غصہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات

ابن جمال

محفلین
غصہ کے اسباب
بہت سارے اسباب اوروجوہات ایسے ہیں جن سے انسان کو غصہ آتاہے اسمیں کچھ وجوہات ایسی ہوتی ہیں جہاں انسان بجاطورپر طیش میں آتاہے لیکن عام طورپر غصہ کے اسباب یہ ہیں۔
خودپسندی اورخودرائی:
یہ ایک مذموم صفت ہے جس کی قرآن وحدیث میں بیشتر مقامات پرمذمت کی گئی ہے اوراس کے نقصانات بے شمار ہیں۔ سب سے پہلانقصان تویہ ہے کہ خود پسندی کی عادت میں مبتلاشخص کا علمی اورذہنی ارتقاء رک جاتاہے کیونکہ وہ خود کوہی ہمہ داں سمجھتاہے اوربقیہ سب کو کمتر اورحقیر ،جب کہ علم کااحاطہ کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں اوریہی سبق عیاں ہوتاہے حضرت موسی اورحضرت خضر کے واقعہ سے بھی۔بہرحال کہنامقصود یہ ہے کہ جب کوئی خودپسندی میں مبتلاہوتاہے اورکوئی ایسے رائے اس کے سامنے یاکوئی بات جواس کے مزاج اورطبعیت کے خلاف ہوسامنے آئے توفوراًمشتعل ہوجاتاہے۔
تکبر:
تکبرکی تعریف زبان رسالت نے یہ فرمائی ہے کہ تکبر دوسروں کو حقیر سمجھناہے متکبر کے بارے میں رسول اللہۖ کاارشاد گرام ہے کہ متکبرجنت میں نہیں جائے گااورقیامت کے دن اسے سرکے بل چلایاجائے گا اوراسے چیونٹی کی شکل میں اٹھایاجائے گااورتمام لوگ اسے روند رہے ہوں گے۔جب انسان دوسروکو حقیر سمجھتاہے اورخود کو سب سے بڑا اوربلندوبرترخیال کرتاہے تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دوسروں سے ایسی بات سننا نہیں چاہتاجواس کی طبعیت کے خلاف ہو۔اس کا مزاج بن جاتاہے کہ وہ اگر دن کو رات کہے توپورازمانہ اسے رات کہے اوراگر وہ رات کو دن کہے توپوری دنیا کو اسے دن ہی مان لیناچاہئے چونکہ حقیقت میں ایسانہیں ہوتااس لئے وہ اپنی رائے کے خلاف رائے اوربات سن کر یاکوئی کام ہوتادیکھ کر فوراًمشتعل ہوجاتاہے۔
ہنسی مذاق:
ہنسی مزاق اگرچہ جائز ہے اورفطرت انسانی میں شامل ہے اوررسول پاک اورصحابہ کرام سے بھی منقول ہے لیکن اگرکوئی اس حد کو پارکرتاہے جواسلام نے ہنسی مذاق کے بارے میں متعین کئے ہیں توپھر وہ غلط اورخلاف اسلام امر کاارتکاب کرتاہے۔ہنسی مذاق جوبے قید ہوتی ہے اس میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ کوئی دوست اورآشنااپنے دوست کے بارے مین مذاق ہی مذاق میں ایساجملہ کہہ دیتاہے جوبہت حساس اورنازک ہوتی ہے اورجس کا مذاق اڑایاگیاہے اس کا دل چھلنی ہوجاتاہے اورغصہ میں دوفرد جوکچھ دیر پہلے دوست تھے آپس میں لڑپڑتے ہیں اورپھرزندگی بھرافسوس کرتے ہیں کہ 'اتنی ذراسی بات پر برسوں کے بارانے گئے'۔
جب غصہ آئے توکیاکرے۔انسانی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ جھنجھلااٹھتاہے ،طبعیت مکدر ہوجاتی ہے اوردل بے اختیار چاہتاہے کہ سامنے والے کو کچھ سبق سکھایاجائے۔ایسے حالات میں آتش غضب کو کیسے بجھایاجائیاورکس طرح غصہ پرقابوپایاجائے اسلام نے ہمیں اس کی بھی تعلیم دی ہے۔اورطریقہ بتایاہے کہ کس طرح غصہ پرقابوپایاجائے اورشیطان کو اس کے مقصد میں کامیاب ہونے سے دوررکھاجائے۔
