فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

محمل ابراہیم

لائبریرین
چہرہ سالم نہ نظر ہی قائم
بے ستوں سب کی حویلی قائم

ہاتھ سے موجوں نے رکھ دی پتوار
کیسے دھارے پہ ہے کشتی قائم

زیست ہے کچے گھڑے کے مانند
بہتے پانی پہ ہے مٹی قائم

سائے دیوار کے ٹیڑھے ترچھے
اور دیوار کہ سیدھی قائم

سب ہیں ٹوٹی ہوئی قدروں کے کھنڈر
کون ہے وضع پہ اپنی قائم

خود کو کس سطح پر زندہ رکھوں
لفظ دائم ہیں نہ معنی قائم

ہے بڑی بات جو رہ جائے فضاؔ
سطح سنجیدہ نگاہی قائم
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ
ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ

آج کے سارے حقائق واہموں کی زد میں ہیں
ڈھالنا ہے تجھ کو خوابوں سے کوئی پیکر تو آ

تو سہی اک عکس لیکن یہ حصار آئنہ
لوگ تجھ کو دیکھنا چاہیں برون در تو آ

ذائقہ زخموں کا یوں کیسے سمجھ میں آئے گا
پھینکنا ہے بند پانی میں کوئی پتھر تو آ

جسم خاکی تجھ کو شیشے کی حویلی ہی سہی
اے چراغ جاں کبھی فانوس کے باہر تو آ

اس جگہ آہنگ میں ڈھلتی ہیں دل کی دھڑکنیں
آ مرے گہوارۂ احساس کے اندر تو آ

بارہا جی میں یہ آئی عمر رفتہ سے کہوں
شام ہونے کو ہے اے بھولے مسافر گھر تو آ
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سوال سخت تھا دریا کے پار اتر جانا
وہ موج موج مگر خود مرا بکھر جانا

یہ کیا خبر تمہیں کس روپ میں ہوں زندہ میں
ملے نہ جسم تو سائے کو قتل کر جانا

پڑا ہوں یخ زدہ صحرائے آگہی میں ہنوز
مرے وجود میں تھوڑی سی دھوپ بھر جانا

کبھی تو ساتھ یہ آسیب وقت چھوڑے گا
خود اپنے سائے کو بھی دیکھنا تو ڈر جانا

جو چاہتے ہو سحر کو نئی زبان ملے
تو پچھلی شب کے چراغوں کو قتل کر جانا

ہمارے عہد کا ہر ذہن تو نہیں جامد
کسی دریچۂ احساس سے گزر جانا

فضاؔ تجھی کو یہ سفاکی ہنر بھی ملی
اک ایک لفظ کو یوں بے لباس کر جانا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر
یہ روپ رس بھی سہی زندگی کے چہرے پر

ابھی یہ زخم مسرت ہے ناشگفتہ سا
چھڑک دو میرے کچھ آنسو ہنسی کے چہرے پر

نوا کی گرد ہوں مجھ کو سمیٹ کر لے جا
بکھر نہ جاؤں کہیں خامشی کے چہرے پر

اس انقلاب پہ کس کی نظر گئی ہوگی
غموں کی دھوپ کھلی ہے خوشی کے چہرے پر

ہزیمتوں کے کس انبوہ میں ہیں گم ہم لوگ
کوئی وقار نہیں آدمی کے چہرے پر

خراش درد کا آئینہ ہوں مجھے دیکھو
یہ بانکپن بھی کہاں ہے کسی کے چہرے پر

بہت حریص ہیں دیدہ وران چہرہ فضاؔ
نقاب ڈال کے چل آگہی کے چہرے پر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اقرا کی سوغات کی صورت آ
ہونٹوں پر آیات کی صورت آ

سوکھ چلے ہیں آنگن کے پودے
بے موسم برسات کی صورت آ

شاخ یقیں کی بے ثمری اور میں
بار آور شبہات کی صورت آ

میں پروردہ تیرہ بختی کا
میرے گھر تو رات کی صورت آ

میں اپنی تحدید میں ہوں مشغول
آ توسیع ذات کی صورت آ

فکر کے تیرہ خانے روشن کر
لو دیتے جذبات کی صورت آ

راس آئے مجھ کو اجیالے کب
مبہم امکانات کی صورت آ
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا
ہوا خراب جو اپنی تلاش میں ڈوبا

قلم اٹھایا تو سر پر کلاہ کج نہ رہی
یہ شہریار بھی فکر معاش میں ڈوبا

جھلے ہے پنکھا یہ زخموں پہ کون آٹھ پہر
ملا ہے مجھ کو نفس ارتعاش میں ڈوبا

اسے نہ کیوں تری دلداریٔ نظر کہیے
وہ نیشتر جو دل پاش پاش میں ڈوبا

فضاؔ ہے خالق صبح حیات پھر بھی غریب
کہاں کہاں نہ افق کی تلاش میں ڈوبا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا
ہوا خراب جو اپنی تلاش میں ڈوبا

