غزل

ہائے شکوہ جو ابد تک نہ لبوں پر آیا
واہ صد لاکھ جوازوں کا اکٹھا کرنا
دم لیا قبر کو زندان بنا کر، ظالم
وہ ترا سامنے آنا مجھے زندہ کرنا
بس کہ محروم تھا میں خاک سے برتر نہ رہا
ہوا ممکن سو مجھے آگ سے پیدا کرنا
کام تیرا تھا ہر اک رند یہاں پر لانا
فرض میرا ہوا فردوس کو دنیا کرنا
بزم عشاق، چراغاں، ستمِ خود بینی
تیرا یکجا ہی تو کرنا ہوا تنہا کرنا
چار دن اور رہیں کون و مکاں تو اچھا
پھر کسی روز مرے عشق کا چرچا کرنا
 
Top