غزل

Faizan ahmed

محفلین
ترا خیال ہی بوئے گلاب جیسا ہے
ترے جمال کانشہ شراب جیسا ہے

فراق یار میں ہر پل عذاب جیسا ہے
سلگ سلگ کے ہوا دل کباب جیسا ہے

گواہی دیتا ہے ہر عضو اس کے باطن کی
نظر اٹھائے تو چہرہ کتا ب جیسا ہے

ذرا سنبھال کے آگے قدم بڑھاؤ تم
شباب آیا ابھی موج آب جیسا ہے

سکون دل کو ترستی ہے جیسے دنیا اب
نشان رخ پہ ابھی اضطراب جیسا ہے

کبھی وہ کاش دے جنبش لبوں کو بھی اپنے
سکوت اس کا ہمیشہ عتاب جیسا ہے

ملے ہیں خاک میں آئے زمیں پہ جتنے ہیں
غرور روئے زمیں پر حباب جیسا ہے

فیضان احمد اعظمی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی کاوش ہے جناب!
بزمِ سخن میں خوش آمدید جناب فیضان احمد صاحب! امید ہے آپ رونق بخشتے رہیں گے ۔

اس مصرع کو ذرا دیکھ لیجئے: ذرا سنبھال کے آگے قدم بڑھاؤ تم

یہاں سنبھال نہیں بلکہ سنبھل کر قدم بڑھانا درست ہے ۔
 

Faizan ahmed

محفلین
بہت خوب! اچھی کاوش ہے جناب!
بزمِ سخن میں خوش آمدید جناب فیضان احمد صاحب! امید ہے آپ رونق بخشتے رہیں گے ۔

اس مصرع کو ذرا دیکھ لیجئے: ذرا سنبھال کے آگے قدم بڑھاؤ تم

یہاں سنبھال نہیں بلکہ سنبھل کر قدم بڑھانا درست ہے ۔
توجہ فرمائی کا بہت بہت شکریہ
جزاک اللہ
 
Top