فرقہ واریت کے معاشرتی بگاڑ

عبقری ریڈر

محفلین
ایک گاؤں میں عیسائیوں کا ایک ہی گھر تھا۔ اس گھر کی ایک ادھیڑ عمر عورت کا وقت نزاع قریب آیا تو گاؤں کے ایک معزز اور دیندار بزرگ چند نمازیوں سمیت مسجد سے ہی انکی عیادت کے لئےتشریف لے گئے۔
(کیونکہ دیہاتوں میں اس چیز کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے) وہاں پہنچ کر اسکی حال خیر دریافت کرنے کے بعد کہا کہ بی بی: آپ نے اتنی عمر گزاری ہے، کیا آپ نہیں سمجھتیں کی اسلام ہی واحد مذہب برحق ہے جس میں دونوں جہانوں کی فلاح ہے۔
وہ بولی تمہارا مطلب ہے میں تمہارا کلمہ پڑھ لوں؟ بزرگ کہنے لگے جی ہاں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی آخرت سنور جائے اور اس لئے بھی کہ گاؤں میں آپکا ایک ہی گھر ہے
تو کلمہ پڑھ لیں اللہ پاک اسکی برکت سے پورے گاؤں پہ رحمت فرمایئں گے۔
وہ کہنے لگی: پڑھ لیتے ہیں کلمہ مگر ہمیں کس نبی کا کلمہ پڑھاؤ گے؟ نوری کا یا بشری کا؟
میں نے اپنی ہوش سے لیکر آج تک یہی دیکھا ہے
کہ تم لوگوں نے اپنے نبی کو اختلافات کا محور ہی بنائے رکھا ہے
نوری یا بشری کا اختلاف، زندہ یا فوت کا اختلاف، غیب جاننے یا نہ جاننے کا اختلاف۔ تم لوگ جب کسی ایک بات پہ متفق ہو کے آجاؤ تو پڑھ لونگی کلمہ۔
لیکن پھر ایک مسئلہ ہوگا، کلمہ پڑھنے کے بعد آدھا گاؤں کہے گا سنی،بریلوی ہو جا آدھا کہے گا دیوبندی اہلحدیث ہو جا، پھر میں کدھر جاؤں گی؟ تم لوگوں نے تو دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ اور جس کے پاس جتنا ٹکڑا آیا وہ پہلے تو اسے باپ دادا کا فرقہ، پھر انا کا مسئلہ بنا کر اتنے سے دین کی ہی پرستش کرتا چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خواتین و حضرات یہ تو تھے فرقہ واریت کے معاشرتی بگاڑ، اور آخرت میں خواری علیحدہ ہوگی۔
کیونکہ آج ہم اتنا دفاع اپنے مذہب کا نہیں کر رہے جتنا اپنے اپنے فرقے کا کر رہے ہیں۔
اللہ پاک سے ہمیشہ صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق مانگتے رہیئے۔وہ سننے والا ہے مہربان ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
متفق، آج کل اتنا دفاع مذہب کا نہیں ہوتا جتنا مسلک اور فرقے کا کیا جاتا ہے، اس میں شخصیات سے لگاؤ اور ان کا دفاع بھی شامل ہے۔ لوگ مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی انا کو قائم رکھنے کے لیے اپنے گناہ چھپانے کے لیے اور اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔ مذہب کے حقیقی مقصد سے اتنا ہی لگاؤ رکھتے ہیں جتنا دوسرے کلاس کا سکول کا بچہ سکول جانے سے۔۔۔!
 

جاسمن

لائبریرین
اگر هم کتاب اور سنت کو مضبوطی سی تهام لین تو یقینن ایک رهین.....لیکن هم تو کتاب اور سنت مین بهی اختلافات تلاش کرتی هین.....لگتا تو ایسا هی که یه همارا مشغله بن گیا هی.....
 
اگر هم کتاب اور سنت کو مضبوطی سی تهام لین تو یقینن ایک رهین.....لیکن هم تو کتاب اور سنت مین بهی اختلافات تلاش کرتی هین.....لگتا تو ایسا هی که یه همارا مشغله بن گیا هی.....
فرقہ واریت بالکل ختم نہیں کیا جا سکتی، اس کو کم سے کم کرنے کے طریقے ہیں. میری نظر میں واحد حل اسلامی سکالرلوگوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا سکھائیں
 

جاسمن

لائبریرین
ناصر بھائی۔ آپ نے درست کہا۔ لیکن اِسلامی سکالرز کے ساتھ ساتھ یہ ہم سب پڑھے لکھے لوگوں کا کام بھی ہے۔ آپ کسی بھی موضوع پہ بات کر رہے ہیں ،آپ کے دلائل جتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں،کسی کے دِل میں تب تک جگہ نہیں بنا سکتے جب تک اُن پر محبت کی خوشبو کا چھڑکاؤ نہ ہو۔ لہجہ کی سختی اور آواز کی بلندی سے قائل کرنا ۔۔۔عبث۔ لیکن معزرت کے ساتھ۔۔۔ ہم میں سے اکثریت کا رویہ ایسا ہی ہے اور اُس پرمستزاد ہم طنز، طعنہ،حقارت۔۔۔وغیرہ سے اپنی گفتگو کو مزید"خوبصورت" بناتے رہتے ہیں۔۔۔عِلم ہمیں اِنکساری سکھاتا ہے اور ہم اِسی سبق کو سب سے پہلے بھُلاتے ہیں۔۔۔کیا عِلم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں ناں۔۔۔ واقعی ۔۔ہمارے ان پڑھ بزرگ علم والے ہیں/تھے۔ اور ہمارے بعض ڈگریوں والے جاہل۔۔۔۔۔معاف کرنا ہم دُوسرے نمبر پر بھُلاتے ہیں۔۔۔کیا ہؤا اگر ذرا سی چشم پوشی، مُروّت اور اخلاق سے معمولات میں سُدھار آ سکتا ہے۔۔۔تھوڑی سی مُسکراہٹ۔۔۔تازہ ہواؤں کے کتنے ہی دریچے کھول سکتی ہے۔۔۔اور ناصر بھائی! ہمیں تازہ ہواؤں کی اشد ضرورت ہے۔۔کیا خیال ہے۔۔شمشاد،قیصرانی،سید شہزاد، محمد وارث بھائیان کا
 
Top