قلم اٹھایا تو سر پر کلاہ کج نہ رہی
یہ شہریار بھی فکر معاش میں ڈوبا

جھلے ہے پنکھا یہ زخموں پہ کون آٹھ پہر
ملا ہے مجھ کو نفس ارتعاش میں ڈوبا

اسے نہ کیوں تری دلداریٔ نظر کہیے
وہ نیشتر جو دل پاش پاش میں ڈوبا

فضاؔ ہے خالق صبح حیات پھر بھی غریب
کہاں کہاں نہ افق کی تلاش میں ڈوبا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر
گرد گرد اپنی بصیرت خاک خاک اپنا ہنر

جس طرف دیکھو ہجوم چہرۂ بے چہرگاں
کس گھنے جنگل میں یارو گم ہوا سب کا ہنر

اب ہماری مٹھیوں میں ایک جگنو بھی نہیں
چھین کر بے رحم موسم لے گیا سارا ہنر

توڑ کر اس کو بھی اب کوئی ہوا لے جائے گی
یہ جو برگ سبز کے مانند ہے میرا ہنر

اب کہاں دل کے لہو میں بھیگی بھیگی آگہی
جیب میں ہم بھی لیے پھرتے ہیں مانگے کا ہنر

دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر

گرمی پہلو یہی تشکیک و لا علمی کی آنچ
ذوق گمشدگی سے ہم ہیں با خبر یا با ہنر

بس یہی خاکستر جاں ہے یہاں اپنی شناخت
ہو گیا سارا بدن جب راکھ تو چمکا ہنر

شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ
جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
یہ سارا ٹائپ کر رہی ہو یا کوئی فائل مل گئی ہے؟ تمہارے نام فضا صاحب کی ای بک بنا دی جائے گی


سارا ٹائپ تو نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ابھی مجھے 36 غزلیں ہی ملی ہیں میں کوشش میں ہوں کی یہاں کم از کم ایک اُن کا ایک مجموعہ کلام ہی ارسال کر دوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر دیوان اور کلیات میں کوئی فرق نہیں تو کلیات فضا ابنِ فیضی شائع ہوئی تھی۔
محمل بٹیا!!!
عمدہ بہت عمدہ۔خوب صورت اور مفصل۔
اصطلاح میں ’’دیوان‘‘ کسی شاعر کی تخلیقات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف وار کلام شامل کیا جاتا ہے۔ اشاعت سے پہلے جو چیز بیاض ہے، اشاعت کے بعد وہی چیز دیوان ہے۔ دیوان کی جمع ’’دواوین‘‘ ہے اور ’’بیاض‘‘ اُس کاپی یا ڈائری کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے اشعار نوٹ کیا کرتا ہے۔

کلیات

اردو میں کلیات کا لفظ بہ طورِ واحد مستعمل ہے۔ کلیات وہ شعری مجموعہ ہے جس میں شاعر کا کُل کلام جمع کرکے شائع کر دیتا ہے۔

جیسے فیض احمد فیضؔ نے اپنے تمام مجموعوں کو یکجا کرکے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے اپنی زندگی ہی میں شائع کر دیا تھا۔

’’کلیاتِ غزلیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کے چھے کے چھے دواوین کو یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ ’’کلیاتِ نظمیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کی غزلیات کے علاوہ ان کی باقی تمام اصناف پر مشتمل کلام شامل ہے۔

اسی طرح حسرت موہانی کے بارہ دواوین ہیں جن کو یکجا کرکے کلیاتِ حسرتؔ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محمل بٹیا!!!
عمدہ بہت عمدہ۔خوب صورت اور مفصل۔
اصطلاح میں ’’دیوان‘‘ کسی شاعر کی تخلیقات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف وار کلام شامل کیا جاتا ہے۔ اشاعت سے پہلے جو چیز بیاض ہے، اشاعت کے بعد وہی چیز دیوان ہے۔ دیوان کی جمع ’’دواوین‘‘ ہے اور ’’بیاض‘‘ اُس کاپی یا ڈائری کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے اشعار نوٹ کیا کرتا ہے۔

کلیات

اردو میں کلیات کا لفظ بہ طورِ واحد مستعمل ہے۔ کلیات وہ شعری مجموعہ ہے جس میں شاعر کا کُل کلام جمع کرکے شائع کر دیتا ہے۔

جیسے فیض احمد فیضؔ نے اپنے تمام مجموعوں کو یکجا کرکے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے اپنی زندگی ہی میں شائع کر دیا تھا۔

’’کلیاتِ غزلیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کے چھے کے چھے دواوین کو یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ ’’کلیاتِ نظمیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کی غزلیات کے علاوہ ان کی باقی تمام اصناف پر مشتمل کلام شامل ہے۔

اسی طرح حسرت موہانی کے بارہ دواوین ہیں جن کو یکجا کرکے کلیاتِ حسرتؔ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
بہت شکریہ میڈم:)
قربان جاؤں آپ کے علم پر
 
Top