فیض کا یہ کلام سخن کی کونسی صنف ہے؟

عباد اللہ

محفلین
اے شام مہرباں ہو!

اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو
دوزخی دوپہر ستم کی
بے سبب ستم کی
دوپہر درد و غیظ و غم کی
بے زباں درد و غیظ و غم کی
اس دوزخی دوپہر کے تازیانے
آج تن پر دھنک کی صورت
قوس در قوس بٹ گئے ہیں
زخم سب کھُل گئے ہیں
داغ جانا تھا چھٹ گئے ہیں
ترے توشے میں کچھ تو ہو گا
مرہمِ درد کا دوشالہ
تن کے اُس انگ پر اُڑھا دے
درد سب سے سوا جہاں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو

دوزخی دشت نفرتوں کے
بے درد نفرتوں کے
کرچیاں دیدۂ حسد کی
خس و خاشاک رنجشوں کے
اتنی سنسان شاہراہیں
اتنی گنجان قتل گاہیں
جن سے آئے ہیں ہم گزر کر
آبلہ بن کے ہر قدم پر
یوں پاؤں کٹ گئے ہیں
رستے سمٹ گئے ہیں
مخملیں اپنے بادلوں کی
آج پاؤں تلے بچھا دے
شافیِ کربِ رہرواں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے مہِ شبِ نگاراں
اے رفیقِ دلفگاراں
اس شام ہم زباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہریاراں
ہم پہ مہرباں ہو
1974ء

کیا یہ نثری نظم ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
محترم عباد اللہ! اس حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

"ایک اور نظم ہے ” اے شام مہر باں ہو “ اس کا آغاز یو ں ہوتا ہے ۔”اے شام مہرباں ہو ۔۔اے شام شہر یاراں “یہ ابتدائیہ سیدھی سادی عام سی بحر مضارع مثمن اخرب ” مفعول فاعلاتن‘ مفعول فاعلاتن “ میں ہے ۔مگر آگے اس کی حشرسامانیوں میں ستم کی دوزخی دوپہر کو دیکھئے ۔ ”ہم پہ مہرباں ہو ۔۔۔دوزخی دوپہرستم کی ۔۔۔دوپہر درد و غیظ و غم کی ۔۔۔بے زباں درد و غیظ وغم کی ۔۔یہاں بحر بالکل بدل گئی ہے یعنی اب فیض فاعلن ، فاعلن، فعو لن پر آگئے ہیں۔ مگر یہاں بھی اُن کا دِل نہیں لگتا اور وہ اگلے مصرع میں پھر بحر بدل لیتے ہیں ۔ ”اس دوزخی دوپہر کے تازیانے “اس کے بعد پھر اگلے مصرع میں پھر بحر بدل جاتی ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں ۔” آج تن پہ دھنک کی صورت “تقریبا ً تمام نظم میں اسی طرح کی” کثیر البحوریت “ موجود ہے ۔ اور اس پرمیرے لئے ایک اور تازیانہ ۔۔کہ شایدوہ اپنی اسی نظم کو اپنا انتخاب سمجھتے تھے،ثبوت کےلئے یہی کافی ہے کہ انہوں نے اسی میں استعمال شدہ ترکیب ” شام شہرِ یا راں “ پر اپنی کتاب کا نام رکھا۔"

"موازنہ فیض و فراز" از "منصور آفاق"
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
محترم عباد اللہ! اس حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

