قتل کرنے کی سوچ رہا ہے۔ وہ اتنا بےدرد اور بےحس تو نہیں بننا چاہتا تھا۔ مگراس کےعلاوہ چارہ تو بھی نہیں تھا۔

زینب نےاسے چائے پیش کی۔اس نے سوچا وہ ایک دوسرے کےساتھ اتنے عرصہ رہے ہیں ۔ شاید وہ اس کےخیالات پڑھ رہی ہے اور اس کو میرے منصوبوں کا پتہ ہے۔ زینب کی مسکراہٹ آج واقعی قاتل تھی۔ یہ بالکل ویسی ہی ، جیسی شادی کی دوسری صبح تھی۔ اسے میرے منصوبوں کا نہیں پتہ ہے۔ عاقل نے سوچا۔

" میں دوکان میں کچھ بھول آئی ہوں۔ میں ایک منٹ میں واپس آتی ہوں" ۔ زینب نے کہا۔

وہ تیزی سے کھانے کے کمرے کو طے کر کے کچن میں داخل ہوئی ۔ دوکان کےا سٹور کا دروازہ کچن میں کھلتا تھا۔

عاقل نے آدھا کپ چائے پینے بعد محسوس کیا کہ زینب کوگئے کافی دیر ہوگئ۔ اس نےسوچا کہ دیکھوں زنیب نے اتنی دیر کیوں کی!۔

عاقل آرام دہ سلیپر پہنے ہوئےتھا۔ زینب نےاس کے قدموں کی آواز نہیں سننی۔ زینب اسٹور روم کے پرانےصوفے پر بیٹھی تھی۔ اس کی پیٹھ عاقل کی طرف تھی۔ اس کے کندھے جھکے تھے۔ شاید وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔ یا خدایا کیا اس کو میرے ارادوں کا علم ہوگیا۔ کیا اس کو پتہ ہے کہ ہم علحیدہ ہورہے ہیں۔ عاقل نےسوچا۔

مگر شاید وہ ہنس رہی ہے۔ اس کے کندھےاس طرح سے ہل رہے ہیں جیسے وہ اپنے آپ پر ہنس رہی ہو۔ لیکن اس وقت یہ نہیں سوچنا کہ وہ ہنس رہی ہے یا رو رہی ہے۔ یہ موقع اچھا ہے ۔ زینب کا سرایک قدیم وزنی صرا حی کے بالکل نیچے تھا۔ عاقل نے صراحی کو ہلکے سے دھکیلا۔

بیچاری زینب۔۔۔

لیکن یہ سب اچھائی کے لیے توتھا۔ نہ زینب کوتکلیف ہوئی اور اب ۔۔۔ وہ فرزانہ کےساتھ رہنے کے لیے آزاد تھا۔ اسےحیرت تھی ۔۔۔ یہ تو اتنا آسان تھا اور اگر اس کو پہلے یہ پتہ ہوتا تو وہ ہفتوں پہلے یہ کرچکا ہوتا۔

عاقل نےاپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا۔ اس نے زینب کوآخری بار، پیار بھری نظروں سے دیکھا۔ اور کچن سے ہوتا ہوا کھانے کے کمرے میں پہونچا۔ اب وہ آرام سے اپنی چائے کوختم کرے گا اور ڈاکٹر کو کال کرے گا۔ اس میں شک نہیں کے ڈاکٹر پولیس کو اطلاع کرے گا کہ زینب کی موت ایک حادثہ تھا۔ عاقل کو غلط بیانی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

مجھے زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ذرا سی مبالغہ آرائی سے کام چل سکتا ہے صرف اتنا کےاس نے ایک دھماکہ کے ساتھ کسی چیز کےگرنے کی آواز سننی تھی۔ اور جب وہ وہاں پہونچا تواس نے زینب کو زمین پرخون میں لت پت دیکھا۔

اس کی چائے اب بھی گرم تھی۔ اس نےسکون سے چائے کوختم کیا۔ اس نے فرزانہ کے متعلق سوچا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فرزانہ کو ابھی کال کرے اور کہے کہ اب ہمیں کوئی جدا نہیں کرسکتا۔ اور ہم کچھ عرصہ گزارنے کہ بعد شادی کرلیں گے۔ لیکن اس نے فیصلہ کیا اس کو ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہیئے۔

