فیس بکی طرحی مشاعرے کے لئے اک غزل

سر الف عین
عظیم اصلاح فرما دیجئے۔
طرحی مصرعہ
دیر تک اسکی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

یاد کرتے ہیں تمہیں درد ہوا کرتے ہیں
اچھی صحت کی تمہیں روز دعا کرتے ہیں

بیٹھ کر روز میں کرتا ہوں تمہاری باتیں
اور شاعر انہی سے شعر بُنا کرتے ہیں

وہ کوئی کام نہیں کرتے غزل کہتے ہیں
جو ترے عشق کے کالج میں پڑھا کرتے ہیں

تیری قربت کے کئی خواب دکھا کر خود کو
خود سے دیوانے کئی روز دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
بولا عمران مجھے آپ یہ کیا کرتے ہیں

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
یاد کرتے ہیں تمہیں درد ہوا کرتے ہیں
اچھی صحت کی تمہیں روز دعا کرتے ہیں
... درد ہوا کرنا کیا محاورہ ہے؟ یہ تو labour pain کے لیے بولا جاتا ہے! پہلا مصرعہ بدلو

بیٹھ کر روز میں کرتا ہوں تمہاری باتیں
اور شاعر انہی سے شعر بُنا کرتے ہیں
.. انہی سے میں ی کا اسقاط اچھا نہیں الفاظ بدلے جائیں

وہ کوئی کام نہیں کرتے غزل کہتے ہیں
جو ترے عشق کے کالج میں پڑھا کرتے ہیں
.. دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہیں' پر ہو رہا ہے، اس کے الفاظ بھی بدلیں

تیری قربت کے کئی خواب دکھا کر خود کو
خود سے دیوانے کئی روز دغا کرتے ہیں
.. واضح نہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
بولا عمران مجھے آپ یہ کیا کرتے ہیں
.. ٹھیک، مگر کون کہہ رہا ہے؟
 
یاد کرتے ہیں تمہیں درد ہوا کرتے ہیں
اچھی صحت کی تمہیں روز دعا کرتے ہیں
... درد ہوا کرنا کیا محاورہ ہے؟ یہ تو labour pain کے لیے بولا جاتا ہے! پہلا مصرعہ بدلو

بیٹھ کر روز میں کرتا ہوں تمہاری باتیں
اور شاعر انہی سے شعر بُنا کرتے ہیں
.. انہی سے میں ی کا اسقاط اچھا نہیں الفاظ بدلے جائیں

وہ کوئی کام نہیں کرتے غزل کہتے ہیں
جو ترے عشق کے کالج میں پڑھا کرتے ہیں
.. دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہیں' پر ہو رہا ہے، اس کے الفاظ بھی بدلیں

تیری قربت کے کئی خواب دکھا کر خود کو
خود سے دیوانے کئی روز دغا کرتے ہیں
.. واضح نہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
بولا عمران مجھے آپ یہ کیا کرتے ہیں
.. ٹھیک، مگر کون کہہ رہا ہے؟
سر کہیں ہوا کرنا ، اثر زائل کرنے کے معنی میں پڑھا تھا۔۔۔
چلو اسے تبدیل کر دیتا ہوں۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اچھی صحت کی تمہیں روز دعا کرتے ہیں
۔۔۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے بھائی۔۔۔
یہاں دعا دیتے ہیں زیادہ واضح اور فصیح ہے۔ محض قافیے کے لئے محاورہ نہ بدلا جائے تو بہتر۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عشق کے کالج میں پڑھنے کی بات بھی غزل میں خوبصورتی سے نہ لائی جا سکی۔۔۔
کالج کی جگہ مکتب بہتر ہے۔۔۔ توجہ فرمائیے گا۔۔۔
 
