فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

محمل ابراہیم

لائبریرین
میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا

میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا
کون آوارہ پھرا کوچۂ فن میں ایسا

ہم بھی جب تک جیے سر سبز ہی سر سبز رہے
وقت نے زہر اتارا تھا بدن میں ایسا

زندگی خود کو نہ اس روپ میں پہچان سکی
آدمی لپٹا ہے خوابوں کے کفن میں ایسا

ہر خزاں میں جو بہاروں کی گواہی دے گا
ہم بھی چھوڑ آئے ہیں اک شعلہ چمن میں ایسا

لوگ مجھ کو مرے آہنگ سے پہچان گئے
کون بدنام رہا شہر سخن میں ایسا

اپنے منصوروں کو اس دور نے پوچھا بھی نہیں
پڑ گیا رخنہ صف دار و رسن میں ایسا

ہے تضادوں بھری دنیا بھی ہم آہنگ بہت
فاصلہ تو نہیں کچھ سنگ و سمن میں ایسا

وقت کی دھوپ کو ماتھے کا پسینہ سمجھا
میں شرابور رہا دل کی جلن میں ایسا

تم بھی دیکھو مجھے شاید تو نہ پہچان سکو
اے مری راتو میں ڈوبا ہوں گہن میں ایسا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا

اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا
اپنے چہرے پر مری گرد سفر لے جائے گا

دسترس آساں نہیں کچھ خرمن معنی تلک
جو بھی آئے گا وہ لفظوں کے گہر لے جائے گا

چھاؤں میں نخل جنوں کی آؤ ٹھہرا لیں اسے
کون جلتی دھوپ کو صحرا سے گھر لے جائے گا

آسماں کی کھوج میں ہم سے زمیں بھی کھو گئی
کتنی پستی میں مذاق بال و پر لے جائے گا

میں ہی تنہا ہوں یہاں اس کی صلابت کا گواہ
کون اٹھا کر یہ مرا سنگ ہنر لے جائے گا

کاٹ کر دست دعا کو میرے خوش ہو لے مگر
تو کہاں آخر یہ شاخ بے ثمر لے جائے گا

پست رکھو اپنی آوازوں کو ورنہ دور تک
بات گھر کی رخنۂ دیوار و در لے جائے گا

میں اٹھاتا ہوں قدم حالات کی رو کے خلاف
جانتا ہوں وقت کا جھونکا کدھر لے جائے گا

اتنی لمبی بھی نہیں لوگو یہ گمنامی کی عمر
ڈھونڈھ کر مجھ کو شعور معتبر لے جائے گا

کاروبار زندگی تک ہیں یہ ہنگامے فضاؔ
کیا وہ سایہ چھوڑ دے گا جو شجر لے جائے گا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا

فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا
فقط دعا مجھے دینا سلام مت کرنا

کہیں رکے تو نہ پھر تم کو راستہ دے گی
یہ زندگی بھی سفر ہے قیام مت کرنا

وہ آشنا نہیں خوابوں کی معنویت کا
ہمارے خواب ابھی اس کے نام مت کرنا

زبان منہ میں ہے تار گنہ کی صورت
تمہارا حکم بجا ہے کلام مت کرنا

مرا وجود کہ ہے دانۂ قناعت سا
میں اک فقیر پرندہ ہوں دام مت کرنا

یہ بات سچ ہے یہاں گفتگو عوام سے ہے
مگر ادب کو گزر گاہ عام مت کرنا

فضاؔ چراغ و شفق دونوں رہزنوں کی متاع
جو خیر چاہو تو رستے میں شام مت کرنا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سراب جسم کو صحرائے جاں میں رکھ دینا
سراب جسم کو صحرائے جاں میں رکھ دینا
ذرا سی دھوپ بھی اس سائباں میں رکھ دینا

تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی
مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا

شکست کھائے ہوئے حوصلوں کا لشکر ہوں
اٹھا کے مجھ کو صف دشمناں میں رکھ دینا

جدید نسلوں کی خاطر یہ ورثہ کافی ہے
مرے یقیں کو حصار گماں میں رکھ دینا

یہ موج تاکہ سفینے کو گرم رو رکھے
کچھ آگ خیمۂ آب رواں میں رکھ دینا

بہت طویل ہے کالے سمندروں کا سفر
مجھے ہوا کی جگہ بادباں میں رکھ دینا

میں اپنے ذمے کسی کا حساب کیوں رکھوں
جو نفع ہے اسے جیب زیاں میں رکھ دینا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
روح اور بدن دونوں داغ داغ ہیں یارو

