غزل (2024 - 05 - 10)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

کاش میں آج اُن کو جانے سے
روک سکتا کسی بہانے سے

یا
جانے والوں کو کوئی جانے سے
روک سکتا نہیں بہانے سے

وہ جو آزاد سوچ رکھتے ہیں
اُن کو نسبت ہے قید خانے سے

پُختگی آگئی ہے سوچوں میں
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے

جو تھے دنیا کے رہنما کل تک
آج پیچھے ہیں وہ زمانے سے

مسجدِ قرطبہ پہ تالے ہیں
کیا ملا کشتیاں جلانے سے

آتشِ عشق ایسی آتش ہے
اور بھڑکے ہے جو بجھانے سے

قُربتیں اور بڑھتی جاتی ہیں
پیار میں رُوٹھنے منانے سے

دھڑکنیں تیز ہو گئیں دل کی
اُن کے ہلکا سا مسکرانے سے

جو بھی خورشید کو ملا اب تک

وہ ملا غیب کے خزانے سے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

کاش میں آج اُن کو جانے سے
روک سکتا کسی بہانے سے

یا
جانے والوں کو کوئی جانے سے
روک سکتا نہیں بہانے سے
پہلا متبادل ہی بہتر ہے

وہ جو آزاد سوچ رکھتے ہیں
اُن کو نسبت ہے قید خانے سے
درست

پُختگی آگئی ہے سوچوں میں
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے
پختگی شاید درست لفظ نہیں، کچھ اور سوچو

جو تھے دنیا کے رہنما کل تک
آج پیچھے ہیں وہ زمانے سے
ٹھیک

مسجدِ قرطبہ پہ تالے ہیں
کیا ملا کشتیاں جلانے سے
شعر واضح نہیں ہوا

آتشِ عشق ایسی آتش ہے
اور بھڑکے ہے جو بجھانے سے
ویسے ٹھیک ہے لیکن بھڑکے ہے جدید استعمال نہیں

قُربتیں اور بڑھتی جاتی ہیں
پیار میں رُوٹھنے منانے سے
درست

دھڑکنیں تیز ہو گئیں دل کی
اُن کے ہلکا سا مسکرانے سے

جو بھی خورشید کو ملا اب تک

وہ ملا غیب کے خزانے سے
دونوں درست ہی لگ رہے ہیں
 
محترم سر الف عین صاحب ! شفقت کا شکریہ۔
پُختگی آگئی ہے سوچوں میں
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے

پختگی شاید درست لفظ نہیں، کچھ اور سوچو
ہم زمانہ شناس ہوتے گئے
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے
مسجدِ قرطبہ پہ تالے ہیں
کیا ملا کشتیاں جلانے سے

شعر واضح نہیں ہوا
آپ صحیح فرمارہے ہیں سر۔ یہاں بات کِنایَۃً ہی ہوئی ہے۔
تاریخ میں ہے کہ طارق بن زیاد نے اپنے جنگجو ساتھیوں کے ساتھ کشتیاں جلا کر واپسی کا راستہ بند کردیا اور کہا کہ یا فتح یا شہادت۔اور اس طرح سپین فتح ہوگیا۔ مگر بعد میں آنے والے مسلمان اپنے اصل راستے سے ہٹ گئے اور اپنی شان و شوکت برقرار نہ رکھ سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں اسلام کانام و نشان مٹا دیا گیا - اور تاریخی مسجد قرطبہ اور دوسری مساجدبند کردی گئیں۔
یعنی اسلام پھیلانے کے لیے جو جدوجہد ہوئی بعد میں آنے والےاپنے اصل مقصد سے ہٹ گئے اوراس کو برقرار نہ رکھ سکے۔
 

صریر

محفلین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

کاش میں آج اُن کو جانے سے
روک سکتا کسی بہانے سے

یا
جانے والوں کو کوئی جانے سے
روک سکتا نہیں بہانے سے

وہ جو آزاد سوچ رکھتے ہیں
اُن کو نسبت ہے قید خانے سے

پُختگی آگئی ہے سوچوں میں
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے

جو تھے دنیا کے رہنما کل تک
آج پیچھے ہیں وہ زمانے سے

مسجدِ قرطبہ پہ تالے ہیں
کیا ملا کشتیاں جلانے سے

آتشِ عشق ایسی آتش ہے
اور بھڑکے ہے جو بجھانے سے

قُربتیں اور بڑھتی جاتی ہیں
پیار میں رُوٹھنے منانے سے

دھڑکنیں تیز ہو گئیں دل کی
اُن کے ہلکا سا مسکرانے سے

جو بھی خورشید کو ملا اب تک

وہ ملا غیب کے خزانے سے
ماشاءاللہ،‌اچھی غزل ہے!👍🏻
 

الف عین

لائبریرین
مقطع پہلے سے موجود ہے، ورنہ اس کو یوں کر سکتے تھے،

ہوش آتا گیا ہمیں خورشید
ٹھوکریں دربدر کی کھانے سے
روانی میں واقعی یہ بہتر ہے نسبتاً خورشید کے ترمیم شدہ مصرعے سے، یہ بھی درست ہے ویسے
ہم زمانہ شناس ہوتے گئے
 

