فرشتے کا دشمن : پہلا صفحہ 100-101

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


11kfbiu.jpg




 

شکاری

محفلین
فرشتے کا دشمن صفحہ ایک 101-100

میاں توقیر محمد جھریام خوش شکل جامہ زیب اور صحت مند آدمی تھے۔! عمر تیس اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ ضلع احمد پر کے بڑے رؤساء میں شمار ہوتا تھا۔۔۔۔ لیکن تنہاتھےقصبہ جھریام کی سب سے بڑی قلعہ نما عمارت میں بالکل تنہا۔۔۔۔گو ملازمین کی بہتات تھی۔لیکن وہ تنہائی جو خون کے رشتوں‌ سے یاذہنی لگاؤ سے رفع ہوتی ہے بدستور برقرار رہتی تھی۔
بھری پُری حویلی چند میں کے اندر اندر ویران ہوگئی تھی۔۔۔۔سارے افراد کسی پُراسرار وبا کے شکار ہوئےتھے۔ عجیب وباءتھی کہ صرف میاں صاحب کے افراد و خاندان کو چٹ کرگئی تھی۔ نہ تو کوئی ملازم اس کی لپیٹ میں آیا تھا اور نہ قصبے ہی کا کوئی فرد۔
شائد میاں توقیر محمد اس لیے محفوظ رہے تھے کہ ان دنوں ان کا قیام حویلی میں نہیں تھا!ملک ہی میں نہیں تھے! یو کے میں مقیم تھے۔!
ادھر جھریام کے باشندے اسے خدا کا قہر سمجھتے تھے جو بالآخر اس خاندان پر نازل ہی ہوگیا تھا۔۔۔۔اتنے ظالم لوگ تھے اس حویلی کے مکین کہ ان کے مظالم کی داستان بھی صرف سرگوشیوں میں بیان کی جاتی تھی۔ قصبے میں کون تھا جو ان کے آگے سر اٹھا سکتا۔! حویلی کے مکین قصبے کے بقیہ آبادی کو اپنی رعایا سمجھتے تھے۔
وہ مالک تھے اس قصبے کے!علاقے کا تھانے دار بھی ان سے آنکھیں ملا کر گفتگونہیں کرسکتا تھا۔! لیکن میاں توقیر محمد ابتدا ہی سے نیک دل اور خدا ترس تھے۔شائد اسی لیے ہوش سنبھالنے کے بعد سے جھریام میں کبھی نہیں ٹکے تھے۔!احمد پور شہر میں رہ کر میڑک تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر بیرون ملک نکل بھاگے تھے۔ بقیہ تعلیم یو۔کے میں رہ کر مکمل کی تھی۔ اور ابھی وہیں مقیم تھے کہ حویلی پر وہ بلا نازل ہوئی۔ پھر انہیں وطن واپس آنا پڑا تھا۔!
