فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟

ابو ہاشم

محفلین
فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟ پڑھتے ہیں کہ فرض وہ ہے جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ مگر یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا مثالوں کے ذریعے کوئی صاحب ان کا فرق سمجھا سکتے ہیں؟
 
فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟ پڑھتے ہیں کہ فرض وہ ہے جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ مگر یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا مثالوں کے ذریعے کوئی صاحب ان کا فرق سمجھا سکتے ہیں؟
"فرض" اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی دلیل مثلًا: قرآن کریم کی کسی واضح آیت یا متواتر حدیث سے ثابت ہو، جب کہ "واجب" ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے، نیز فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا۔
فقط واللہ اعلم
فرض اور واجب میں عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں دونوں پر عمل کرنا یکساں طور پر ضروری ہے؛ البتہ ثبوت کے اعتبار سے دونوں میں کچھ فرق ہے اور وہ یہ کہ فرض کا ثبوت کسی ایسے نص سے ہوتا ہے جو دلالت و ثبوت دونوں لحاظ سے قطعی ہو اور واجب کا ثبوت کسی ایسے نص سے ہوتا ہے جو دلالت اور ثبوت میں سے صرف کسی ایک لحاظ سے قطعی ہو دوسرے لحاظ سے قطعی نہ ہو بلکہ ظنی ہو، فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے جبکہ واجب کا منکر فاسق و گمراہ ہوتا ہے کافر نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
وہ حکم جس کا لزوم ثبوتاً اور دلالتا ًقطعی ہو اور اس کا انکار کفر اور ترک موجب عذاب ہو خواہ یہ عادتاً ہو یا نادراً اس کو فرض کا نام دیا جاتا ہے
جب کہ وہ حکم جس کا لزوم ثبوتاً اور دلالتا ًظنی ہو ، انکار کفر نہ ہو اور ترک موجبِ عذاب ہو خواہ عادتاً یا نادرا ًاسے واجب کا نام دیتے ہیں
( حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی کا علمی نظم ، صفحہ 21 )
 
فرض کی دو قسمیں ہیں۔
(۱) فرض اعتقادی (۲) اور فرض عملی
فرض اعتقادی وہ حکم شرعی جو دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی ایسی دلیل سے جس میںکوئی شبہ نہ ہو۔ اس کا انکار کرنے والا ائمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اس کی فرضیت دین اسلام کا عام و خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفرپر اجماع قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔ بہرحال جو کسی فرض اعتقادی کو بلا عذر صحیح شرعی ایک بار بھی چھوڑے وہ فاسق ، گناہ کبیرہ کا مرتکب اور عذاب جہنم کا مستحق ہے۔ جیسے نماز، رکوع، سجود۔
فرض عملی وہ حکم شرعی ہے جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو، مگر نظر مجتہد میں دلائل شرعیہ کے بموجب یقین ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم (معدوم) ہوگی، اس کا بے وجہ انکار فسق و گمراہی ہے ۔ ہاں اگر کوئی مجتہددلیل شرعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے ۔ جیسے ائمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں۔ اور دوسرے نہیں مثلاً حنفیہ کے نزدیک ایک چوتھائی سر کا مسح وضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ۔ مگر اس فرض عملی میں ہر شخص اسی امام کی پیروی کرے جس کا مقلد ہے اپنے امام کے خلاف بلاضرورت شرعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔
فرض عملی کی دو قسمیں ہیں۔
(۱)فرض عین (۲) فرض کفایہ
فرض عین وہ فرض ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل بالغ پر ضروری ہو جیسے نماز پنجگانہ ۔ اور فرض کفایہ اس فرض کو کہتے ہیں جس کو دو ایک مسلمان ادا کرلیں۔ توسب مسلمانوں کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا اور ایک آدمی بھی ادا نہ کرے تو سب گنہگار ہوں جیسے غسل میت اور نماز جنازہ۔

فرض کی طرح واجب بھی دو قسم پر ہے۔
(۱) واجب اعتقادی (۲) واجب عملی
واجب اعتقادی وہ شرعی حکم ہے جس کی ضرورت دلیل ظنی سے ثابت ہو۔ فرض عملی اور واجب عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور واجب عملی وہ حکم شرعی (یا واجب اعتقادی) کہ بے اس کے کئے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہے مگر غالب گمان اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجالانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قصداً چھوڑنا گناہِ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا گناہِ کبیرہ۔
لنک
 

