فارسی گو شاعر 'ادیب صابر ترمذی' کا تعارف اور اُن کا دیوان

حسان خان

لائبریرین
شرف الادباء شہاب الدین بن اسماعیل، معروف بہ ادیب صابر ترمذی، بارہویں صدی عیسوی کے مشہور شاعر تھے۔ وہ ایک اہلِ علم و ادب خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کے والد ادیب اسماعیل بھی علم و ادب کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ تذکرہ نویسوں کو ادیب صابر کے جائے تولد کے بارے میں اختلاف ہے۔ دولتشاہ کے مطابق وہ بخارا سے تھے، جبکہ رازی اور کازرونی انہیں ترمذ سے سمجھتے ہیں۔ تقی الدین کاشانی نے خلاصۃ الاشعار میں لکھا ہے کہ انہوں نے بخارا میں تربیت پائی تھی، لیکن ان کی اصل ترمذ سے ہے۔ صابر آغازِ جوانی میں تحصیلِ علم کے لیے ہرات گئے۔ بعد میں نیشابور گئے اور وہاں ترمذ کے سردار ابوالقاسم علی بن جعفر کے مصاحبوں میں شامل ہو گئے۔ ابوالقاسم علی بن جعفر، کہ جو اپنے گہرے نفوذ کی وجہ سے رئیسِ خراسان پکارے جاتے تھے، سلجوقی سلطان معزالدین احمد سنجر اور اس کے دربار سے نزدیکی ارتباط رکھتے تھے، اور سنجر انہیں 'برادر' کہا کرتا تھا۔ ادیب بھی اُن کے توسط سے دربارِ سنجر تک پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ادیب کو سلطان کے سامنے منزلت حاصل ہو گئی اور انہوں نے مدیحہ سرائی کے علاوہ امورِ سیاسی میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا، اور یہی چیز ان کی جان لے گیا۔ اُن دنوں خوارزمشاہ بادشاہ علاءالدین سلطان آتسز اور سلطان سنجر سلجوقی کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوا تھا جو سرانجام ۵۳۸ھ میں جنگ پر منتج ہوا۔ آتسز کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ بعدازاں، سلطان سنجر کی جانب سے ادیب پیغاموں اور نصیحتوں کے ہمراہ بطور سفیر، اور بعض لوگوں کے ادعا کے مطابق، جاسوسی کے لیے خوارزم بھیجے گئے۔ جب ادیب خوارزم میں تھے تو آتسز نے دو آدمیوں کو سنجر کے قتل پر آمادہ کیا۔ ادیب آتسز کی اس سازش سے آگاہ ہو گئے اور انہوں نے ان دونوں قاتلوں کے بارے میں لکھ کر سنجر کے پاس خط بھیج دیا۔ خط کے وصول ہونے کے بعد سنجر نے ان دو آدمیوں کی تلاش کروائی اور ان کے ملنے کے بعد انہیں اعدام کروا دیا۔ جب آتسز کو اس پورے وقوعے کے متعلق معلوم ہوا تو اُس کے حکم پر ادیب صابر کو دریائے جیحون میں غرق کر دیا گیا۔ گمان ہے کہ یہ افسوس ناک حادثہ ۵۳۸ھ اور ۵۴۲ھ کے درمیان وقوع پذیر ہوا ہو گا۔
ادیب صابر کے اپنے کئی ہم عصر شعراء جیسے انوری، رشید وطواط، سوزنی سمرقندی، عبدالواسع جبلی، فتوحی مروزی وغیرہ سے دوستانہ تعلقات تھے اور ادیب کی ان سے باہمی شاعرانہ رقابت بھی تھی۔ ان مذکورہ شعراء میں سے اکثر نے ادیب کی ستائش میں اشعار بھی کہے ہیں۔ ادیب صابر اپنے ہم عصروں میں اتنے ممتاز تھے کہ انوری نے، اپنی تمامتر شاعرانہ قابلیت اور استادی کے باوجود، خود کو ادیب سے کمتر جانا ہے۔
ادیب صابر سبکِ خراسانی میں شعر کہنے والے شعراء میں سے تھے۔ اُن کے اشعار میں وہی خصوصیات ہیں جو پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے شعراء، خصوصاً خراسان کے شعراء میں نظر آتی ہیں۔ ان کی لطیف غزلیں اپنی روانی، فصاحت اور سلاست کے باعث فارسی ادب میں قدرے مشہور رہی ہیں۔ اُن کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریاضی و فلسفہ کے مبادیات اور زبان و ادبیاتِ عربی پر کامل تسلط رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں عرب کے برزگ شعراء مثلاً اخطل، اعشیٰ، عجاج، ابوتمام وغیرہ کو یاد کیا ہے اور متنبی کے شعر کی تضمین بھی کہی ہے۔
ادیب کے اشعار لفظ، معنی اور موضوع کے نکتۂ نظر سے فرخی سیستانی کے اسلوب سے نزدیک ہیں۔ ان کے کچھ قصائد منوچہری، عنصری، مسعود سعد، انوری اور معزی کے طرز میں بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں معزی اور مسعود کو خود پر مقدم جانا ہے۔

مآخذ:
انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا
دائرۃ المعارفِ بزرگِ اسلامی

ادیب صابر کا قصائد، غزلیات، رباعیات اور ترکیب بندوں پر مشتمل دیوان یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
https://archive.org/details/DivanEAdeebSabirTirmiziFarsi

محمد وارث
 
Top