فجر کی فرض رکعات کی تعداد کتنی ہے؟

آصف

محفلین
اردو زبان کے فروغ کا فورم ہے۔ مذہبی معاملات کا زمرہ ایک ضمنی چیز ہے اس لئے یہاں شعراء کی کثرت ہے اور علماء کی قلت
میں نے یہ مراسلہ جہاں پوسٹ کیا ہے اس موضوع کا عنوان ہے ’’ اسلام اور عصر حاضر‘‘
اور اس میں تقریباً 36 صفحات پر 750 کے قریب مراسلے پوسٹ ہو چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ایکٹو کتنے رہ گئے ہیں۔
کیا میرا ہی مراسلہ اتنا بھاری ہے کہ وہ یہاں سے غائب ہو جانا چاہئے۔
آپ عصر حاضر میں بھی آپ اسلام کے بارے میں کسی کا سوال برداشت نہیں کر سکتے ؟؟؟؟ یا صرف چپ کروانا اور دوسری ویب سائٹ کا راستہ دکھانا ہی عصر حاضر کا تقاضہ ہے؟؟
 

آصف

محفلین
ہوسکے تو ثبوت کے طور پر کوئی اسنیپ شاٹ بھی پیش کردیں
آپ کو ثبوت دینے کے چکر میں میں ثابت ہی غائب نہیں ہو نا چاہتا جناب۔

میرا خیال ہے اب اس پوسٹ سے اور اس محفل سے اس موضوع پر کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
مفتیوں کے ہتھے ہی چڑھانے پر تلے ہیں سب۔
آپ سب لوگ غلط نہیں ہو سکتے۔ میں نے ہی ’’انتہائی پیچدہ مذہبی معاملہ‘‘ ایک شعراء کی محفل میں چھیڑ لیا ہے جس پر میں معذرت چاہتا ہوں اور اگر کسی نے مجھے مزید نہ چھیڑا تو کوشش کروں گا کہ آئندہ ’’شعراء حضرات ‘‘کی محفل میں کوئی ’’سوال‘‘ نہ کروں۔
 
یار مسئلہ یہ ہے کہ لوگ فجر کی نماز ہی نہیں پڑھتے۔ عصر حاضر کا یہ مسئلہ ہے
پہلے جب ہم تھماری عمر کے تھے تو گلی گلی شور مچاتے ہوئے مسجد جاتے تھے کہ اٹھ جاو نماز پڑھ لو۔
اپس کی بات ہے ۔ رکعتیں جتنی پڑھو۔ پہلے پڑھنے کے نیت تو کرلو۔ سجدہ تو اللہ کو کرنا ہے وہی راہ دکھاوے گا۔
 

تجمل حسین

محفلین
آپ عصر حاضر میں بھی آپ اسلام کے بارے میں کسی کا سوال برداشت نہیں کر سکتے ؟؟؟؟ یا صرف چپ کروانا اور دوسری ویب سائٹ کا راستہ دکھانا ہی عصر حاضر کا تقاضہ ہے؟؟
محترم آخر آپ اردو محفل میں ہی ایسے سوال کا جواب کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ آپ کو دیگر روابط فراہم کردیئے گئے ہیں۔ آپ وہاں پر آسانی سے اپنے سوال کا جواب حاصل کرسکتے ہیں تو پھر یہیں پر جواب کے لیے کیوں بضد ہیں؟؟
 

الشفاء

لائبریرین
سچی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی کنفیوژن میری دور ہوئی ہے اس سوال سے اور بہت سوں کی کنفیوژن کو دور کرنے کے لئے ہیں یہ سوال پوسٹ کیا ہے۔ اگر کوئی بہن یا بھائی نیتوں پر شک کئے بغیر اس کو پورا ہونے دے تو
میرے بھائی ۔۔۔ ہم آپ کے حسن نیت کا اعتبار کرتے ہیں۔۔۔ لیکن وحدت امت کی خاطر جہاں تک ممکن ہو اختلافی مسائل کو انٹرنیٹ پر نہ پھیلائیں کہ اس سے نفع کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔۔۔