روح اور بدن دونوں داغ داغ ہیں یارو
پھر بھی اپنے بام و در بے چراغ ہیں یارو

آؤ ہم میں ڈھل جاؤ عمر بھر کے پیاسے ہیں
تم شراب ہو یارو ہم ایاغ ہیں یارو

جن پہ بارش گل ہے ان کا حال کیا ہوگا
زخم کھانے والے بھی باغ باغ ہیں یارو

جن کو رہ کے کانٹوں میں خوش مزاج ہونا تھا
وہ مقام گل پا کر بے دماغ ہیں یارو

ہم سے مل کے فطرت کے پیچ و خم کو سمجھو گے
ہم جہان فطرت کا اک سراغ ہیں یارو

نا شناسوں کی تحسیں رنگ لائی ہے کیا کیا
کوئلے بھی اب لعل شب چراغ ہیں یارو

ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے
دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے

میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے
عجب وبال‌ غم روزگار سر پر ہے

گماں ہے سب کو کہ ہوں آسماں اٹھائے ہوئے
سفر سفر وہ قدم کا غبار سر پر ہے

ہوائے جاں کا تقاضا کہ رہیے گھر سے دور
کہ ہیں جو گھر میں بیاباں ہزار سر پر ہے

سبک نہ سمجھو مجھے پشت ٹوٹ جائے گی
میں ایک پل سہی صدیوں کا بار سر پر ہے

زمیں کے ذمے ہے جو قرض کیوں چکاؤں میں
زمانہ کس لیے آخر سوار سر پر ہے

ہزار گھاٹے کا سودا ہو یہ فقیریٔ حرف
یہی بہت ہے کلاہ وقار سر پر ہے

فضاؔ نہ تھا کبھی تازہ دماغ اتنا میں
ہے اس کا ہاتھ کہ شاخ‌ بہار سر پر ہے
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو

نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو
مثال نکہت گل محمل سفر باندھو

اس آئنہ میں کوئی عکس یوں نہ ابھرے گا
نظر سے سلسلۂ دانش نظر باندھو

جو صاحبان بصیرت تھے بے لباس ہوئے
فضیلتوں کی یہ دستار کس کے سر باندھو

سفیر جاں ہوں حصار بدن میں کیا ٹھہروں
چمن پرستو نہ خوشبو کے بال و پر باندھو

نہ ٹوٹ جائے کہ نازک ہے رشتۂ انفاس
طناب خیمۂ ہستی سنبھال کر باندھو

کہاں ہر ایک شناور گہر بکف نکلا
سمندروں سے توقع نہ اس قدر باندھو

ہر ایک ہاتھ میں ہے سنگ صد ہزار آشوب
پھر ایسے وقت میں شاخوں سے کیوں ثمر باندھو

نمک چھڑکتے رہو یہ بھی ہے مسیحائی
یہ کیا ضروری کہ مرہم ہی زخم پر باندھو

پھرے ہے کب سے پریشاں یہ زخم خوردہ ہرن
جنوں کو دشت سے لے جا کے اپنے گھر باندھو

گیا وہ دور کہ جب برف برف تھے الفاظ
گرہ میں اب یہ دہکتے ہوئے شرر باندھو

ادب نہیں ہے ریاضی کا مسئلہ یارو
ہر ایک شخص پہ کیوں تہمت ہنر باندھو

یہ صنف آبروئے‌ فن شاعری ہے فضاؔ
غزل کہو تو مضامین معتبر باندھو
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں

بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں
یہ سوچتے ہیں لب معتبر کہاں کھولیں

عجب حصار ہیں سب اپنے گرد کھینچے ہوئے
وجود کی وہی دیوار در کہاں کھولیں

پڑاؤ ڈالیں کہاں راستے میں شام ہوئی
بھنور ہیں سامنے رخت سفر کہاں کھولیں

یہاں شعور کے ناخن تو ہم بھی رکھتے ہیں
مگر یہ عقدۂ‌ فکر و نظر کہاں کھولیں

نہ اس کے ساتھ ہمارا بھی مول ہونے لگے
ہیں کشمکش میں کہ مشت گہر کہاں کھولیں

ہوا ہے تیز نہ اس کے ورق اڑا لے جائے
صحیفۂ نفس مختصر کہاں کھولیں

بچائیں آبرو جسموں کی بھیڑ میں کیسے
ہے کھولنی گرہ جاں مگر کہاں کھولیں

کوئی فضاؔ تو ملے ہم کو قابل‌ پراوز
اب ان حدوں میں بھلا بال و پر کہاں کھولیں
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
وہی روایت گزیدہ دانش وہی حکایت کتاب والی
رہی ہیں بس زیر درس تیرے کتابیں پچھلے نصاب والی