وہ خوش اور مطمئن تھا۔ اسے یاد نہیں کہ اِس سے پہلے اُس نے اپنے آپ کو کب ایسا ہلکا پُھلکا محسوس کیا تھا۔ اور یہ یقیناً اس بات کا سبب تھا جوحرکت اس نےچند لمحوں پہلے کی تھی۔ اسے نیند آرہی تھی۔ اتنی اچھی نیند تواس نے پہلےکبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے یہیں اور اس صوفے پر لیٹ جانا چاہیے۔ ڈاکٹر کو کال کرنا ضروری تھا۔ لیکن نیند کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ کرسی سے اُٹھ نہ سکا اور اس نے اپنا سر کھانے کی میز پر رکھ دیا۔

عاقل کےدونوں بازو لٹک گئے۔

عاقل اور زینب کے دوستوں کو کوئی بھی شک نہیں ہوا۔ انہیں پتہ تھا کہ زینب نے دوکان کو ایسی حالت میں رکھا تھا کہ کہیں بھی ٹھوکر کہا کرگرنا ممکن تھا اور شیلف بھاری چیزوں سےلدے تھے۔ زینب کا شیلف سے ٹکرانا اور صراحی کا اس کے سر پرگرانا ضرور اس کی موت کا سبب ہے۔ اور جب عاقل نےاسے اس حالت میں پایا ہوگا تو غم سے اس کا بُرا حال ہوگیا ہوگا۔ ایسے موقع پرانسان کے ہوش و حواس ساتھ نہیں دیتے ۔ اس نے سوچا ہوگا کہ وہ زینب کے بغیر کس طرح جیئےگا۔ اور اس لیے اس نے نیند کی گولیاں چائےمیں گھول کر پی لی ہوں گی۔اور اس طرح اپنی جان لے لی۔

ان سب کو یاد تھا کہ شادی کی بیسویں سالگرہ مناتے ہوئےعاقل اور زینب نے کہا تھا کہ اللہ کرے ان کی موت ایک ساتھ ہو اور وہ مرنے کے بعد بھی ہمیشہ ایک دوسرے کےساتھ رہیں۔ یہ جوڑا ایک دوسرے کو کتنا چاہتا تھا!۔
اس دنیا میں اب ایسا پیار کہاں رہ گیا۔

یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ دونوں ایک ساتھ ایک رات میں مرے اور وہ دونوں یہی چاہتے تھے۔

 

تیشہ

محفلین
cry6.gif
 

تیشہ

محفلین
قاتل کون تھا؟ ۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانیاں لکھ جاتے ہیں اور پھر قاتلوں کا پتا ہم سے پوچھنے لگتے ہیں :( :confused:
cry6.gif
ایک اتنی دردناک کہانیاں ۔ ۔۔ اوپر سے قتل وغارت ۔ ۔ ۔۔ پھر پیار و محبت بھی
cry6.gif
 

تیشہ

محفلین
کاش ایک سفر پر وہ فرزانہ سے نہیں ملا ہوتا۔ لیکن وہ کیوں اس خوش قسمتی پر افسوس کرے۔ اس دو ماہ میں اُس کی دنیا بدل گئ۔ اِس وقت کے مقابلہ میں زینب کے ساتھ ساری زندگی خاک تھی۔ فرزانہ سے ملنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ایک اندھے کو آنکھیں مل گئی ہوں۔ وہ ساری زندگی بہرہ تھا مگراب وہ سن سکتا تھا اور نرالی بات یہ تھی کے فرزانہ بھی اُسے بےحد پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اور کسی سے بندھی ہوئی بھی نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:( میں ہوتی ناں فرزانہ تو سیدھی سیدھی کاشنکوف اسکے سینے میں اتار ڈالتی
01hang.gif

gun.gif
gun.gif
 

تیشہ

محفلین
اس ملاقات کے بعد جب کبھی عاقل اپنے بناؤٹی بزنس سفر پرجاتا، شاہد اور زینب اس اسٹور روم میں ایک دوسرے کی باہنوں میں کھوجاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:mad: اس سٹور پر اک بڑا سا تالا لگنا چاہئیے تھا ۔ ۔ ۔ :(
 