اب سب سے پہلے تو آپ ُاس روایت کو مکمل متن و حوالہ کے ساتھ یہاں پوسٹ کریں جس سے آپ کنفیوز ہیں۔(کہ ابھی تک معلوم ہی نہیں کہ آپ کس روایت کی بات کر رہے ہیں)۔۔۔ اور جب تک آپ کی کنفیوژن دور نہیں ہوتی آپ اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق سبیل المؤمنین یعنی مؤمنوں کے راستے کا اتباع فرمائیں۔ اور مؤمنوں کا طریقہ فجر کے دو رکعت فرض پڑھنے کا ہی ہے۔۔۔

وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً ۔۔۔سورۃ النساء آیت 115۔


اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ پر چلے تو ہم اسے اُسی گمراہی کی طرف پھیرے رکھیں گے کہ جدھر وہ خود ہی پھر گیا ہے۔ اور اسے جہنم میں ڈالیں گے ، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔۔۔ سورۃ النساء آیت 115۔
 

آصف

محفلین
اب سب سے پہلے تو آپ ُاس روایت کو مکمل متن و حوالہ کے ساتھ یہاں پوسٹ کریں جس سے آپ کنفیوز ہیں

یہ لیں جی آپ کی کنفیوژن بھی دور کئے دیتے ہیں ۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1166 حدیث متواتر حدیث متفق علیہ
مسدد یزید بن زریع معمر زہری عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ نماز دو دو رکعت فرض ہوئی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو چار چار رکعت فرض ہوگئی اور سفر کی نماز پہلی حالت پر باقی رکھی گئی ہے عبدالرزاق نے معمر سے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1166 حدیث متواتر حدیث متفق علیہ
مسدد یزید بن زریع معمر زہری عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ نماز دو دو رکعت فرض ہوئی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو چار چار رکعت فرض ہوگئی اور سفر کی نماز پہلی حالت پر باقی رکھی گئی ہے عبدالرزاق نے معمر سے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے۔

حدیث فراہم کرنے کا شکریہ۔۔۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب "نماز قصر کے بیان" میں درج فرمائی ہے۔۔۔

یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہو گی کہ ایک ہی حدیث مختلف صحابہ کرام سے الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ مختلف اوقات میں روایت کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی صحابی نے ایک جگہ ضرورت کے حساب سے ایک ہی جملہ بیان کیا اور کسی جگہ مکمل حدیث بیان کر دی گئی۔ اسی طرح ایک محدث نے اپنی کتاب میں کتاب کے باب کے حساب سے ایک روایت کو ترجیح دی تو دوسری جگہ اُسی حدیث کی دوسری روایت کو۔۔۔

اب آتے ہیں آپ کی کوٹ کردہ اوپر والی حدیث کی طرف۔۔۔ صحیح بخاری اور مسلم میں اس مفہوم کی ایک حدیث یوں بھی بیان کی گئی ہے۔۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ" فرض الله الصلوة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر فاقرت صلوة السفر وزيد في الصلوة الحضر"

اللہ نے جب نماز فرض کی تو سفر اور حضر( گھر اور حالت اقامت) میں دو دو رکعتیں فرض کیں پھر سفر کی نماز تو اس پر قائم رہی اور حضر( گھر اور حالت اقامت) والی نمازمیں اضافہ کردیاگیا۔(صحیح بخاری : 350 وصحیح مسلم :1570/655)

کوئی استاد محترم یہ بتا سکتے ہیں کہ (پہلے سوال میں) فجر کی رکعات 2 کیوں ہیں۔ کسی مستند روایت سے سمجھایا جائے۔
اگر کسی کی نظر میں بخاری کی یہ روایت قابل قبول نہیں تو بھی فجر کی رکعات کے متعلق مستند روایت درکار ہے۔
(مغرب اور جمعہ اس سوال میں شامل نہیں)

