غزل (2024 - 05 -25)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

کیا سنائیں زندگی کی داستاں
روزِ روشن کی طرح سب ہے عیاں

درد کو سمجھو زبانِ حال سے
ہو نہ پائے گا یہ لفظوں میں بیاں
یا
جو نہیں سمجھا زبانِ حال سے
درد لفظوں میں وہ سمجھے گا کہاں

آنکھ ہے پُر نم لبوں پر خامُشی
ہائے ری غُربت تری مجبوریاں

داستانوں میں ترے چرچے تو ہیں
اے محبت میں تجھے ڈھونڈوں کہاں

زندگی اک خوبصورت ہے سفر
ہمسفر ساتھی اگر ہو مہرباں

ہے محبت آج کی مکرو فریب
دوستوں کی دوستی جھوٹی یہاں

ٹُوٹ کر بکھرا ہے جب شیشے سا دل
اور زخمی کر گئی ہیں کرچیاں

ہم گلی کُوچے میں رسوا ہوگئے
راز افشا کر گیا ہے رازداں

دامنِ امید وہ تریاق ہے
خُون کی گردش جو رکھتا ہے رواں

تھام کر امید کا دامن چلو
بھُول جائیں گی غموں کی تلخیاں

جسم ہو جاتا ہے انساں کا ضعیف
پَر سدا جذبات رہتے ہیں جواں

عالمی دنیا ہے گاؤں بن گئی
قربتوں میں ڈھل گئی ہیں دوریاں
 
آخری تدوین:
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

آپ حضرات سے مودبانہ گذارش ہے کہ غزل تدوین کے بعد آخری شکل میں پیش ِ خدمت ہے۔

کیا سنائیں زندگی کی داستاں
روزِ روشن کی طرح سب ہے عیاں

درد کو سمجھو زبانِ حال سے
ہو نہ پائے گا یہ لفظوں میں بیاں
یا
جو نہیں سمجھا زبانِ حال سے
درد لفظوں میں وہ سمجھے گا کہاں

آنکھ ہے پُر نم لبوں پر خامُشی
ہائے ری غُربت تری مجبوریاں

داستانوں میں ترے چرچے تو ہیں
اے محبت میں تجھے ڈھونڈوں کہاں

زندگی اک خوبصورت ہے سفر
ہمسفر ساتھی اگر ہو مہرباں

ہے محبت آج کی مکرو فریب
دوستوں کی دوستی جھوٹی یہاں

ٹُوٹ کر بکھرا ہے جب شیشے سا دل
اور زخمی کر گئی ہیں کرچیاں

ہم گلی کُوچے میں رسوا ہوگئے
راز افشا کر گیا ہے رازداں

دامنِ امید وہ تریاق ہے
خُون کی گردش جو رکھتا ہے رواں

تھام کر امید کا دامن چلو
بھُول جائیں گی غموں کی تلخیاں

جسم ہو جاتا ہے انساں کا ضعیف
پَر سدا جذبات رہتے ہیں جواں

عالمی دنیا ہے گاؤں بن گئی
قربتوں میں ڈھل گئی ہیں دوریاں
 

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

آپ حضرات سے مودبانہ گذارش ہے کہ غزل تدوین کے بعد آخری شکل میں پیش ِ خدمت ہے۔

کیا سنائیں زندگی کی داستاں
روزِ روشن کی طرح سب ہے عیاں
چل سکتا ہے اگرچہ کوئی خاص نہیں

درد کو سمجھو زبانِ حال سے
ہو نہ پائے گا یہ لفظوں میں بیاں
یا
جو نہیں سمجھا زبانِ حال سے
درد لفظوں میں وہ سمجھے گا کہاں
نہیں، عجز بیان ہے۔ مطلب جو میں سمجھا ہوں، اس کے مطابق ، کہ زبان حال سے جو کہا گیا، وہ درد کسی کی سمجھ میں نہیں آیا
الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ زبان حال دوسرے فریق کے پاس ہے، جس کے ذریعے وہ درد کی شدت محسوس نہیں کر سکا!

آنکھ ہے پُر نم لبوں پر خامُشی
ہائے ری غُربت تری مجبوریاں

داستانوں میں ترے چرچے تو ہیں
اے محبت میں تجھے ڈھونڈوں کہاں

زندگی اک خوبصورت ہے سفر
ہمسفر ساتھی اگر ہو مہرباں
ہے محبت آج کی مکرو فریب
دوستوں کی دوستی جھوٹی یہاں


