فَلک سے لَو نہ لگائے، تو عشق کیسا ہے

محمد فہد

محفلین
فَلک سے لَو نہ لگائے، تو عشق کیسا ہے
نہ رات دن جو جلائے، تو عشق کیسا ہے

جو دار تک بھی نہ لائے، تو عشق کیسا ہے
گر آگ پر نہ نچائے، تو عشق کیسا ہے

گلی گلی نہ رلائے، تو عشق کیسا ہے
نہ پاؤں گھنگھرو بَندھائے، تو عشق کیسا ہے

جوانیاں نہ لٹائے، تو عشق کیسا ہے
نہ شاہ مصر بنائے، تو عشق کیسا ہے

جو باپ روتا ہے بیٹے کو یاد کر کے، اسے
نظر کچھ اور بھی آئے، تو عشق کیسا ہے

کسی کی چاہ میں پاگل بھی بول دو خود کو
سکوں کی نیند بھی آئے، تو عشق کیسا ہے

کڑکتی دھوپ میں صحرا کی تپتی ریتوں پر
نہ ننگے پیر چَلائے، تو عشق کیسا ہے

یہ فتنہ بھی ہے تماشہ بھی اور مجرم بھی
نہ اتنے رنگ دِکھائے، تو عشق کیسا ہے

اگر ہے عشق خدا پاک سے تجھے صاحب
تُو سیدھی راہ نہ پائے، تو عشق کیسا ہے

کہ بادشاہوں کو بھی عشق رول دیتا ہے
نہ خاک میں یہ ملائے، تو عشق کیسا ہے

تجھے گماں ہے کہ رب سے تجھے محبت ہے
تُو خلق کو بھی ستائے، تو عشق کیسا ہے

اگر ہے ہوش میں تو عشق ہو نہیں سکتا
نہ تیرے ہوش اڑائے، تو عشق کیسا ہے

جھلک جو ایک بھی لیلٰی کو دیکھ لے ساحل
اُسے نہ مجنوں بنائے، تو عشق کیسا ہے

کلام ساحل محمود
 
Top