اب آتے ہیں آپ کے پوچھے گئے اصل سوال یعنی فجر کی دو رکعتوں کے حوالے سے مستند روایت کی طرف۔۔۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی نقل فرماتے ہیں کہ۔۔۔

کان أول ما افترض علی رسول اللہ ﷺ الصلوٰۃ رکعتان رکعتان إلا المغرب فإنھا کانت ثلاثاً، ثم أتم اللہ الظھر و العصر و العشاء الآخرۃ أربعاً فی الحضر و أقر الصلوٰۃ علی فرضھا الأول فی السفر“
رسول اللہ ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے وہ تین رکعات فرض تھی۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز چار (چار) کردی اور سفر والی نماز اپنی حالت پر (دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی۔ (مسند الامام احمد ج ۶ ص ۲۷۲ ح ۲۶۸۶۹ دوسرا نسخہ : ۲۶۳۳۸ و سندہ حسن لذاتہ )

صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ :
“فرضت صلوٰۃ السفر و الحضر رکعتین فلما أقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ زید فی صلوٰۃ الحضر رکعتان رکعتان
و ترکت صلوٰۃ الفجر لطول القرأۃ و صلوٰۃ المغرب لأنھا وتر النھار“

سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیا گیا اور صبح کی نماز میں طولِ قرأت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کہ وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔ (صحیح ابن حبان ۱۸۰/۴ ح ۲۷۲۷ دوسرا نسخہ: ۲۷۳۸ و صحیح ابن خزیمہ ۷۱/۲ح ۹۴۴ و سندہ حسن)

امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔۔۔
وما علینا الالبلاغ۔۔۔
 

حسیب

محفلین
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : "كان اول ماافترض علي رسول الله صلي الله عليه وسلم علي رسوله صلي الله عليه وسلم الصلوة ركعتان ركعتان الاالمغرب فانها كانت ثلاثا‘ ثم اتم الله الظهر والعصر والعشاء الآخرة اربعا في الحضر واقر الصلوة علي فرضها الاول في السفر"
رسول الله ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے۔ وہ تین رکعات فرض تھی ۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر ، عصر اور عشاء کی نماز چار(چار ) کردی اور سفر والی نماز اپنی پہلی حالت پر ( دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی ۔
( مسند الامام احمد ج 2ص27226869) دوسرا نسخہ : 26338
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے: فرضت صلوة السفروالحضر ركعتين فلما اقام رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة زيد في الصلوة الحضر ركعتان ركعتان وتركت صلوة الفجر لطول القراءة وصلوة المغرب لانها وتراالنهار "
سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی ، پھر جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیاگیا اور صبح کی نماز کو طول قراءت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا گیا ۔ ( صحیح ابن حبان 4/180ح 2727 دوسرا نسخہ :2738 وصحیح ابن خزیمہ 2/71 ح 944
 

آصف

محفلین
در اصل کنفیوژن تب شروع ہوئی جب ایک نو مسلم نے دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی
http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0302-Hadith.htm
’’صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف امام بخاری کی "الجامع الصحیح" ہے اور اس کے بعد امام مسلم کی "صحیح" ہے۔ یہ دونوں قرآن کے بعد صحیح ترین کتب ہیں اور اس بارے میں امت مسلمہ نے متفقہ طور پر انہیں قبول کیا ہے۔‘‘
’’ ان دونوں میں سے زیادہ صحیح کتاب، صحیح بخاری ہے۔ اس میں کچھ اضافی خوبیاں ہیں۔ بخاری کی احادیث میں اتصال سند میں زیادہ شدت برتی گئی ہے اور اس کے راوی زیادہ ثقہ ہیں‘‘

ان دونوں صحیح ترین کتب اور متفقہ طور پر قبول کی گئی روایات کے مطالعہ سے یہ کنفیوژن پیدا ہوئی۔
اب اس معاملہ میں اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت حسن، و موضوع روایات کو صحیح پر ترجیح دی جا سکتی ہے ۔
 