"ایک اور نظم ہے ” اے شام مہر باں ہو “ اس کا آغاز یو ں ہوتا ہے ۔”اے شام مہرباں ہو ۔۔اے شام شہر یاراں “یہ ابتدائیہ سیدھی سادی عام سی بحر مضارع مثمن اخرب ” مفعول فاعلاتن‘ مفعول فاعلاتن “ میں ہے ۔مگر آگے اس کی حشرسامانیوں میں ستم کی دوزخی دوپہر کو دیکھئے ۔ ”ہم پہ مہرباں ہو ۔۔۔دوزخی دوپہرستم کی ۔۔۔دوپہر درد و غیظ و غم کی ۔۔۔بے زباں درد و غیظ وغم کی ۔۔یہاں بحر بالکل بدل گئی ہے یعنی اب فیض فاعلن ، فاعلن، فعو لن پر آگئے ہیں۔ مگر یہاں بھی اُن کا دِل نہیں لگتا اور وہ اگلے مصرع میں پھر بحر بدل لیتے ہیں ۔ ”اس دوزخی دوپہر کے تازیانے “اس کے بعد پھر اگلے مصرع میں پھر بحر بدل جاتی ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں ۔” آج تن پہ دھنک کی صورت “تقریبا ً تمام نظم میں اسی طرح کی” کثیر البحوریت “ موجود ہے ۔ اور اس پرمیرے لئے ایک اور تازیانہ ۔۔کہ شایدوہ اپنی اسی نظم کو اپنا انتخاب سمجھتے تھے،ثبوت کےلئے یہی کافی ہے کہ انہوں نے اسی میں استعمال شدہ ترکیب ” شام شہرِ یا راں “ پر اپنی کتاب کا نام رکھا۔"

"موازنہ فیض و فراز" از "منصور آفاق"
فرقان بھیا یہ تو یہ تو سیدھی عام سی بات ہے کہ بہت سی بحور کا خلط ہے منصور آفاق نے اچھی تنقید کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظم ( یا جو کچھ بھی یہ ہے) کو نثری کہا جا سکتا ہے کہ مجھے اس میں بھی تردد ہے۔
 

عباد اللہ

محفلین
نثری کہنے میں کیسا تردد۔ کیا فیض کے مقام کے باعث؟
بھیا نثر میں جو روانی چاہئے اس کلام میں وہ قطعی نہیں ہے
اس کلام کو پڑھتے ہوئے قاری یا کم سے کم میں تو بہت کرب سے گزرا ہوں
یہ اسلوبِ بیان طبعِ سلیم پر بہت گراں گزرتا ہے کم سے کم فیض کو ایسا کلام زیب نہیں دیتا ،جانے کس ترنگ میں وہ یہ کہہ گئے ہیں
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان بھیا یہ تو یہ تو سیدھی عام سی بات ہے کہ بہت سی بحور کا خلط ہے منصور آفاق نے اچھی تنقید کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظم ( یا جو کچھ بھی یہ ہے) کو نثری کہا جا سکتا ہے کہ مجھے اس میں بھی تردد ہے۔

صاحب، اپنے اپنے مزاج کی بات ہے! کہا جاتا ہے کہ شاعر یہ تجربہ تب کرتے ہیں جب ایک نظم کہتے کہتے ان کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتے ہیں اس کے لیے کوئی اور بحر مناسب ہو گی۔ اس لیے وہ اپنا رخ اک ذرا بدل سا لیتے ہیں۔
 
بھیا نثر میں جو روانی چاہئے اس کلام میں وہ قطعی نہیں ہے
اس کلام کو پڑھتے ہوئے قاری یا کم سے کم میں تو بہت کرب سے گزرا ہوں
یہ اسلوبِ بیان طبعِ سلیم پر بہت گراں گزرتا ہے کم سے کم فیض کو ایسا کلام زیب نہیں دیتا ،جانے کس ترنگ میں وہ یہ کہہ گئے ہیں

خیالات اور ان کا ابلاغ پہلےہے بحور بعد میں۔ ہم کسی بھی تخلیق کار پر یہ قدغن نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا لکھے اور کیا نہ لکھے۔ فیض نے عروض سے نکل کر لکھا تو کچھ برا نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ "ہمیں زیب نہیں دیتا کہ فیض پر کوئی قدغن لگائیں"
 