تیشہ

محفلین
پلیز تھوڑا انتظار اور کرلو۔۔۔ میں اس کا کچھ نہ کچھ حل نکالتی ہوں“۔ زینب نے کہا۔

" میں انتظار نہیں کرسکتا۔ اب فیصلہ تمہارا ہے"۔ شاہد نےسختی سے کہا۔

زینب کو پتہ تھا کہ جب شاہد ایک فیصلہ کرلیتا ہے تو اٹل ہوتا ہے۔ اگراس نےشاہد کو کھودیا تو زندگی ۔۔۔ یہ اس کی زندگی کا اختتام ہوگا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:( میں ہوتی تو ان دونوں کو مار مار کر انکا کچومر نکال دیتی ۔
01hang.gif



(آئے ہائے بڑے بھیا کیا دردناک قسم کی کہانیاں لکھتے ہیں آپ ۔
02understand.gif
 

تفسیر

محفلین
واؤ ۔۔۔
ننھی مننی ۔۔۔ جیسے جیسے میں آپ کا تبصرہ پڑھ رہا تھا۔ میرے دل کے ڈھڑکن میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ آخر میں آپ مجھے قاتل مقتول اور مقتول قاتل ۔۔۔ کا ذمدار ٹھہرا کر توپ سے اُڑادیں گئی۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کو کہانی پسند آئی۔ ورنہ خوف سے میرے دانت بجنے لگے تھے teeth_smile smile_tongue
 

تیشہ

محفلین
واؤ ۔۔۔
ننھی مننی ۔۔۔ جیسے جیسے میں آپ کا تبصرہ پڑھ رہا تھا۔ میرے دل کے ڈھڑکن میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ آخر میں آپ مجھے قاتل مقتول اور مقتول قاتل ۔۔۔ کا ذمدار ٹھہرا کر توپ سے اُڑادیں گئی۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کو کہانی پسند آئی۔ ورنہ خوف سے میرے دانت بجنے لگے تھے teeth_smile smile_tongue


:(

میں سچ مچ توپ سے اڑادیتی اگر اسطرح کا کوئی حقیقت رئیل لائف میں کوئی ایسا کردار میرے سامنے آن موجود ہو تو میں شاید توپ سے اڑا دوں تو بھی بار بار توپ سے اسے نکال کر پھر ڈالوں ۔ ۔۔ پھر اڑؤں اور پھر ڈالوں
Dancing_Doll.gif

اب میں نے بھی تو اپنے دل کی بھڑاس تو نکالنی ہی ہے ناں
zzzbbbbnnnn.gif
 

تیشہ

محفلین
اندر پہونچنے کے بعد اس نے ایک صراحی کی طرف اشارہ کیا اور وہ شاہد کو یہ بتانے کے لئے مڑی کے اُسے یہ صراحی کیسے حاصل ہوئی تھی۔ شاہد نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر اس کے کندھوں پر رکھ دیئے۔ زینب کے کندھوں سے بجلی کی ایک لہر شروع ہوکراس کے سارے بدن میں دوڑگئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھی ہوتی تو اسی صراحی سے اسی وقت اسکا سر پھاڑ کے رکھ دیتی ۔ :mad:
 

خرم

محفلین
بہت اچھی کہانی تفسیر صاحب۔ ظاہری محبت کے ساتھ ساتھ جو حقیقی پیار اور جس کشمکش کو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔ اصل پیار تو ان دونوں پگلوں کو ایک دوسرے سے ہی تھا مگر جان نہ پائے۔ اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ کبھی ایسا ہو کہ پیار ملتا تو ایک ہی بار ہے اسے کھونا تو بڑی بد نصیبی ہے۔
 

تفسیر

محفلین
بہت اچھی کہانی تفسیر صاحب۔ ظاہری محبت کے ساتھ ساتھ جو حقیقی پیار اور جس کشمکش کو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔ اصل پیار تو ان دونوں پگلوں کو ایک دوسرے سے ہی تھا مگر جان نہ پائے۔ اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ کبھی ایسا ہو کہ پیار ملتا تو ایک ہی بار ہے اسے کھونا تو بڑی بد نصیبی ہے۔

شکریہ خرم صاحب:)
 
Top