میں اپنے لفظوں کو اپنے فن کے لہو سے سرسبز کرنے والا
مرا شعور اجتہاد والا مری نظر احتساب والی

چلو ذرا دوستوں سے مل لیں کسے خبر اس کی پھر کب آئے
یہ صبح گلگوں خیال والی یہ مشکبو شام خواب والی

مثال مجھ گم شدہ نفس کی ہے ایسی ہی جیسے کوئی بچہ
پرانے بستے میں رکھ کے پھر بھول جائے کاپی حساب والی

مرے لیے تو ترا علاقہ ہے شہر ممنوعہ جیسا لیکن
کھنڈر کھنڈر زندگی کو میں نے گلی دکھا دی گلاب والی

مرے یہ افکار تیرے فکر و نظر کی تطہیر ہیں مری جاں
میں حکمتیں تجھ کو دے رہا ہوں وہی خدا کی کتاب والی

فضاؔ کہ درویش حرف ہے دیکھنا ذرا اس کا بانکپن تم
قمیص خورشید بخت والی کلاہ گردوں رکاب والی
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
آہ کو باد صبا درد کو خوشبو لکھنا
ہے بجا زخم بدن کو گل خود رو لکھنا

درد بھیگی ہوئی راتوں میں چمک اٹھا ہے
ہم کو لکھنا ہے تو برسات کا جگنو لکھنا

خواب ٹکرا کے حقائق سے ہوئے صد پارہ
اب انہیں آنکھ سے ڈھلکے ہوئے آنسو لکھنا

تو نے سلطانیٔ جمہور بدل دیں قدریں
آج فرہاد کو مشکل نہیں خسرو لکھنا

اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا

ہنر افشانی خامہ کو دعا دو کہ فضاؔ
لفظ کو سہل ہوا نافۂ آہو لکھنا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
مجھے منظور کاغذ پر نہیں پتھر پہ لکھ دینا
ہٹا کر مجھ کو تم منظر سے پس منظر پہ لکھ دینا

خبر مجھ کو نہیں میں جسم ہوں یا کوئی سایا ہوں
ذرا اس کی وضاحت دھوپ کی چادر پہ لکھ دینا

اسی کی دید سے محروم جس کو دیکھنا چاہوں
مری آنکھوں کو اس کے خواب گوں پیکر پہ لکھ دینا

اسی مٹی کا غمزہ ہیں معارف سب حقائق سب
جو تم چاہو تو اس جملے کو لوح زر پہ لکھ دینا

بہت نازک ہیں میرے سرو قامت تیغ زن لوگو
ہزیمت خوردگی میری صف لشکر پہ لکھ دینا

کبھی میں بھی اڑانیں بھرنے والا تھا بہت اونچی
مری پہچان اسی ٹوٹے ہوئے شہپر پہ لکھ دینا

سرابوں کے سفر سے تو نہیں لوٹا فضاؔ اب تک
جو خط لکھنا تو اتنی بات اس کے گھر پہ لکھ دینا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا

چلو اچھا ہی ہوا مفت لٹا دی یہ جنس
ہم کو ملتا صلۂ‌ حسن نظر ہی کتنا

کیا پگھلتا جو رگ و پے میں تھا یخ بستہ لہو
وقت کے جام میں تھا شعلۂ تر ہی کتنا

کس خطا پر یہ اٹھانا پڑی راتوں کی صلیب
ہم نے دیکھا تھا ابھی خواب سحر ہی کتنا

ہم بھی کچھ دیر کو چمکے تھے کہ بس راکھ ہوئے
سچ تو یہ ہے کہ رم و رقص شرر ہی کتنا

طرز احساس میں ندرت تھی ادھر ہی کتنی
فکر و جذبے میں توازن ہے ادھر ہی کتنا

دے دیئے خسرو و شیریں نے اسے موڑ کئی
ورنہ یوں فاصلۂ تیشہ و سر ہی کتنا

تیرا عرفان تو کیا خود کو نہ پہچان سکا
تھا مرا دائرہ علم و خبر ہی کتنا

یک قدم بیش نہیں شب کی مسافت لیکن
ایک ٹوٹے ہوئے تارے کا سفر ہی کتنا

اے فضاؔ دامن الفاظ ہے اب بھی خالی
تھا یہاں شاخ معانی پہ ثمر ہی کتنا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ہاتھ پھیلاؤ تو سورج بھی سیاہی دے گا
کون اس دور میں سچوں کی گواہی دے گا