الف نظامی

لائبریرین
کچھ مثالیں بھی دے دیں
اس کی تفصیل کے لیے کتاب الحکم الشرعی صفحہ 93 تا 128 دیکھیے

فرض کی اصطلاحی تعریف:
شریعت میں جو حکم ایسی دلیل قطعی سے ثابت ہو جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو فرض کہلاتا ہے
(امام شافعی)
فرائض شریعت میں مقرر ہیں جو کمی بیشی کا احتمال نہیں رکھتے یعنی قطعی ہوتے ہیں اور ایسے دلیل سے ثابت ہوتے ہیں جس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی جیسے ایمان ، نماز ، زکوۃ اور حج وغیرہ ۔ ان کو فرض کا نام دیا جاتا ہے
(امام بزدوی)
اگر طلب جازم (پختہ طلب) قطعی دلیل سے ثابت ہو تو حکم فرض ہوگا۔
(امام محب اللہ بہاری)
فرض وہ ہے جو ایسی دلیلِ قطعی سے ثابت ہو ، جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو
(امام علی بن محمد علی الجرجانی)
شریعت نے جس فعل کے کرنے کا ایسی دلیل قطعی کے ساتھ لازمی مطالبہ کیا ہو جس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو ، اسے فرض کہتے ہیں
(علامہ وہبہ زحیلی)

فرض کی مثالیں:
98.gif

99.gif


100.gif
101.gif
102.gif
103.gif
104.gif
105.gif
106.gif
107.gif
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
:AOA:
:a3:
محمد عدنان صاحب
آپکی ایمان افروز تحریر علم میں اضافہ کا باعث ہوئُ
سلامتُ رہیے اللہ اپنی حفاظت میں رکھے آمین
 

بافقیہ

محفلین
فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟ پڑھتے ہیں کہ فرض وہ ہے جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ مگر یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا مثالوں کے ذریعے کوئی صاحب ان کا فرق سمجھا سکتے ہیں؟
جناب ابو ہاشم صاحب! آپ کا سوال دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اور آپ کو مختصراً یہ بتاتا چلوں کہ فرض اور واجب
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ جمہور کے نزدیک مترادف الفاظ ہیں۔
البتہ حنفیہ کے ہاں اس میں ذرا سا فرق ہے ۔ اور یہ فرق فنی ہے۔
معافی اور معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ فنی بحث کو سمجھنے کیلئے اصول فن کے بارے میں معلومات ہونا ضروری ہیں۔ اور یہ اصول کسی آسان مضامین سے سمجھنا دشوار ہوتا ہے۔ جیسے کہ آپ کو ایم ایس سی آخری سال کا حساب سمجھنے کیلئے کافی ضروری اور موٹی چیزیں پہلے جان لینا ضروری ہیں۔ بغیر اس کو سمجھے ایم ایس سی کا یہ حساب سمجھ میں آنا دشوار ہے۔ اسی طرح تفسیر، حدیث اور فقہ کے اصول کے بغیر ایسے مسائل سمجھنا دشوار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصول میں ہر عام عالم بھی دلچسپی نہیں لے سکتا۔ کیوں کہ

محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
 

شکیب

محفلین
فرض وہ ہے جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔
آپ شاید قطعی اور ظنی کا مفہوم جاننا چاہ رہے ہیں۔

آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ دلیل قطعی وہ ہے جس کے معنی ظاہر ہوں، بغیر زیادہ غور و فکر کیے سمجھ میں آ رہے ہوں اور دوسرے کوئی معنی کا احتمال نہ ہو۔
مثلاً آیت "تمہاری مائیں تم پر حرام کر دی گئیں"۔ اس کے معنی میں کوئی الجھن اور دوسری رائے کا احتمال نہیں۔ بالکل دو ٹوک بات ہے۔