سر الف عین
شاہد شاہنواز
اب نظرثانی کریں

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

گاؤں کے لوگ تجھے یاد بڑا کرتے ہیں
اور ترے لوٹ کے آنے کی دعا کرتے ہیں

بیٹھ کر روز میں کرتا ہوں تمہاری باتیں
جن سے شاعر بھی کئی شعر بُنا کرتے ہیں

شعر کہتے ہیں کوئ کام نہیں کرتے وہ
جو ترے عشق کے مکتب میں پڑھا کرتے ہیں

جنکی تعبیر نہیں ملتی کبھی ، دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
شرما کر وہ بولا مجھے آپ یہ کیا کرتے ہیں

مجھکو جوتی کے برابر بھی نہیں رکھتے تھے
میری تعظیم میں وہ لوگ اٹھا کرتے ہیں

آپ عمران بدل سکتے ہیں رخ لہروں کا
ہم تو دریا کے بہاؤ میں بہا کرتے ہیں
 
آخری تدوین:
ایک شعر کہنے کی کوشش کر رہا ہوں نہیں کہا جا رہا۔۔۔

دکھ ہمارا کیا ہے تم باپ بنو ہو معلوم
یا
دکھ ہمارا جو بنو باپ تمہیں ہو معلوم
یا
دکھ یہ تم باپ بنو گے تو کرو گے محسوس
مجھ سے اکثر مرے ماں باپ کہا کرتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گاؤں کا لفظ اگر آپ کے لیے زیادہ خاص نہیں تو شہر کر لیجئے، کہ گاؤں تقطیع میں نہیں آ رہا ۔۔۔ مطلع اس طرح درست ہوجائے گا۔
شعر کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرتے وہ ۔۔۔ کام کا لفظ اٹک رہا ہے
مجھ سے شرما کہ وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں؟ ۔۔۔ شاید یہ مصرع تقطیع میں درست ہو ۔۔ آپ نے جو دیا، وہ تو نہیں ہو رہا ۔۔۔
جوتی کے برابر والا شعر تو آپ کا وزن میں ہے، تاہم خیال کچھ اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔ جوتی کے برابر رکھنا حقارت کے لیے ہے تو حقارت کے لیے کچھ اور بھی لایا جاسکتا ہے۔ غور فرمائیے گا۔ اس کے علاوہ تعظیم کے لیے اٹھنا اتنا لطف نہیں دے رہا، اٹھ کر کھڑے ہونا یا کچھ اور ۔۔۔ فی الحال میرے ذہن میں نہیں، کیا ہونا چاہئے؟ ۔۔۔ آپ بھی سوچئے گا ۔۔۔
لہریں سمندر میں ہوتی ہیں، دریا میں نہیں ۔۔۔ شایدمیں غلط بھی ہوسکتا ہوں ۔۔۔ باقی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لیے آپ نے شعر کہا؟؟ ۔۔۔ کیا بات ہے !! پی ٹی آئی سے تعلق ہے آپ کا؟؟
اگر یہی بات ہے تو ہم کچھ نہیں کہیں گے ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ آپ کا تو تخلص بھی عمران ہی ہے ۔۔۔ سو غزل میں لانے میں حرج بھی باقی نہ رہا ۔۔۔ جیسا کہ سیاست کو غزل میں لانے سے گریز کی تلقین کی جاتی ہے ۔۔۔ اور اگر لایا جائے تو بڑی چابکدستی چاہئے بھائی ۔۔۔
باقی الف عین صاحب آپ کی بہتر رہنمائی فرمائیں گے ۔۔۔ ہم تو چلے ۔۔۔
 