سوز احساس بہت ہے اسے کم تر مت جان
یہی شعلہ تجھے بالیدہ نگاہی دے گا

یوں تو ہر شخص یہ کہتا ہے کھرا سونا ہوں
کون کس روپ میں ہے وقت بتا ہی دے گا

ہوں پر امید کہ سب آستیں رکھتے ہیں یہاں
کوئی خنجر تو مری پیاس بجھا ہی دے گا

شب گزیدہ کو ترے اس کی خبر ہی کب تھی
دن جو آئے گا غم لا متناہی دے گا

آئنہ صاف دل اتنا بھی نہیں اب کہ تمہیں
اصل چہرے کے خط و خال دکھا ہی دے گا

تیرے ہاتھوں کا قلم ہے جو عصائے درویش
یہی اک دن تجھے خورشید کلاہی دے گا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
یہ کیسا بوجھ ہمارے بدن پہ آن گرا

بہت سنبھال کے رکھ بے ثبات لمحوں کو
ذرا جو سنکی ہوا ریت کا مکان گرا

اس آئینے ہی میں لوگوں نے خود کو پہچانا
بھلا ہوا کہ میں چہروں کے درمیان گرا

رفیق سمت سفر ہوگی جو ہوا ہوگی
یہ سوچ کر نہ سفینے کا بادبان گرا

میں اپنے عہد کی یہ تازگی کہاں لے جاؤں
اک ایک لفظ قلم سے لہولہان گرا

قریب و دور کوئی شعلۂ نوا بھی نہیں
یہ کن اندھیروں میں ہاتھوں سے شمع دان گرا

فضاؔ کو توڑ تو پھینکا ہواؤں نے لیکن
یہ پھول اپنی ہی شاخوں کے درمیان گرا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
بہت جمود تھا بے حوصلوں میں کیا کرتا
نہ لگتی آگ تو میں جنگلوں میں کیا کرتا

اک امتحان وفا ہے یہ عمر بھر کا عذاب
کھڑا نہ رہتا اگر زلزلوں میں کیا کرتا

ہو چوب گیلی تو آخر جلائے کون اس کو
میں تجھ کو یاد بجھے ولولوں میں کیا کرتا

مری تمام حرارت زمیں کا ورثہ ہے
یہ آفتاب ترے بادلوں میں کیا کرتا

اب اس قدر بھی طرفدار میں نہیں اس کا
حمایت اس کی غلط فیصلوں میں کیا کرتا

یہ لوگ وہ ہیں جو بے جرم سنگسار ہوئے
حریف رہ کے ترے منچلوں میں کیا کرتا

میں اس کے چہرے کی رنگت نہیں جو اڑ نہ سکوں
سمیٹ کر وہ مجھے آنچلوں میں کیا کرتا

ادب سے رابطہ دانش کا جانتا ہی نہیں
الجھ کے وہ بھی مرے مسئلوں میں کیا کرتا

نہ راس آئی کبھی مجھ کو بزم کم نظراں
فضاؔ بھی بیٹھ کے ان پاگلوں میں کیا کرتا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا
کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا

نفس تمام ہوا داستان ختم ہوئی
جو تھا طویل وہی حرف مختصر نکلا

جو گرد ساتھ نہ اڑتی سفر نہ یوں کٹتا
غبار راہ گزر موج بال و پر نکلا

مجھے بھی کچھ نئے تیشے سنبھالنے ہی پڑے
پرانے خول کو جب وہ بھی توڑ کر نکلا

فضا کشادہ نہیں قتل گاہ کی یہ کہاں
مرے لہو کا پرندہ اڑان پر نکلا

وہ آدمی کہ جو محمل تھا آفتابوں کا
بہ قدر یک دو کف خاک رہ گزر نکلا

یہ رات جس کے لیے میں نے جاگ کر کاٹی
ملا وہ شخص تو خوابوں کا ہم سفر نکلا

اڑھا دی چادر عصمت اسے خیالوں نے
ہر ایک لفظ زباں سے برہنہ سر نکلا

فضاؔ تم الجھے رہے فکر و فلسفے میں یہاں
بہ نام عشق وہاں قرعۂ ہنر نکلا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
چھاؤں کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا
حسرتوں کی آغوش میں پلتے ایک زمانہ بیت گیا