عباد اللہ

محفلین
خیالات اور ان کا ابلاغ پہلےہے بحور بعد میں۔ ہم کسی بھی تخلیق کار پر یہ قدغن نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا لکھے اور کیا نہ لکھے۔ فیض نے عروض سے نکل کر لکھا تو کچھ برا نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ "ہمیں زیب نہیں دیتا کہ فیض پر کوئی قدغن لگائیں"
میں کون ہوتا ہوں فیض پر قدغن لگانے والا البتہ قاری کی حیثیت سے اس کلام کو مسترد کرتا ہوں ، درجہ بندی میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہوں اور اس صنف کا نام پوچھتا ہوں
 

عباد اللہ

محفلین
صاحب، اپنے اپنے مزاج کی بات ہے! کہا جاتا ہے کہ شاعر یہ تجربہ تب کرتے ہیں جب ایک نظم کہتے کہتے ان کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتے ہیں اس کے لیے کوئی اور بحر مناسب ہو گی۔ اس لیے وہ اپنا رخ اک ذرا بدل سا لیتے ہیں۔
کوئی اور بھی ایسی مثال موجود ہے؟
 
کوئی اور بھی ایسی مثال موجود ہے؟
بہت سے شعراکرام کے غیر مطبوعہ کلام اور بیاضوں میں جنہیں ہم رف ڈائریاں کہہ سکتے ہیں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ یہ سوال چونکہ عین تحقیق طلب ہے اس لیے اگر ہو سکا تو انشا اللہ کسی وقت تحقیق کی روشنی میں اس کا جواب دوں گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے نثری نظم کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ آپ نثری نظم کہیے وہ آپ کے مصرعوں کو ایک ساتھ ملا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ ایک سادہ سا پیرا گراف ہے۔ حالانکہ کسی فن پارے کے ساتھ ایسا سلوک علم دشمنی یا جہالت کی سادہ مثال ہے۔ جبکہ یہی کلیہ ہم مایہ ناز شعرا کے کلام پر بھی لگا سکتے ہیں۔ ایسے احباب نثری نظم کا نام آتے ہی خوامخواہ اور بلا جواز اعتراضات شروع کردیتے ہیں حالانکہ میں ایک گزشتہ پوسٹ میں تفصیلا بیان کرچکا ہوں کہ اس پر کتنے لوگوں نے ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، کتنی کتابیں پرنٹ ہوئیں وغیرہ وغیرہ ۔ چونکہ ادب کی جملہ اقسام محض خیالات اور جذبات کے ابلاغ ہی کے لیے ہیں اس لیے اگر کوئی کلام نثری نظم ہو ،آزاد نظم ہو، غزل ہو ، کچھ بھی ہو، ہم شاعر پرکوئی قدغن نہیں لگا سکتے کہ وہ کونسا ذریعہ اظہار اپنا ئے اور کونسا نہ اپنائے ۔
 

