غنچے کہتے تھے کہ اک پھول کہیں اور بھی ہے - ضیا فتح آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(ضیا فتح آبادی)
غنچے کہتے تھے کہ اک پھول کہیں اور بھی ہے
تارے کہتے تھے کہ اک چاند یہیں اور بھی ہے
لالہ و گُل ہی پہ موقوف نہیں حُسنِ شگفت
میرے گلشن کی بہاروں کا امیں اور بھی ہے
جس پہ شاعر کی نگاہیں ہی پہنچ سکتی ہیں
چاند تاروں سے پرے ایسی زمیں اور بھی ہے
میں تری چاندنی راتوں میں رہا ہوں بیدار
راز داں کوئی ترا ماہِ مبیں اور بھی ہے؟
میرا ہم سوز ہے زندانِ جہاں میں بُلبل
میں ہی اک کشتہء آلام نہیں اور بھی ہے
اُن سے کہنا ہے فسانہ غم ناکامی کا
ایک مشکل ابھی اے قلبِ حزیں اور بھی ہیں
ہم تری بزم سے جاتے ہیں اب اے حُسن بتا
چارہء سوزِ غم عشق کہیں اور بھی ہے؟
اے ضیا مجھ پہ نہ کیوں ناز ہو میخانے کو
مجھ سا دیوانہ و مدہوش کہیں اور بھی ہے؟
 
Top