آج بھی ہیں وہ سلگے سلگے تیرے لب و عارض کی طرح
جن زخموں پر پنکھا جھلتے ایک زمانہ بیت گیا

میں اب اپنا جسم نہیں ہوں صرف تمہارا سایہ ہوں
موسم کی یہ برف پگھلتے ایک زمانہ بیت گیا

اب تک اپنے ہاتھ نہ آیا سرمئی چھاؤں کا دامن بھی
چاندی جیسی دھوپ میں جلتے ایک زمانہ بیت گیا

وقت مداری ہے کیا جانے کھیل اپنا کب ختم کرے
سانسوں کی اس ڈور پہ چلتے ایک زمانہ بیت گیا

زندگی اور لمحوں کا تعاقب جن کا کوئی اور نہ چھور
صدیوں صدیوں موڑ بدلتے ایک زمانہ بیت گیا

اب بھی تری محراب سخن میں شمعیں سی روشن ہیں فضاؔ
سورج کو یہ آگ اگلتے ایک زمانہ بیت گیا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
مدتوں کے بعد پھر کنج حرا روشن ہوا
کس کے لب پر دیکھنا حرف دعا روشن ہوا

روح کو آلائش غم سے کبھی خالی نہ رکھ
یعنی بے زنگار کس کا آئنا روشن ہوا

یہ تماشا دیدنی ٹھہرا مگر دیکھے گا کون
ہو گئے ہم راکھ تو دست دعا روشن ہوا

رات جنگل کا سفر سب ہم سفر بچھڑے ہوئے
دے نہ ہم کو یہ بشارت راستا روشن ہوا

خواہشوں خوابوں کا پیکر ہی سہی میرا وجود
اک ستارے کی حقیقت کیا بجھا روشن ہوا

بوئے گل پتوں میں چھپتی پھر رہی تھی دیر سے
نا گہاں شاخوں میں اک دست صبا روشن ہوا

اس قدر مضبوط موسم پر رہی کس کی گرفت
میں کہ مجھ سے سینۂ آب و ہوا روشن ہوا

اک ذرا اس سے بڑھی قربت تو آنکھیں کھل گئیں
اس کے میرے بیچ تھا جو فاصلا روشن ہوا

وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا

مجھ کو میری آگہی آنکھوں سے اوجھل کر گئی
اس نے جو کچھ لوح جاں پر لکھ دیا روشن ہوا

اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت
میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے
ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے

نجات یوں بھی بکھرنے کے کرب سے نہ ملی
ہوئے جو آئنہ سب کی نظر کی گرد ہوئے

یہ کن دکھوں نے چم و خم تمام چھین لیا
شعاع مہر سے ہم بھی شرر کی گرد ہوئے

سب اپنے اپنے افق پر چمک کے تھوڑی دیر
مجھے تو دامن شام و سحر کی گرد ہوئے

پکارو کہہ کے ہمیں چھاؤں جی نہ بہلے گا
بچے جو دھوپ سے پائے شجر کی گرد ہوئے

ہمیں بھی بولنا آتا ہے پھر بھی ہیں خاموش
کہ ہم ترے سخن مختصر کی گرد ہوئے

دھلا سا چہرہ بھی کچھ ماند پڑ گیا آخر
ہوئے نہ اشک تری چشم تر کی گرد ہوئے

شریر و تند ہوا تھی کہ رو معانی کی
تمام لفظ لب معتبر کی گرد ہوئے

یہ راہ کتنی پر آشوب ہے فضاؔ نہ کہو
قلم کی راہ چلے ہم ہنر کی گرد ہوئے
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا
قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا

ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا

مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے
کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا

ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا
ایک دو جست میں دیوار شجر سے اونچا

ایک بگڑی ہوئی تمثیل ہیں سارے چہرے
کوئی منظر نہیں معیار نظر سے اونچا

دھوپ اتری تو سمٹنا پڑا خود میں اس کو
ایک سایہ کہ جو تھا اپنے شجر سے اونچا

بلبلہ اٹھنے کو اٹھا تو مگر بیچارہ
رکھ سکا خود کو نہ دریا کے بھنور سے اونچا

کیسی پستی میں یہ دنیا نے بسایا ہے مجھے
نظر آتا ہے ہر اک گھر مرے گھر سے اونچا

وہ کہاں سے یہ تخیل کے افق لائے گا
آسماں اب بھی نہیں ہے مرے سر سے اونچا

خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا
 
Top