وہ اب بھی پہلے جیسے نرم دل اور نیک طبیعت تھے۔ تعلیم نے وسیع النظری بھی عطا کردی تھی اور وہ قصبے کے دوسرے افراد کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔اگر کسی کو ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تو انہیں دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح تیار پاتا۔ قصبے والوں کا خیال تھا کہ شیاطین کے درمیان ایک فرشتہ اتارا گیا اور شیاطین اٹھالئے گئے۔
میاں توقیر محمد صورت سے بھی معصوم لگتے تھے۔! آنکھوں میں بلا کی نرمی تھی۔ اور لہجے میں اتنی مٹھاس تھی کہ بس وہ بولتے رہیں اور سننے والے سنتے رہیں۔!
موجودہ حکمرانوں میں بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکمران پارٹی کے ایک سرگرم کارکن بھی تھے۔ اور اپنے ضلع کی شاخ میں چیئرمین کا عہدہ رکھتے تھے۔ اور صحیح معنوں میں انہی پر عوام کا خادم ہونا صادق آتا تھا۔ حویلی کی رہائش ترک کردی تھی! تین کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک ملازم کے ساتھ قیام پذیر تھے۔!
انہیں اعتراف تھا کہ ان کے اجداد اچھے لوگ نہیں تھے۔ اسی لئےشادی نہیں کی تھی کہ اس نسل کو اپنی ہی ذات پر ختم کردینا چاہتے تھے۔۔۔۔کھل کر کہتے تھے ہوسکتا ہے ان کی اولاد اجداد ہی کے سی ظالمانہ رجحانات لے کر پیدا ہو۔ لہذا خطرہ مول لینے سے کیا فائدہ۔
کچھ ایسے بھی تھے کہ خاندان میں پے درپے اموات کے صدمے سے میاں صاحب صحیح الدماغ نہیں رہ گئے۔ ورنہ سانپ کے بچے سانپ ہی ہوتے ہیں۔
جذبہ خدمتِ خلق کا یہ عالم تھا کہ بارشوں میں بھیگتے پھرتے تھے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ قصبے کے کسی مکان کو بارش سے نقصان تو نہیں پہنچا۔ کسی کو ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں‌۔ ان کے مزار عین گویا ملک کے خوش قسمت ترین مزار عین میں‌ سے تھے۔ ان کی حالت سدھر گئی تھی سبھی خوشحال ہوگئے تھے۔ میاں صاحب نے پشت ہا پشت سے چلے آنے والے سارے قرضے معاف کردیئے تھے۔ اپنے کارندوں کو سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ ان کی زمین پر بسنے والوں سے بے گار نہ لی جائے۔۔۔۔اجرتیں فوراً اداکی جائیں۔۔۔۔!“
بہرحال وہ بھی خوش تھے۔ اور قصبے والے بھی کہ اچانک قصبہ جھریام میں سوشیالوجی کی طالبات کا ایک گروپ فیلڈ ورک کے لئےوارد ہوا جس کی میزبانی کے فرائض میاں صاحب ہی کو
 