گاؤں کا لفظ اگر آپ کے لیے زیادہ خاص نہیں تو شہر کر لیجئے، کہ گاؤں تقطیع میں نہیں آ رہا ۔۔۔ مطلع اس طرح درست ہوجائے گا۔
شعر کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرتے وہ ۔۔۔ کام کا لفظ اٹک رہا ہے
مجھ سے شرما کہ وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں؟ ۔۔۔ شاید یہ مصرع تقطیع میں درست ہو ۔۔ آپ نے جو دیا، وہ تو نہیں ہو رہا ۔۔۔
جوتی کے برابر والا شعر تو آپ کا وزن میں ہے، تاہم خیال کچھ اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔ جوتی کے برابر رکھنا حقارت کے لیے ہے تو حقارت کے لیے کچھ اور بھی لایا جاسکتا ہے۔ غور فرمائیے گا۔ اس کے علاوہ تعظیم کے لیے اٹھنا اتنا لطف نہیں دے رہا، اٹھ کر کھڑے ہونا یا کچھ اور ۔۔۔ فی الحال میرے ذہن میں نہیں، کیا ہونا چاہئے؟ ۔۔۔ آپ بھی سوچئے گا ۔۔۔
لہریں سمندر میں ہوتی ہیں، دریا میں نہیں ۔۔۔ شایدمیں غلط بھی ہوسکتا ہوں ۔۔۔ باقی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لیے آپ نے شعر کہا؟؟ ۔۔۔ کیا بات ہے !! پی ٹی آئی سے تعلق ہے آپ کا؟؟
اگر یہی بات ہے تو ہم کچھ نہیں کہیں گے ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ آپ کا تو تخلص بھی عمران ہی ہے ۔۔۔ سو غزل میں لانے میں حرج بھی باقی نہ رہا ۔۔۔ جیسا کہ سیاست کو غزل میں لانے سے گریز کی تلقین کی جاتی ہے ۔۔۔ اور اگر لایا جائے تو بڑی چابکدستی چاہئے بھائی ۔۔۔
باقی الف عین صاحب آپ کی بہتر رہنمائی فرمائیں گے ۔۔۔ ہم تو چلے ۔۔۔
بہت شکریہ بھائی۔۔۔ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ نہ سیاست میں دلچسپی ہے۔۔۔ عام آدمی ہوں۔۔۔ عام انسان کے فقط مسائل ہوتے ہیں جنکا میری طرح وہ رونا روتا رہتا ہے۔۔۔
 
سر الف عین شاہد شاہنواز

گاؤں کے لوگ بہت یاد کیا کرتے ہیں
اور ترے لوٹ کے آنے کی دعا کرتے ہیں

بیٹھ کر روز میں کرتا ہوں تمہاری باتیں
جن سے شاعر بھی کئی شعر بُنا کرتے ہیں

شعر کہتے ہیں انہیں کام نہیں آتا اور
یا
شعر کہنے کے علاوہ وہ نہیں کرتے کام
جو ترے عشق کے مکتب میں پڑھا کرتے ہیں

جنکی تعبیر نہیں ملتی کبھی ، دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
مجھکو شرما کے وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں

دکھ یہ تم باپ بنو گے تو کرو گے محسوس
مجھ سے اکثر مرے ماں باپ کہا کرتے ہیں

آپ عمران بدل سکتے ہیں رخ لہروں کا
ہم تو پانی کے بہاؤ میں بہا کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شعر کہنے کے علاوہ وہ نہیں کرتے کام
۔۔۔ اسے اور بہتر بنا سکیں تو بہتر ۔۔۔ ورنہ یہ بھی چل ہی جائے گا ۔۔۔
اس کے علاوہ:
جن کی تعبیر نہ ملتی ہو، ترے دیوانے
یا
جنکی تعبیر نہیں ملتی کبھی ، دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
مجھ سے شرما کے وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں
۔۔۔۔
۔۔۔ فی الحال تو یہی سمجھ میں آیا ۔۔۔
 
شعر کہنے کے علاوہ وہ نہیں کرتے کام
۔۔۔ اسے اور بہتر بنا سکیں تو بہتر ۔۔۔ ورنہ یہ بھی چل ہی جائے گا ۔۔۔
اس کے علاوہ:
جن کی تعبیر نہ ملتی ہو، ترے دیوانے
یا
جنکی تعبیر نہیں ملتی کبھی ، دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
مجھ سے شرما کے وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں
۔۔۔۔
۔۔۔ فی الحال تو یہی سمجھ میں آیا ۔۔۔
یہ کیسا ہے