حسیب

محفلین
در اصل کنفیوژن تب شروع ہوئی جب ایک نو مسلم نے دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی
http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0302-Hadith.htm
’’صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف امام بخاری کی "الجامع الصحیح" ہے اور اس کے بعد امام مسلم کی "صحیح" ہے۔ یہ دونوں قرآن کے بعد صحیح ترین کتب ہیں اور اس بارے میں امت مسلمہ نے متفقہ طور پر انہیں قبول کیا ہے۔‘‘
’’ ان دونوں میں سے زیادہ صحیح کتاب، صحیح بخاری ہے۔ اس میں کچھ اضافی خوبیاں ہیں۔ بخاری کی احادیث میں اتصال سند میں زیادہ شدت برتی گئی ہے اور اس کے راوی زیادہ ثقہ ہیں‘‘

ان دونوں صحیح ترین کتب اور متفقہ طور پر قبول کی گئی روایات کے مطالعہ سے یہ کنفیوژن پیدا ہوئی۔
اب اس معاملہ میں اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت حسن، و موضوع روایات کو صحیح پر ترجیح دی جا سکتی ہے ۔
آپ اس بات کا ثبوت دیں کہ فن حدیث کے کس عالم کے بقول بخاری اور مسلم کے علاوہ باقی احادیث کی کتابوں میں موجود تمام احادیث حسن، ضعیف یا موضوع درجے کی ہیں؟؟ اور دوسری کتابوں کی صحیح احادیث کا درجہ بخاری مسلم کی نسبت کم ہے؟؟
 

الشفاء

لائبریرین
ب اس معاملہ میں اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت حسن، و موضوع روایات کو صحیح پر ترجیح دی جا سکتی ہے ۔

آصف صاحب۔۔۔ احباب نے آپ کے انداز و اطوار دیکھ کر پہلے ہی اپنے خدشات کا اظہار کر دیا تھا۔ لیکن جب آپ نے اپنی نیت کی دُہائی دی تو ہم نے آپ کو ہدایت کا متلاشی سمجھ کر آپ کے مطلوبہ سوالات کے جوابات ڈھونڈھ کر پیش کر دیے۔۔۔ لیکن آپ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔۔۔ بہرحال آپ اپنے عمل میں آزاد ہیں۔۔۔ مسلمانوں کی راہ سے الگ راہ پر چلنے والے کے لیے قرآنی وعید اوپر لکھی جا چکی ہے۔۔۔اللہ عزوجل سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔
وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً ۔۔۔سورۃ النساء آیت 115۔
اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ پر چلے تو ہم اسے اُسی گمراہی کی طرف پھیرے رکھیں گے کہ جدھر وہ خود ہی پھر گیا ہے۔ اور اسے جہنم میں ڈالیں گے ، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔۔۔ سورۃ النساء آیت 115۔

یہ دونوں قرآن کے بعد صحیح ترین کتب ہیں اور اس بارے میں امت مسلمہ نے متفقہ طور پر انہیں قبول کیا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ بخاری و مسلم کے معاملے میں آپ امت مسلمہ کے متفقہ موقف پر خوش ہیں اور اسے بطور دلیل پیش کر رہے ہیں۔ لیکن فجر کی دو رکعتوں کے معاملے میں آپ امت مسلمہ کے متفقہ عمل پر ناراض ہو کر چار رکعت پڑھنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
 

