غمِ شکوہ حال تک نہ آیا

خرد اعوان

محفلین
غمِ شکوہ حال تک نہ آیا
اس کا تو خیال تک نہ آیا

آقاوں کی مملکت تھی دنیا
سورج کو زوال تک نہ آیا

ٹوٹا ہوں کچھ اس طرح اچانک
پہلے کوئی بال تک نہ آیا

محفل میں‌نظر چرالی اس نے
ہم کو یہ کمال تک نہ آیا

کچھ ایسی تھکن کی نیند آئی
خوابوں‌کا خیال تک نہ آیا

یوں‌ختم کیا فسانہ ہم نے
لہجے میں‌ملال تک نہ آیا


مسعور عثمانی
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ شیئر کرنے کا۔
وارث بھائی مطلع کے پہلے مصرعہ میں غمِ پر کچھ فرمائیے گا، غمِ زیر کی اضافت کے ساتھ فعو ہوتا ہے لیکن میرے ناقص علم کے مطابق یہاں فا باندھا گیا ہے، یعنی 1 2 ہوتا ہے لیکن یہاں 2 باندھا گیا ہے، بحر کیا ہے اس غزل کی؟ شکریہ۔
 
Top