شعر کہنے کے علاوہ وہ نہیں کرتے کام
جو ترے عشق کے مکتب میں پڑھا کرتے ہیں
 
شعر کہنے کے علاوہ وہ نہیں کرتے کام
۔۔۔ اسے اور بہتر بنا سکیں تو بہتر ۔۔۔ ورنہ یہ بھی چل ہی جائے گا ۔۔۔
اس کے علاوہ:
جن کی تعبیر نہ ملتی ہو، ترے دیوانے
یا
جنکی تعبیر نہیں ملتی کبھی ، دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں

آج سینے سے لگا کر اسے جب بھینچ لیا
مجھ سے شرما کے وہ بولا کہ یہ کیا کرتے ہیں
۔۔۔۔
۔۔۔ فی الحال تو یہی سمجھ میں آیا ۔۔۔
یہ مصرعہ زبردست ہے۔۔۔

جن کی تعبیر نہ ملتی ہو، ترے دیوانے
دیکھ کر خواب وہی خود سے دغا کرتے ہیں
 
سر الف عین شاہد شاہنواز
اضافہ
سامنے آئینے کے خوب سجا کرتے ہیں
شام کے بعد اسے روز ملا کرتے ہیں

گھر بسانے کا جو دیکھا تھا کبھی ہم نے خواب
آپ آئیں تو وہی خواب سچا کرتے ہیں

سامنے ہم کو ترا عکس نظر آتا ہے
اپنی آنکھوں کو جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
عکس آتا ہے ترا نیند نہیں آتی ہے
یا
آپ آتے ہو نظر نیند نہیں آتی ہے
رات بھر آنکھوں کو یوں بند رکھا کرتے ہیں

تری آوازیں سنائی دیا کرتی ہیں مجھے
مری تنہائی میں بھی شور مچا کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سر الف عین شاہد شاہنواز
اضافہ
سامنے آئینے کے خوب سجا کرتے ہیں
شام کے بعد اسے روز ملا کرتے ہیں

گھر بسانے کا جو دیکھا تھا کبھی ہم نے خواب
آپ آئیں تو وہی خواب سچا کرتے ہیں

سامنے ہم کو ترا عکس نظر آتا ہے
اپنی آنکھوں کو جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
عکس آتا ہے ترا نیند نہیں آتی ہے
یا
آپ آتے ہو نظر نیند نہیں آتی ہے
رات بھر آنکھیں جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
رات بھر آنکھوں کو یوں بند رکھا کرتے ہیں

تری آوازیں سنائی دیا کرتی ہیں مجھے
مری تنہائی میں بھی شور مچا کرتے ہیں
معذرت کہ یہاں کسی شعر کا خیال کم از کم مجھے متاثر کن نہیں لگ رہا۔
مشکل ردیف کو نبھانا تو مشکل ہے ہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آسان ردیف میں اچھے قافیے کا چناو ہی آپ کو اچھے خیال تک پہنچا سکتا ہے۔
ویسے بھی بقول محترم الف عین پانچ سات شعر کی غزل بہتر تاثر چھوڑتی ہے۔ اور موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قاری کے پاس وقت کی شدید کمی ہے۔
پھر بھی آپ مزید شعر کہنا چاہیں تو ایک بار ہر شعر کو انفرادی طور پر وقت دیجئے گا۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تقطیع میں کمزوری کے حوالے سے مجھے بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ اس لئے آن لائن مدد لے سکتے ہیں۔
Aruuz.com سے تقطیع کا مسئلہ حل کرنے میں ٨٠ سے ٩٠ فیصد تک مدد مل جائے گی۔ آزما لیجئے گا۔۔
 