آصف

محفلین
کتنی عجیب بات ہے کہ بخاری و مسلم کے معاملے میں آپ امت مسلمہ کے متفقہ موقف پر خوش ہیں اور اسے بطور دلیل پیش کر رہے ہیں۔ لیکن فجر کی دو رکعتوں کے معاملے میں آپ امت مسلمہ کے متفقہ عمل پر ناراض ہو کر چار رکعت پڑھنے کی دھمکیاں دیتے ہیں
نہ مجھے اس متفقہ موقف پر خوشی ہے (کیوں کہ متفقہ موقف صرف کہنے کی حد تک ہے کہیں ہے نہیں) اور نہ ہی امت مسلمہ کے متفقہ عمل پر ناراضگی ہے۔ ایک سیدھا سادھا سوال پوچھا تھا جس کس سیدھا سادھا جواب مل نہیں سکا اور نہ آپ سب احباب مل کر دے سکتے ہیں۔ کہ اگر یہ دونوں کتب صحیح الکتب بعد کتاب اللہ ہیں تو ان میں تمام فرائض کی رکعات چار لکھیں ہیں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ان صحیح الکتب بعد کتاب اللہ کے برخلاف کیوں عمل کیا جاتا ہے اور وہ بھی ضعیف، حسن، موضوع روایات کو لے کر؟؟؟
 

الشفاء

لائبریرین
اگر یہ دونوں کتب صحیح الکتب بعد کتاب اللہ ہیں تو ان میں تمام فرائض کی رکعات چار لکھیں ہیں
میرے بھائی۔ آپ کی اس بات سے لگ رہا ہے کہ آپ ایک بنیادی غلط فہمی کا شکار ہیں۔۔۔ نہ صرف آپ ، بلکہ بہت سے لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ دین سارا کا سارا صرف انہی دو کتب میں ہے۔۔۔ اور دوسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ جو کچھ بخاری میں ہے صرف وہی صحیح ہے۔۔۔ اس میں بہت تفصیل ہے۔ لیکن آپ کی اطلاع کے لیے مختصراً عرض کیے دیتے ہیں کہ بخاری شریف کے مطبوعہ نسخوں میں احادیث کی کل تعداد تکرار کے ساتھ تقریباً 7563 ہے۔ اور تکرار نکال دیے جائیں تو احادیث کی تعداد تقریباً 2513 رہ جاتی ہے۔ تو کیا آپ کے خیال میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے ٹوٹل صرف 2513 صحیح احادیث روایت کی گئی ہیں؟۔ نہیں میرے بھائی۔ آئیے آپ کو بتائیں کہ خود امام بخاری اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔۔۔ امام ابن حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ صحیح احادیث مجھے یاد ہیں۔۔۔ تو باقی کی تقریباً ستانوے اٹھانوے ہزار صحیح احادیث جو امام بخاری کے نزدیک صحیح تھیں اور انہیں یاد تھیں ، وہ کہاں گئیں؟ ظاہر ہے کہ وہ دیگر ائمہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔۔۔ اچھا ، یہ ایک لاکھ وہ احادیث ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو یاد تھیں تو کیا امام بخاری کو کُل یعنی ساری کی ساری احادیث یاد تھیں۔؟ نہیں ، امام احمد بن حنبل جو امام بخاری کے شیخ ہیں، فرماتے ہیں کہ مجھے سات لاکھ احادیث یاد ہیں۔ تو کیا انہوں نے ساری غیر صحیح احادیث یاد کر رکھی تھیں؟۔۔۔ بخاری شریف کے سلسلے میں اور بھی بہت تفصیل ہے جس کا یہاں موقع نہیں۔۔۔
تو میرے بھائی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ جو بخاری میں ہے صرف وہی صحیح ہے اور جو بخاری میں نہیں ، وہ صحیح نہیں۔۔۔ بلکہ ایسا کہنا خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں اور آپ صرف 2513 احادیث جو صحیح بخاری میں لکھی گئی ہیں ، صرف ان کو صحیح مانتے ہیں۔۔۔ جس طرح امام بخاری نے اپنی جامع کے لیے حدیث کے صحیح ہونے کا ایک معیار مقرر کیا تھا اسی طرح دیگر ائمہ حدیث نے بھی اپنی کتابوں کے لیے احادیث کی صحت کا ایک معیار مقرر کیا ہے۔ اور اسی معیار کے مطابق صحیح احادیث جمع کی ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں ہم آپ کو صحاح ستہ کے مطالعے کا مشورہ دیں گے۔۔۔

