اکبر الہ آبادی غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا - اکبر الہ آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(اکبر الہ آبادی)
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
میں نزع میں ہوں آئیں تو احساں ہے اُن کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
 
Top