معذرت کہ یہاں کسی شعر کا خیال کم از کم مجھے متاثر کن نہیں لگ رہا۔
مشکل ردیف کو نبھانا تو مشکل ہے ہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آسان ردیف میں اچھے قافیے کا چناو ہی آپ کو اچھے خیال تک پہنچا سکتا ہے۔
ویسے بھی بقول محترم الف عین پانچ سات شعر کی غزل بہتر تاثر چھوڑتی ہے۔ اور موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قاری کے پاس وقت کی شدید کمی ہے۔
پھر بھی آپ مزید شعر کہنا چاہیں تو ایک بار ہر شعر کو انفرادی طور پر وقت دیجئے گا۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تقطیع میں کمزوری کے حوالے سے مجھے بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ اس لئے آن لائن مدد لے سکتے ہیں۔
Aruuz.com سے تقطیع کا مسئلہ حل کرنے میں ٨٠ سے ٩٠ فیصد تک مدد مل جائے گی۔ آزما لیجئے گا۔۔
تقطیع تو سر درست ہے۔۔۔ کہیں کوئی تھوڑی غلطی ہو گئی ہو تو الگ بات ہے۔۔۔
Aruuz.com پر بھی چیک کیا ہے۔۔۔
آوازیں اور تنہائی ان دو الفاظ کی تقطیع میں ذرا کنفیوژن ہے باقی درست ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ دو غزلہ کی دوسری غزل ہے؟
سامنے آئینے کے خوب سجا کرتے ہیں
شام کے بعد اسے روز ملا کرتے ہیں
... آئینے کی ے کا گرنا ناگوار ہے، اسے ملنا یا اس سےلنا؟

گھر بسانے کا جو دیکھا تھا کبھی ہم نے خواب
آپ آئیں تو وہی خواب سچا کرتے ہیں
... سچا سمجھ نہیں سکا، کیا سچّا چ مشدد ہے؟ بغیر تشدید کے کوئی لفظ نہیں

سامنے ہم کو ترا عکس نظر آتا ہے
اپنی آنکھوں کو جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
عکس آتا ہے ترا نیند نہیں آتی ہے
یا
سامنے آئینے کے خوب سجا کرتے ہیں
شام کے بعد اسے روز ملا کرتے ہیں

گھر بسانے کا جو دیکھا تھا کبھی ہم نے خواب
آپ آئیں تو وہی خواب سچا کرتے ہیں

سامنے ہم کو ترا عکس نظر آتا ہے
اپنی آنکھوں کو جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
عکس آتا ہے ترا نیند نہیں آتی ہے
یا
آپ آتے ہو نظر نیند نہیں آتی ہے
رات بھر آنکھوں کو یوں بند رکھا کرتے ہیں

تری آوازیں سنائی دیا کرتی ہیں مجھے
مری تنہائی میں بھی شور مچا کرتے ہیں

... یہ تو دو الگ الگ اشعار لگ رہے ہیں!
پہلا شعر درست ہو سکتا ہے اگر 'جبھی' کو بدل دیا جائے 'جو ہم' بہتر ہے
دوسرا شعر یوں رکھو
سامنے آئینے کے خوب سجا کرتے ہیں
شام کے بعد اسے روز ملا کرتے ہیں

گھر بسانے کا جو دیکھا تھا کبھی ہم نے خواب
آپ آئیں تو وہی خواب سچا کرتے ہیں

سامنے ہم کو ترا عکس نظر آتا ہے
اپنی آنکھوں کو جبھی بند کیا کرتے ہیں
یا
عکس آتا ہے ترا نیند نہیں آتی ہے
یا
تم ہی آتے ہو نظر نیند نہیں آتی ہے
رات بھر آنکھوں کو ہم بند رکھا کرتے ہیں
ان دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ رکھو

تری آوازیں سنائی دیا کرتی ہیں مجھے
مری تنہائی میں بھی شور مچا کرتے ہیں
.. . شور کو جمع کے طور پر استعمال درست نہیں
 
Top