عباد اللہ

محفلین
بہت سے شعراکرام کے غیر مطبوعہ کلام اور بیاضوں میں جنہیں ہم رف ڈائریاں کہہ سکتے ہیں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ یہ سوال چونکہ عین تحقیق طلب ہے اس لیے اگر ہو سکا تو انشا اللہ کسی وقت تحقیق کی روشنی میں اس کا جواب دوں گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے نثری نظم کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ آپ نثری نظم کہیے وہ آپ کے مصرعوں کو ایک ساتھ ملا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ ایک سادہ سا پیرا گراف ہے۔ حالانکہ کسی فن پارے کے ساتھ ایسا سلوک علم دشمنی یا جہالت کی سادہ مثال ہے۔ جبکہ یہی کلیہ ہم مایہ ناز شعرا کے کلام پر بھی لگا سکتے ہیں۔ ایسے احباب نثری نظم کا نام آتے ہی خوامخواہ اور بلا جواز اعتراضات شروع کردیتے ہیں حالانکہ میں ایک گزشتہ پوسٹ میں تفصیلا بیان کرچکا ہوں کہ اس پر کتنے لوگوں نے ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، کتنی کتابیں پرنٹ ہوئیں وغیرہ وغیرہ ۔ چونکہ ادب کی جملہ اقسام محض خیالات اور جذبات کے ابلاغ ہی کے لیے ہیں اس لیے اگر کوئی کلام نثری نظم ہو ،آزاد نظم ہو، غزل ہو ، کچھ بھی ہو، ہم شاعر پرکوئی قدغن نہیں لگا سکتے کہ وہ کونسا ذریعہ اظہار اپنا ئے اور کونسا نہ آپنائے ۔
اس گزشتہ پوسٹ کا لنک شامل کر لیجئے
اور صاحب کیا نثری نظم کے مصرعے مختلف بحروں میں کہے جاتے ہیں
اگر فیض کی اس نظم کو آپ نثری کہہ رہے ہیں تو وہ انور مسعود کا طنز بجا ھے کہ اوزان غلط ہوئے تو نثری نظم کہہ دیا!
 

عباد اللہ

محفلین
پس ثابت ہوا کہ یہ نثری نظم نہیں ہے کہ اس کا تقریباََ ہر مصرع کسی نہ کسی بحر کے اعتبار سے موزوں ہے
میری رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ مگر نثری نظم پر مطالعہ کافی محدود ہے، خود میں بھی اس کا قائل نہیں۔ لہٰذا خرم بھائی اس پر شافی جواب دے سکتے ہیں۔
 

عباد اللہ

محفلین
عباد! ایسے تجربات ہوتے رہے ہیں، سردست کچھ یاد نہیں، تاہم فیض کے اس شعری تجربے کو بالعموم پسند نہیں کیا گیا۔
فرقان بھیا غزل نما وغیرہ کے بارے میں تو سن رکھا ھے ایک آدھ نمونا بھی نظر سے گزرا ہے لیکن اس قسم کا تجربہ؟
 

فرقان احمد

محفلین
نثری نظم کے بارے میں بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا اپنا اندرونی آہنگ ہوتا ہے۔ ظاہری بات ہے، اس خیال سے اتفاق اور اختلاف رکھنے والوں کے اپنے اپنے نظریات ہیں۔ مثال کے طور پر محترم افتخار عارف کا کسی زمانے میں یہ کہنا تھا کہ نثری نظم کہنے والوں کی ادبی نمازِ جنازہ جائز نہیں۔ بعد میں، انہوں نے خود بھی نثری نظمیں کہیں۔ اس حوالے سے پھر پوچھا گیا، تو فرمانے لگے، بھئی، میں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے بحث چلتی رہتی ہے اور ابھی شاید مزید چلے گی۔
 
اس گزشتہ پوسٹ کا لنک شامل کر لیجئے
اور صاحب کیا نثری نظم کے مصرعے مختلف بحروں میں کہے جاتے ہیں
اگر فیض کی اس نظم کو آپ نثری کہہ رہے ہیں تو وہ انور مسعود کا طنز بجا ھے کہ اوزان غلط ہوئے تو نثری نظم کہہ دیا!

نثری نظم میں صوتی آہنگ ضروری ہے بحور ہر گز ضروری نہیں۔ لیکن اگر شامل ہوجائیں تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ میں نے اس نظم کو ہر گز نثری نظم نہیں کہا۔ اوپر چونکہ بات نثری نظم کی ہو رہی تھی تو اس کی حمایت میں یہ ضرور کہا ہے۔ اس پوسٹ کو میں ڈھونڈتا ہوں گزشتہ اطلاعات میں اس کا کہیں نہ کہیں لنک ہوگا۔ اردو محفل میں اپنی پرانی پوسٹس کو ڈھونڈنے کا طریقہ مجھے نہیں معلوم ۔
 
Top