اللہ تبارک وتعالی کی عظمت کادھیان:یہ حقیقت ہے کہ انسان بہت کمزور اورضعیف ہے اوراس کا مشتعل ہونااورغصہ کرنااکثراوقات صرف اس بات کا نتیجہ ہوتاہے کہ اس کے ذہن میں اللہ رب العزت کی عظمت اوراس کی کبریائی اورجباری وقہاری اورقیامت کے روز اس کی پکڑکادھیان نہیں ہوتا۔اگراللہ عظمت اوراپنی ذلت وعاجزی ذہن میں رہے توانسان کسی پر خفاہونے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔حدیث میں بھی آتاہے کہ ایک صحابی اپنے ایک غلام کوپیٹ رہے تھے کہ پیچھے سے رسول پاکۖ نے آوازدی کہ اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قادر ہے جتناتواس وقت اپنے غلام پر بااختیار ہے۔یہ سنتے ہی اس صحابی رسولۖ کے ہاتھوں سے آلہ ضرب جس سے وہ غلام کو پیٹ رہے تھے گرگیااورانہوں نے غلام کو اپنے فعل کی تلافی میں آزاد کردیا۔(اس حدیث کی تخریج جس کسی کو معلوم ہو براہ کرم مطلع کریں۔)ہم روزانہ ایسی حدیثیں سنتے ہیں بزرگوں کے واقعات سنتے ہیں اورآنکھوں سے پڑھتے ہین لیکن چونکہ قلب مین خداکی عظمت اورکبریائی روشن نہیں ہے اس لئے کوئی اثر نہیں ہوتا۔جب کبھی غصہ آئے توفورااللہ کی عظمت اورکبریائی اوراپنی بے بسی ،کمزوری اورذلت وعاجزی کاخیال کریں انشاء اللہ غصہ فوراًجاتارہے گا۔
موڈ کو بدلنے میں تغیراحوال کوخاص دخل ہے جس کااعتراف تمام ماہرین نفسیات کرتے ہیں یعنی آپ پر کوئی خاص کیفیت طاری ہوتواپنی نشست وبرخاست کی ہیئت تبدیل کریں یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں چلے جائیں اس سے بھی موڈ اورمزاج تبدیل ہوتاہے۔غصہ بھی ایک نفسانی کیفیت کا نام ہے چنانچہ نفسیات انسانی کیسب سے بڑے معلم اوررمز آشنا نے ہمیں یہ بتایاکہ جب غصہ آئے توکیاکرناچاہئے اور کس طرح سے اسے دفع کرناچاہئے۔
اعوذباللہ پڑھنا:غصہ شیطانی اثر کا نتیجہ ہوتاہے۔لہذا اس کے دفعیہ کی اوراس کوختم کرنے کی سب سے بڑی تدبیریہی ہے کہ اس ذات باری سے شیطان کے اثر سے پناہ مانگی جائے جوشیطان کا خالق ومالک ہے اورجس کو شیطان کے تمام افعال واعمال اورحرکات وسکنات پرقدرت تامہ ہے ۔اس کے بارے میںپیچھے حدیث گزرچکی ہے قند مکررکیلئے ایک بار اورذکرکئے دیتاہوں ۔چنانچہ حضرت سلیمان بن صرد سے روایت منقول ہے کہ
استب رجلان عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ونحن عندہ جلوس،واحدھمایسب صاحبہ مغضبا قداحمروجھہ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''انی لاعلم کلمۃ لوقالھالذہب عنہ مایجد،لوقال :اعوذباللہ من الشیطان الرجیم،''(بخاری ،کتاب الادب ،باب ماینہی عنہ من السباب واللعن۔مسلم کتاب البر والصلہ والآداب ،باب فضل من یملک نفسہ عندالغضب )دوشخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لڑجھگڑ رہے تھے اورہم سب بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے ہوئے تھے ۔ان دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی کو برابھلاکہہ رہاتھااس پر غضبناک ہورہاتھا مارے طیش کے اس چہرہ لال پیلاہورہاتھا۔رسول پاکۖ نے فرمایا ''میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں اگر وہ کہہ لے تواس کا یہ غصہ کافور ہوجائے۔کاش وہ کہہ لے اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔
وضوکرنا:یہ دوسراطریقہ ہے جورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوبتایاہے اورسکھایاہے کہ جب غصہ آئے تواسے کیسے دور کیاجائے اورکس طرح خود کو غصہ سے بچایاجائے۔