ٹُوٹ کر بکھرا ہے جب شیشے سا دل
اور زخمی کر گئی ہیں کرچیاں

ہم گلی کُوچے میں رسوا ہوگئے
راز افشا کر گیا ہے رازداں

دامنِ امید وہ تریاق ہے
خُون کی گردش جو رکھتا ہے رواں

تھام کر امید کا دامن چلو
بھُول جائیں گی غموں کی تلخیاں

جسم ہو جاتا ہے انساں کا ضعیف
پَر سدا جذبات رہتے ہیں جواں

عالمی دنیا ہے گاؤں بن گئی
قربتوں میں ڈھل گئی ہیں دوریاں
ہر شعر میں کچھ یوں لگتا ہے جیسے زبردستی کسی نے کچھ منٹ میں غزل مکمل کرنے کا امتحان لیا، اور نتیجہ یہ نکلا ہے. کسی شعر میں کوئی خاص بات بھی نہیں، اور زیادہ تر عجز بیان ہے کہ بات واضح نہیں ہو رہی۔ ایک شعر کو تو لے کر بتایا ہے، لیکن بعد میں چھوڑ دیا کہ اس غزل پر محنت کرنا بیکار محسوس ہو رہا ہے۔ معذرت صاف گوئی کے لئے۔
 
چل سکتا ہے اگرچہ کوئی خاص نہیں

نہیں، عجز بیان ہے۔ مطلب جو میں سمجھا ہوں، اس کے مطابق ، کہ زبان حال سے جو کہا گیا، وہ درد کسی کی سمجھ میں نہیں آیا
الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ زبان حال دوسرے فریق کے پاس ہے، جس کے ذریعے وہ درد کی شدت محسوس نہیں کر سکا!

ہر شعر میں کچھ یوں لگتا ہے جیسے زبردستی کسی نے کچھ منٹ میں غزل مکمل کرنے کا امتحان لیا، اور نتیجہ یہ نکلا ہے. کسی شعر میں کوئی خاص بات بھی نہیں، اور زیادہ تر عجز بیان ہے کہ بات واضح نہیں ہو رہی۔ ایک شعر کو تو لے کر بتایا ہے، لیکن بعد میں چھوڑ دیا کہ اس غزل پر محنت کرنا بیکار محسوس ہو رہا ہے۔ معذرت صاف گوئی کے لئے۔
محترم الف عین صاحب!
سر!آپ کی صاف گوئی سرآنکھوں پر۔ صاف گوئی پر معذرت صاف گوئی کو مشکوک بناتی ہے۔ اس لیے استادِمحترم پر لفظ معذرت نہیں جچتا۔ استاد کے پاس بے رحمی کی حد تک تصحیح کا حق ہوتا ہے۔اسی لیے پرانے نظامِ تعلیم میں والدین اپنا بچہ استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اسے سدھارنے کےلیے آپ اس حد تک تشدد کرسکتے ہیں کہ اس کی چمڑی ادھیڑ دیں اور بس ہڈیاں ہمارے حوالے کردیں۔
معذرت کا لفظ صرف شاگردوں کے لیے ہے۔ جوکہ تدوین کرتے ہوئے پہلےہی کی جا چکی ہے کیونکہ دو شعر اور ایک متبادل، غزل پوسٹ کرنے کے بعد شامل کرنے کی گستاخی ہو گئی۔
جب تک تدوین کا آپشن کھلا ہوتا ہے اور کوئی رائے نہیں آئی ہوتی میرا خیال ہے اس وقت تک تدوین جائز ہونی چاہیے۔ لیکن اگر یہ خلافِ ادب ہے تو نشان دہی کردی جائے تاکہ آئندہ یہ گستاخی نہ ہو۔
سر!آپ کی ہدایت کے مطابق اس غزل پر محنت کرنا بیکار ہوگا۔ اس لیے اسے چھوڑ کر کچھ کارآمد کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
جب تک تدوین کا آپشن کھلا ہوتا ہے اور کوئی رائے نہیں آئی ہوتی میرا خیال ہے اس وقت تک تدوین جائز ہونی چاہیے۔ لیکن اگر یہ خلافِ ادب ہے تو نشان دہی کردی جائے تاکہ آئندہ یہ گستاخی نہ ہو۔
تدوین پر تمہارا مکمل حق ہے، اگر اس سے پہلے میں یا کوئی اور کچھ اعتراض کر بھی دے تو مراسلہ نگار کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہو گی۔ اسے گستاخی تو کوئی گستاخ ہی کہے گا۔
دوسرے احباب کا اس غزل پر کیا خیال ہے؟ اصلاح کی محنت کر سکتا ہے کوئی؟ سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحلؔ ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ عظیم
 

عظیم

محفلین
میرے پاس الحمد للہ آج کچھ وقت ہے تو میں کوشش کرتا ہوں کہ شاید کچھ بہتری آ جائے