ابو کاشان

محفلین
ٹائپنگ : شکاری مکمل
پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل


فرشتے کا دشمن صفحہ ایک 101-100

میاں توقیر محمد جھریام خوش شکل جامہ زیب اور صحت مند آدمی تھے۔! عمر تیس اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ ضلع احمد پر کے بڑے رؤساء میں شمار ہوتا تھا۔۔۔۔ لیکن تنہاتھےقصبہ جھریام کی سب سے بڑی قلعہ نما عمارت میں بالکل تنہا۔۔۔۔گو ملازمین کی بہتات تھی۔لیکن وہ تنہائی جو خون کے رشتوں‌ سے یاذہنی لگاؤ سے رفع ہوتی ہے بدستور برقرار رہتی تھی۔
بھری پُری حویلی چند میں کے اندر اندر ویران ہوگئی تھی۔۔۔۔سارے افراد کسی پُراسرار وبا کے شکار ہوئےتھے۔ عجیب وباءتھی کہ صرف میاں صاحب کے افراد و خاندان کو چٹ کرگئی تھی۔ نہ تو کوئی ملازم اس کی لپیٹ میں آیا تھا اور نہ قصبے ہی کا کوئی فرد۔
شائد میاں توقیر محمد اس لیے محفوظ رہے تھے کہ ان دنوں ان کا قیام حویلی میں نہیں تھا!ملک ہی میں نہیں تھے! یو کے میں مقیم تھے۔!
ادھر جھریام کے باشندے اسے خدا کا قہر سمجھتے تھے جو بالآخر اس خاندان پر نازل ہی ہوگیا تھا۔۔۔۔اتنے ظالم لوگ تھے اس حویلی کے مکین کہ ان کے مظالم کی داستان بھی صرف سرگوشیوں میں بیان کی جاتی تھی۔ قصبے میں کون تھا جو ان کے آگے سر اٹھا سکتا۔! حویلی کے مکین قصبے کے بقیہ آبادی کو اپنی رعایا سمجھتے تھے۔
وہ مالک تھے اس قصبے کے!علاقے کا تھانے دار بھی ان سے آنکھیں ملا کر گفتگونہیں کرسکتا تھا۔! لیکن میاں توقیر محمد ابتدا ہی سے نیک دل اور خدا ترس تھے۔شائد اسی لیے ہوش سنبھالنے کے بعد سے جھریام میں کبھی نہیں ٹکے تھے۔!احمد پور شہر میں رہ کر میڑک تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر بیرون ملک نکل بھاگے تھے۔ بقیہ تعلیم یو۔کے میں رہ کر مکمل کی تھی۔ اور ابھی وہیں مقیم تھے کہ حویلی پر وہ بلا نازل ہوئی۔ پھر انہیں وطن واپس آنا پڑا تھا۔!
وہ اب بھی پہلے جیسے نرم دل اور نیک طبیعت تھے۔ تعلیم نے وسیع النظری بھی عطا کردی تھی اور وہ قصبے کے دوسرے افراد کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔اگر کسی کو ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تو انہیں دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح تیار پاتا۔ قصبے والوں کا خیال تھا کہ شیاطین کے درمیان ایک فرشتہ اتارا گیا اور شیاطین اٹھالئے گئے۔
میاں توقیر محمد صورت سے بھی معصوم لگتے تھے۔! آنکھوں میں بلا کی نرمی تھی۔ اور لہجے میں اتنی مٹھاس تھی کہ بس وہ بولتے رہیں اور سننے والے سنتے رہیں۔!
موجودہ حکمرانوں میں بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکمران پارٹی کے ایک سرگرم کارکن بھی تھے۔ اور اپنے ضلع کی شاخ میں چیئرمین کا عہدہ رکھتے تھے۔ اور صحیح معنوں میں انہی پر عوام کا خادم ہونا صادق آتا تھا۔ حویلی کی رہائش ترک کردی تھی! تین کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک ملازم کے ساتھ قیام پذیر تھے۔!
انہیں اعتراف تھا کہ ان کے اجداد اچھے لوگ نہیں تھے۔ اسی لئےشادی نہیں کی تھی کہ اس نسل کو اپنی ہی ذات پر ختم کردینا چاہتے تھے۔۔۔۔کھل کر کہتے تھے ہوسکتا ہے ان کی اولاد اجداد ہی کے سی ظالمانہ رجحانات لے کر پیدا ہو۔ لہذا خطرہ مول لینے سے کیا فائدہ۔
کچھ ایسے بھی تھے کہ خاندان میں پے درپے اموات کے صدمے سے میاں صاحب صحیح الدماغ نہیں رہ گئے۔ ورنہ سانپ کے بچے سانپ ہی ہوتے ہیں۔
جذبہ خدمتِ خلق کا یہ عالم تھا کہ بارشوں میں بھیگتے پھرتے تھے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ قصبے کے کسی مکان کو بارش سے نقصان تو نہیں پہنچا۔ کسی کو ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں‌۔ ان کے مزار عین گویا ملک کے خوش قسمت ترین مزار عین میں‌ سے تھے۔ ان کی حالت سدھر گئی تھی سبھی خوشحال ہوگئے تھے۔ میاں صاحب نے پشت ہا پشت سے چلے آنے والے سارے قرضے معاف کردیئے تھے۔ اپنے کارندوں کو سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ ان کی زمین پر بسنے والوں سے بے گار نہ لی جائے۔۔۔۔اجرتیں فوراً اداکی جائیں۔۔۔۔!“
بہرحال وہ بھی خوش تھے۔ اور قصبے والے بھی کہ اچانک قصبہ جھریام میں سوشیالوجی کی طالبات کا ایک گروپ فیلڈ ورک کے لئےوارد ہوا جس کی میزبانی کے فرائض میاں صاحب ہی کو