عن عروہ بن محمد السعدی انہ کلمہ رجل فاغضبہ ،فقام فتوضا ،ثم قال:حدثنی ابی ،عن جدی عطیۃ قال:"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "ان الغضب من الشیطان،وان الشیطان خلق من النار وانماتطفا النار بالماء،فاذاغضب احدکم فلیتوضا"۔(ابوداد،کتاب الادب،باب مایقال عندالغضب ،مسند احمد بن حنبل 4/226۔قال المناوی فی التیسیر 1/297 سکت علیہ ابوداد فھوصالح ،سکت عنہ المنذری فھوحسن۔ عون المعبود13/98)عروہ بن محمد السعدی کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص سے بات چیت کی اوران کو غصہ دلادیا۔وہ کھڑا ہوا اوروضواکیاپھراس نے کہا۔مجھ سے میرے باپ نے میرے دادا عطیہ کے واسطہ سے بیان کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''بے شک غصہ شیطان کی جانب سے ہے اورشیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اورآگ پانی سے بجھ جایاکرتی ہے توتم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تووضوکرلے۔
روی ابونعیم باسنادہ عن ابومسلم الخولانی انہ کلم معاویۃ بشی وھوعلی المنبر فغضب ثم نزل فاغتسل ثم عاد الی المنبر وقال:سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:ان الغضب من الشیطان والشیطان من النار،والماء یطفی النار ،فاذاغضب احدکم فلیغتسل"۔(حلیۃ الاولیا2/51))ابونعیم نے اپنی سند سے بیان کیاہے کہ ابومسلم الخولانی(مخضرمین تابعی میں سے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور پایا لیکن شرف صحبت سے محروم رہے)نے حضرت امیر معاویہ سے کسی مسئلہ پر بات کی جب کہ وہ منبر پر تھے ۔ان کو غصہ آگیاوہ اترے اور(ہاتھ پائوں)دھویایاوضوکیا۔پھر منبرپرچڑھے اورفرمایا میں نے رسول اللہ کوارشاد فرماتے سناہے کہ ''بے شک غصہ شیطان کی جانب سے ہے (یعنی اس کے اثر کا نتیجہ ہے)اورشیطان آگ سے ہے اورپانی آگ کو بجھادیتی ہے توتم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تووضوکرلیاکرے۔
خاموش ہوجانامعلم انسانیت اوررہبرکامل نے غصہ کو دورکرنے کا یہ طریقہ بھی بتایاہے کہ جب کسی کوغصہ آئے تووہ خاموش ہوجائے۔کیونکہ بات سے بات بڑھتی ہے۔جتنازیادہ سوال جواب کرتے جائین گے فریقین کی ضد اتنی ہی بڑھتی جائے گی اورکبھی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بات بہت معمولی ہوتی ہے۔بڑی آسانی سے سلجھائی جاسکتی ہے لیکن کسی ایک کے خاموش نہ ہونے سے اس کا نتیجہ بڑے بھیانک اورخطرناک جرائم کی صورت میں نکلتاہے کہ کسی کی شمع حیات گل کردی جاتی ہے یاپھراسے زندگی بھرکیلئے اپاہج بنادیاجاتاہے۔اگرتھوڑی دیر کی خاموشی اختیار کی جائے توبات نہ بڑھے۔یہ چیز نفس پر شاق ضرور گزرتی ہے لیکن اس کے اللہ کے رسول نے فضائل بیان فرمائے ہیں کہ آخرت میں اس کو کن نعمتوں سے سرفراز اوردنیا میں کن نعمتوں سے مالامال کیاجائے گا۔چنانچہ غصہ دورکرنے کیلئے رسول پاکۖ نے ارشاد فرمایا۔
عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال :"اذاغضب احدکم فلیسکت ،قالھا ثلاثا"(مسند احمد بن حنبل 4/12-191۔مجمع الزوائد 8/73،قال الہیثمی رجال احمد ثقات )حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہوجائے۔یہ آپۖ نے تین مرتبہ فرمایا۔گویاتین مرتبہ فرماکر اس طریقہ اورنسخہ کی اہمیت اورتاکید فرمائی کہ اسے معمولی نہ سمجھاجائے ۔غصہ کو دورکرنے کیلئے یہ بہت کارگر اورمفید اورتیربہدف نسخہ ہے۔ضرورت صرف اسے استعمال کرنے ،برتنے اوراپنی زندگی میں لانے کی ہے۔