کیا سنائیں زندگی کی داستاں
روزِ روشن کی طرح سب ہے عیاں
دوسرا مصرع اگر
جب کہ چہرے سے ہے اپنے سب عیاں
کر لیا جائے تو کیا کچھ بہتری آتی ہے؟
درد کو سمجھو زبانِ حال سے
ہو نہ پائے گا یہ لفظوں میں بیاں
یا
جو نہیں سمجھا زبانِ حال سے
درد لفظوں میں وہ سمجھے گا کہاں
پہلے کو بدلنے کی ضرورت ہے، 'زبان حال' گڑبڑ کر رہا ہے۔ کسی اور انداز میں اگر یہی بات کی جائے تو شاید کچھ بہتر ہو، یعنی
// درد کو سمجھو ہمارے حال سے

آنکھ ہے پُر نم لبوں پر خامُشی
ہائے ری غُربت تری مجبوریاں
آنکھ پر نم ہے تو لب پر خامشی
آہ یہ غربت کی بھی مجبوریاں
//مگر آنکھ کا پرنم ہونا اور لب پر خاموشی کا غربت کے ساتھ کوئی تعلق گہرا نہیں بنتا۔ بہتر یہی ہو کہ بھوک افلاس جیسی کسی بات کا ذکر لایا جائے
داستانوں میں ترے چرچے تو ہیں
اے محبت میں تجھے ڈھونڈوں کہاں
داستانوں میں تو سنتا ہوں کہ ہے
اے محبت اصلیت میں ہے کہاں؟
فی الحال دوسرا مصرع یہی سمجھ میں آ رہا ہے، اگر آپ کچھ بہتر لا سکیں تو خوب ہے
زندگی اک خوبصورت ہے سفر
ہمسفر ساتھی اگر ہو مہرباں
زندگی جیسا نہ ہو کوئی سفر
زندگی جیسا سفر کوئی نہیں
زندگی اک خوبصورت ہو سفر
زندگی جیسا نہیں کوئی سفر
ہمسفر جب آپ کا ہو مہرباں
ہے محبت آج کی مکرو فریب
دوستوں کی دوستی جھوٹی یہاں
مکر و فریب تھوڑا فٹ نہیں بیٹھا۔
//ہے محبت آج کی دھوکا فقط
//کون سی؟ کیسی؟ جہاں کی یاریاں!
ٹُوٹ کر بکھرا ہے جب شیشے سا دل
اور زخمی کر گئی ہیں کرچیاں
ٹوٹ کر بکھرا تھا جب شیشے سا دل
پاؤں زخمی کر گئی تھیں کرچیاں
//میرا خیال ہے کہ چل سکنے کے قابل ہے، دوسرا مصرع وضاحت طلب لگتا ہے کہ کس کے پاؤں اور کون سی کرچیاں!
کچھ اور فکر کر لیں آپ بھی تو شاید کچھ بہتر شعر نکل آئے
ایک صورت دوسرے مصرع کی یہ بھی ہو سکتی ہے
//پاؤں زخمی کر گئیں یہ کرچیاں
مگر اس کے ساتھ پہلے مصرع کا صیغہ ظاہر ہے کہ بدلنا ہو گا جو آپ کے اوریجنل مصرع کا پہلے سے ہی ہے۔ یعنی 'بکھرا تھا' نہیں 'بکھرا ہے'
ایک اور بات کہ اگر دوسرے مصرع میں 'یہ' کی جگہ 'تب' لائیں تو کچھ اور بہتری آتی ہے
مگر پاؤں کس کے تھے یہ سوال پھر بھی قائم رہے گا، بہتر یہی ہے کہ کچھ اور فکر کر لیں
ہم گلی کُوچے میں رسوا ہوگئے
راز افشا کر گیا ہے رازداں
کیوں ہوئے رسوا گلی کوچوں میں ہم
راز کو رکھنا تھا راز اے رازداں

دامنِ امید وہ تریاق ہے
خُون کی گردش جو رکھتا ہے رواں
پہلے مصرع کی ایک اور صورت کچھ جان پیدا کرنے کے لیے
//دامن امید ہے تریاق وہ
تھام کر امید کا دامن چلو
بھُول جائیں گی غموں کی تلخیاں
ان دونوں اشعار میں فاصلہ ہو تو اچھا ہے کہ دونوں میں امید کی بات کی گئی ہے۔
اس کی بھی پہلے مصرع کی ایک اور صورت!
//تھام کر دامن چلو امید کا
مگر امید کے ساتھ تلخیوں کا کوئی لنک سمجھ میں نہیں آ رہا، وہ بھی غموں کی تلخیاں!
کچھ اور بات لائی جائے
مثلاً
زندگی بھر کی نہیں یہ سختیاں
جسم ہو جاتا ہے انساں کا ضعیف
پَر سدا جذبات رہتے ہیں جواں
عمر بھر جذبات رہتے ہیں جواں!
عالمی دنیا ہے گاؤں بن گئی
قربتوں میں ڈھل گئی ہیں دوریاں
گلوبل ویلج والی بات واضح نہیں یہاں۔ اس انگلش کے لفظ کا ترجمہ بھی عالمی/دنیاوی گاؤں بنے گا
//مختصر ہونے لگے ہیں فاصلے
 
Top