دلیلِ ظنی وہ ہے جس میں اجمال ہوتا ہے، اس کی تشریح ہوتی ہے اور ایک سے زیادہ مطالب نکالے جا سکتے ہیں۔
مثلاً { وَامْسَحُوْا بِرُء ُوْسِکُمْ } یعنی اور مسح کرلیا کرو اپنے سر کا (سورۃ المائدۃ:6) عربی زبان کے قاعدہ کے مطابق کبھی ’’ب‘‘ زائد ہوتی ہے، اور کبھی بعض کے معنی میں، یہاں اگر ’’ب‘‘ زائد ہو تو معنی یہ ہوگا کہ ’’پورے سر کا مسح کرو‘‘ اور اگر بعض کے معنی میں ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ ’’سر کے کچھ حصہ کا مسح کرو‘‘۔

واضح رہے کہ صرف دلالت indication نہیں بلکہ ثبوت بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس حساب سے دلیل کے چار درجے معروف ہیں۔ یہاں پڑھیں۔
 
آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ دلیل قطعی وہ ہے جس کے معنی ظاہر ہوں، بغیر زیادہ غور و فکر کیے سمجھ میں آ رہے ہوں اور دوسرے کوئی معنی کا احتمال نہ ہو۔
اس تعریف میں دلالت کا پہلو تو آگیا لیکن ثبوت کا پہلو رہ گیا۔ اسی میں اضافہ کرکے اسے جامع بنایا جاسکتا ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
اس کی تفصیل کے لیے کتاب الحکم الشرعی صفحہ 93 تا 128 دیکھیے

فرض کی اصطلاحی تعریف:
شریعت میں جو حکم ایسی دلیل قطعی سے ثابت ہو جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو فرض کہلاتا ہے
(امام شافعی)
فرائض شریعت میں مقرر ہیں جو کمی بیشی کا احتمال نہیں رکھتے یعنی قطعی ہوتے ہیں اور ایسے دلیل سے ثابت ہوتے ہیں جس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی جیسے ایمان ، نماز ، زکوۃ اور حج وغیرہ ۔ ان کو فرض کا نام دیا جاتا ہے
(امام بزدوی)
اگر طلب جازم (پختہ طلب) قطعی دلیل سے ثابت ہو تو حکم فرض ہوگا۔
(امام محب اللہ بہاری)
فرض وہ ہے جو ایسی دلیلِ قطعی سے ثابت ہو ، جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو
(امام علی بن محمد علی الجرجانی)
شریعت نے جس فعل کے کرنے کا ایسی دلیل قطعی کے ساتھ لازمی مطالبہ کیا ہو جس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو ، اسے فرض کہتے ہیں
(علامہ وہبہ زحیلی)

فرض کی مثالیں:
98.gif

99.gif


100.gif
101.gif
102.gif
103.gif
104.gif
105.gif
106.gif
107.gif
اس سے یہ پتا چلا کہ فرض صرف قرآن سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اور واجب
1) اگر کوئی حکم فرض کے الفاظ کے ساتھ حدیث میں آیا ہو لیکن اس کی صحت یا سند اس درجے کی نہ ہو جو فرض قرار دینے کے لیے درکار ہوتی ہے تو اسے واجب قرار
دیا جاتا ہے جیسے صدقۂ فطر
2)۔ اگر کوئی عمل حضورِ اکرم سے مسلسل کیا جانا ثابت ہو کبھی ترک نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی واجب ہوتا ہے جیسے عیدین کی نماز
3)۔ اگر حدیث میں کسی عمل کی پختہ طلب ہو اور اس کے ترک پر وعید ہو تو وہ بھی واجب ہوتا ہے جیسے وتر کی نماز

ان تمام مثالوں میں ظن تو کہیں بھی نہیں

اور
کسی واجب کی قرآن سے مثال بیان نہیں کی گئی

آپ شاید قطعی اور ظنی کا مفہوم جاننا چاہ رہے ہیں۔
جی بالکل

اور یہ بھی کہ کیا فرض صرف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو کہا جاتا ہے یا رسولِ اکرم ص کے حکم کو بھی فرض کہا جاتا ہے۔ اور کیا آخرت میں صرف اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی باز پرس ہوگی؟

اور دلیلِ ظنی کی قرآن سے مثالیں بھی سمجھنا چاہتا ہوں
 
Top