میاں توقیر محمد جھریام خوش شکل جامہ زیب اور صحت مند آدمی تھے۔! عمر تیس اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ ضلع احمد پور کے بڑے رؤساء میں شمار ہوتا تھا۔۔۔۔ لیکن تنہا تھےقصبہ جھریام کی سب سے بڑی قلعہ نما عمارت میں بالکل تنہا۔۔۔۔گو ملازمین کی بہتات تھی۔ لیکن وہ تنہائی جو خون کے رشتوں‌ سے یا ذہنی لگاؤ سے رفع ہوتی ہے بدستور برقرار رہتی تھی۔
بھری پُری حویلی چند ماہ کے اندر اندر ویران ہوگئی تھی۔۔۔۔ سارے افراد کسی پُراسرار وبا کے شکار ہوئے تھے۔ عجیب وباء تھی کہ صرف میاں صاحب کے افراد و خاندان کو چٹ کرگئی تھی۔ نہ تو کوئی ملازم اس کی لپیٹ میں آیا تھا اور نہ قصبے ہی کا کوئی فرد۔
شائد میاں توقیر محمد اس لیے محفوظ رہے تھے کہ ان دنوں ان کا قیام حویلی میں نہیں تھا! ملک ہی میں نہیں تھے! یو کے میں مقیم تھے۔!
ادھر جھریام کے باشندے اسے خدا کا قہر سمجھتے تھے جو بالآخر اس خاندان پر نازل ہی ہوگیا تھا۔۔۔۔اتنے ظالم لوگ تھے اس حویلی کے مکین کہ ان کے مظالم کی داستان بھی صرف سرگوشیوں میں بیان کی جاتی تھی۔ قصبے میں کون تھا جو ان کے آگے سر اٹھا سکتا۔! حویلی کے مکین قصبے کے بقیہ آبادی کو اپنی رعایا سمجھتے تھے۔
وہ مالک تھے اس قصبے کے! علاقے کا تھانے دار بھی ان سے آنکھیں ملا کر گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔! لیکن میاں توقیر محمد ابتدا ہی سے نیک دل اور خدا ترس تھے۔ شائد اسی لیے ہوش سنبھالنے کے بعد سے جھریام میں کبھی نہیں ٹکے تھے۔! احمد پور شہر میں رہ کر میڑک تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر بیرون ملک نکل بھاگے تھے۔ بقیہ تعلیم یو۔کے میں رہ کر مکمل کی تھی۔ اور ابھی وہیں مقیم تھے کہ حویلی پر وہ بلا نازل ہوئی۔ پھر انہیں وطن واپس آنا پڑا تھا۔!
وہ اب بھی پہلے جیسے نرم دل اور نیک طبیعت تھے۔ تعلیم نے وسیع النظری بھی عطا کردی تھی اور وہ قصبے کے دوسرے افراد کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔ اگر کسی کو ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تو انہیں دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح تیار پاتا۔ قصبے والوں کا خیال تھا کہ شیاطین کے درمیان ایک فرشتہ اتارا گیا اور شیاطین اٹھا لئے گئے۔
میاں توقیر محمد صورت سے بھی معصوم لگتے تھے۔! آنکھوں میں بلا کی نرمی تھی۔ اور لہجے میں اتنی مٹھاس تھی کہ بس وہ بولتے رہیں اور سننے والے سنتے رہیں۔!
موجودہ حکمرانوں میں بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکمران پارٹی کے ایک سرگرم کارکن بھی تھے۔ اور اپنے ضلع کی شاخ میں چیئرمین کا عہدہ رکھتے تھے۔ اور صحیح معنوں میں انہی پر عوام کا خادم ہونا صادق آتا تھا۔ حویلی کی رہائش ترک کردی تھی! تین کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک ملازم کے ساتھ قیام پذیر تھے۔!
انہیں اعتراف تھا کہ ان کے اجداد اچھے لوگ نہیں تھے۔ اسی لئےشادی نہیں کی تھی کہ اس نسل کو اپنی ہی ذات پر ختم کردینا چاہتے تھے۔۔۔۔ کھل کر کہتے تھے ہوسکتا ہے ان کی اولاد اجداد ہی کے سی ظالمانہ رجحانات لے کر پیدا ہو۔ لہذا خطرہ مول لینے سے کیا فائدہ۔
کچھ ایسے بھی تھے کہ خاندان میں پے در پے اموات کے صدمے سے میاں صاحب صحیح الدماغ نہیں رہ گئے۔ ورنہ سانپ کے بچے سانپ ہی ہوتے ہیں۔
جذبہ خدمتِ خلق کا یہ عالم تھا کہ بارشوں میں بھیگتے پھرتے تھے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ قصبے کے کسی مکان کو بارش سے نقصان تو نہیں پہنچا۔ کسی کو ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں‌۔ ان کے مزار عین گویا ملک کے خوش قسمت ترین مزار عین میں‌ سے تھے۔ ان کی حالت سدھر گئی تھی سبھی خوشحال ہوگئے تھے۔ میاں صاحب نے پشت ہا پشت سے چلے آنے والے سارے قرضے معاف کردیئے تھے۔ اپنے کارندوں کو سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ ان کی زمین پر بسنے والوں سے بے گار نہ لی جائے۔۔۔۔ اجرتیں فوراً اداکی جائیں۔۔۔۔!“
بہرحال وہ بھی خوش تھے۔ اور قصبے والے بھی کہ اچانک قصبہ جھریام میں سوشیالوجی کی طالبات کا ایک گروپ فیلڈ ورک کے لئے وارد ہوا جس کی میزبانی کے فرائض میاں صاحب ہی کو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top