مسلمانوں کی راہ؟؟ نماز میں کون سے مسلمانوں کی راہ اختیار کروں؟؟
دنیا بھر کے مسلمان ہمیشہ سے فجر کے دو رکعت فرض ہی پڑھتے ہیں۔ تو آپ بھی انہی مسلمانوں کی راہ پر چلیں۔۔۔ کیونکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے کہ

من فارق الجماعۃ شبراً فمات إلا مات میتۃ جاہلیۃ ۔۔۔جو شخص جماعت سے بالشت برابر بھی علیحدہ ہوا اور اس حال میں مر گیا تو یہ جاہلیت کی موت ہے۔۔۔

یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے۔اور اسی کی مثل صحیح مسلم میں بھی ۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

آصف

محفلین
لہٰذا اس سلسلے میں ہم آپ کو صحاح ستہ کے مطالعے کا مشورہ دیں گے۔۔۔
مجھے آپ نے صحاح ستہ کے مطالعے کا مشورہ دیے دیا، مہربانی، مجھے مشورہ دینے سے پہلے آپ نے بھی ان کا مطالعہ کر لیا ہو گا یقیناً۔ مگر آپ کو میرے سوال کا جواب دینے کیلئے ان صحاح ستہ سے کچھ نہیں ملا؟؟
ملا بھی تو ۔۔۔۔۔ مسند احمد و صحیح ابن حبان سے؟؟
جن میں کسی موضوع کے متعلق حدیث کو تلاش کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں؟؟
اور صحیح کے مقابلے میں حسن درجے کی روایت؟؟؟؟ جس کے بارے میں میں نے پڑھا ہے کہ ’’بن حجر کے نزدیک حسن وہ صحیح حدیث ہے جس کے محفوظ رکھنے میں کچھ کمی واقع ہو جائے۔‘‘
 

آصف

محفلین
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ صحیح احادیث مجھے یاد ہیں۔۔۔
تکرار نکال دیے جائیں تو احادیث کی تعداد تقریباً 2513 رہ جاتی ہے

یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ امام بخاری ؒ کو ایک لاکھ ’’صحیح‘‘ احادیث یاد تھیں اور انہوں نے تقریباً 97،500 کے لگ بھگ صحیح احادیث امت مسلمہ تک پہنچانا ضروری نہ سمجھا ۔ جزاک اللہ
اور یہ بھی بتا دیں کہ پوری پوری احادیث ہی نہیں پہنچائیں یا ایک حدیث کے الفاظ میں بھی اپنی مرضی سے کمی بیشی کی ہے؟؟؟ کیوں کہ آپ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو بخاری و مسلم نے نقل کی ہیں بس آپ کی پیش کردہ احادیث میں الفاظ زیادہ ہیں جو شاید بخاری و مسلم نے لکھنے ضروری نہ سمجھے، یا شاید جو آپ نے پیش کی ہیں ان میں زیادہ لکھ دیئے گئے؟؟

امام احمد بن حنبل جو امام بخاری کے شیخ ہیں، فرماتے ہیں کہ مجھے سات لاکھ احادیث یاد ہیں۔
سبحان اللہ۔ میں حساب لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اگر 2500 احادیث کی تین ضخیم جلدیں بنتی ہیں تو سات لاکھ کی کتنی بنیں گی۔
 
یہ عجیب بات سنی کہ صحیح احادیث کی سب سے پہلی کتاب صحیح بخاری تھی اگر اس کو تسلیم کر لیا جاوے تو پھر موطا امام مالک کو کہاں لیکر جائینگے یعنی موصوف کا بنیادی استدلال ہی درست نہیں حوالہ ملاحظہ کیجئے .

"موطا امام مالک احادیث کی پہلی مکمل کتاب تصور کی جاتی ہے - جمہور علماء نے موطا کو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولی میں شمار کیا ہے امام شافعی فرماتے ہیں"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک" کہ میں نے روءے زمین پر موطا امام مالک سے زیادہ کوءی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی"-
 
Top