غزل

ناصر ملک

محفلین
عمر انسان سے بانٹتی ہے بھی کیا
آخرش رخت میں چھوڑتی ہے بھی کیا

کنجِ آشفتہ سر سے تجھے آج تک
کیا ملا؟ تشنگی، تشنگی ہے بھی کیا

اس نے جینا سزا کر دیا ہے مگر
وہ نہ ہو تو مری زندگی ہے بھی کیا

کب دیا جل اُٹھا ، کب دیا بجھ گیا
چشمِ بے نور کو روشنی ہے بھی کیا

مسکرانے تلک درد کی تاب ہے
مسکراہٹ مگر قیمتی ہے بھی کیا

عمر بھر ڈھونڈنے سے ملی دشت کی
آگہی، ہاں مگر آگہی ہے بھی کیا

کچھ نہیں ہاتھ میں، بخت میں کچھ نہیں
وہ اگر ساتھ ہو تو کمی ہے بھی کیا

تلخیوں سے بچاتی رہے تابکے؟
زندگی سے مری دوستی ہے بھی کیا

سامعہ ! مسکرا کر اسے ٹال دو
مجھ سیہ بخت کی تیرگی ہے بھی کیا

۔۔۔۔۔
(ناصرملک)
 
کنجِ آشفتہ سر سے تجھے آج تک
کیا ملا؟ تشنگی، تشنگی ہے بھی کیا



عمر بھر ڈھونڈنے سے ملی دشت کی
آگہی، ہاں مگر آگہی ہے بھی کیا


تلخیوں سے بچاتی رہے تابکے؟
زندگی سے مری دوستی ہے بھی کیا


سامعہ ! مسکرا کر اسے ٹال دو
مجھ سیہ بخت کی تیرگی ہے بھی کیا
۔۔۔ ۔۔
(ناصرملک)
واہ وا۔ واہ وا۔ واہ۔ کیا بات ہے۔ بہت داد قبول ہو جناب "ناصر ملک صاحب

اور اپنا تعارف بھی دیجیے جناب تعارف کے زمرے میں۔
 
Top