الف عین

لائبریرین
محترم سر الف عین صاحب ! شفقت کا شکریہ۔

ہم زمانہ شناس ہوتے گئے
ٹھوکریں در بدر کی کھانے سے

آپ صحیح فرمارہے ہیں سر۔ یہاں بات کِنایَۃً ہی ہوئی ہے۔
تاریخ میں ہے کہ طارق بن زیاد نے اپنے جنگجو ساتھیوں کے ساتھ کشتیاں جلا کر واپسی کا راستہ بند کردیا اور کہا کہ یا فتح یا شہادت۔اور اس طرح سپین فتح ہوگیا۔ مگر بعد میں آنے والے مسلمان اپنے اصل راستے سے ہٹ گئے اور اپنی شان و شوکت برقرار نہ رکھ سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں اسلام کانام و نشان مٹا دیا گیا - اور تاریخی مسجد قرطبہ اور دوسری مساجدبند کردی گئیں۔
یعنی اسلام پھیلانے کے لیے جو جدوجہد ہوئی بعد میں آنے والےاپنے اصل مقصد سے ہٹ گئے اوراس کو برقرار نہ رکھ سکے۔
مسجد قرطبہ تو چرچ میں تبدیل ہو گئی ہے! "تالے ہیں" بیانیہ سے محض تاریخ کی طرف اشارہ نہیں لگتا
 
مسجد قرطبہ تو چرچ میں تبدیل ہو گئی ہے! "تالے ہیں" بیانیہ سے محض تاریخ کی طرف اشارہ نہیں لگتا
محترم سر الف عین صاحب! مسجد موجود ہے لیکن اب وہ مسجد نہیں رہی۔تالے لگ گئے ہیں مطلب بند ہوگئی ہے۔ یہ آج کی بات ہے۔
تاریخ دوسرے مصرعے میں ہے کہ کشتیاں جلائی گئیں یعنی قرونِ اولیٰ کی سرفروشی سے بعد میں آنے والے کچھ حاصل نہ کرسکے بلکہ ان کی محنت بھی ضائع کردی۔
 
ماشاءاللہ،‌اچھی غزل ہے!👍🏻
مقطع پہلے سے موجود ہے، ورنہ اس کو یوں کر سکتے تھے،

ہوش آتا گیا ہمیں خورشید
ٹھوکریں دربدر کی کھانے سے
روانی میں واقعی یہ بہتر ہے نسبتاً خورشید کے ترمیم شدہ مصرعے سے، یہ بھی درست ہے ویسے
جناب صریر صاحب توجہ دینے، حوصلہ افزائی کرنے اور متبادل تجویز کرنے کا بے حدشکریہ۔ اگر مقطع کا متبادل بھی عنایت ہو جائے تو مقطع کو شعر اور شعر کو مقطع بنایا جا سکتا ہے۔
 

صریر

محفلین
جناب صریر صاحب توجہ دینے، حوصلہ افزائی کرنے اور متبادل تجویز کرنے کا بے حدشکریہ۔ اگر مقطع کا متبادل بھی عنایت ہو جائے تو مقطع کو شعر اور شعر کو مقطع بنایا جا سکتا ہے۔
اگر موجودہ مقطع کے دوسرے مصرعے کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی جائے، تو یوں کہا جا سکتا ہے۔

جس کی امید تک نہ کی تھی کبھی
وہ ملا غیب کے خزانے سے

اور طریقے سے مصرع یوں بھی ذہن میں آیا تھا،

جس کی امید ہار بیٹھے تھے
وہ ملا غیب کے خزانے سے

امید چھوڑنا اور ہمت ہارنا تو محاورہ ہے، لیکن امید ہارنا کے متعلق استادِ محترم سے کنفرم کرنا پڑے گا۔
الف عین سر!
 

الف عین

لائبریرین
امید ہارنا بھی شاذسہی، مگر سنا ضرور ہے۔ اگرچہ محاورہ غلط ہے لیکن سب سے زیادہ رواں یہی مصرع ہے
جس کی امید ہار بیٹھے تھے
چھوڑ بیٹھے کہنے سےلہجہ کرخت ہو جاتا ہے
 
Top