بیٹھ جانا،لیٹ جاناغصہ اورغضب جوآج ہماری زندگی کا ایک لازمہ بن چکاہے اوراسی وجہ سے پورامعاشرہ اورسماج بگڑاہواہے۔اس کو دفع کرنے کی انسانی نفسیات کے سب سے ڈاکٹر اورطبیب حاذق نے یہ تدبیر بتائی ہے کہ کیفیت بدل لو ،حالت بدل لو۔غصہ اگراس وقت آیا ہے جب تم کھڑے ہو توبیٹھ جائو ،بیٹھے ہو تولیٹ جائو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک حالت میں مسلسل رہنے سے غصہ بتدریج بڑھتارہتاہے لیکن جب انسانی حالت بدل لیتاہے تو اس کا دماغ دوسرے رخ پر بھی سوچنے کے قابل ہوجاتاہے اوراس طرح سے غصہ کی آنچ مدھم پڑنے لگتی ہے اورآہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔رسول کریمۖ کاارشاد ہے۔
عن ا بی سعید الخدری ان النبیۖ قال فی خطبتہ:"الاان الغضب جمرۃ فی قلب ابن آدم افمارایتم الی حمرۃعینیہ ،وانتفاخ اوداجہ ؟فمن احس من ذلک شیئا فلیلزق بالارض"۔ (مسند احمد بن حنبل3/19-61۔الترغیب والترہیب 3/289،وذکر قول الترمذی، ھذاحدیث حسن)
حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے ایک مرتبہ خطبہ میں ارشاد فرمایا ''آگاہ ہوجائو بے شک غصہ ابن آدم کے دل میں ایک چنگاری ہے کیاتم (اس کی علامات)نہیں دیکھتے کہ اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اوررگیں پھولنے لگتی ہیں۔توجوکوئی ایسی کیفیت محسوس کرے تو وہ زمین سے چپک جائے۔(یعنی لیٹ جائے)اوپر ذکر کردہ احادیث میں بتایاگیاہے کہ غصہ شیطان کی جانب سے ہے پھر اس حدیث میں کہاگیاہے کہ غصہ ایک چنگاری ہے جوانسان کے دل میں ابھرتی ہے اوراس کی علامات یہ ہیں ۔شیطان چونکہ خود آگ سے ہے اورغصہ سے اس کے اثر سے ہے۔لہذا بتایاگیاکہ شیطان کے اثر سے غصہ کی کیفیت کیاہوتی ہے ۔پھراس کے بعد بتایاگیاکہ انسان لیٹ جائے،زمین سے چپک جائے۔کیونکہ شیطان آگ سے ہونے کی بناء پر بلندی اورعلوچاہتاہے اورزمین سے چپکنااورلیٹنااس کابہترین توڑ ہے۔
عن ا بی ذر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:"اذاغضب احد کم وھوقائم فلیجلس ،فان ذھب عنہ الغضب والافلیضطجع"۔(ابوداد کتاب الادب باب مایقال عندالغضب ۔مسند احمد بن حنبل 5/152)حضرت ابوذر رسول اللہ ۖکاارشاد نقل کرتے ہیں کہ''جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑاہوتو بیٹھ جائے اوربیٹھاہوتولیٹ جائے۔اس کی تشریح پہلے ہی گزرچکی ہے۔
فائدہ:انسانی زندگی میں لڑائی جھگڑے اورغضب وغصہ کے مواقع اتنی بار آتے ہیں اورانسان غم روزگار کے ہاتھوں کچھ اس طرح تنگ ہوتاہے کہ اسے اپنے اوپر قابورکھنامشکل ہوجاتاہے۔اس لئے نفسیات انسانی کے سب سے بڑے عقدہ کشا اورگرہیں کھولنے والے فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ پر قابوکرنے کے بہت سارے طریقے نسخے اورعلاج بتادیئے ۔جس پر عمل کرکے ہم اپنی زندگی کو بربادہونے سے بچاسکتے ہیں۔غضب اورطیش پرقابوپانے کے یہ مختلف طریقے اس لئے بتائے گئے ہیں کہ ہرانسان مختلف طبعیت اورمزاج رکھتاہے اس لئے ہرمختلف طریقے بتادیئے گئے ہیں تاکہ ہرایک اپنی افتاد طبعیت کے اعتبار سے غصہ پرقابوپاسکے۔

مکمل مضمون پڑھنے کیلئے اس ربط پر کلک کریں
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?t=7194
 
Top