غزل - (2023-12-29)

اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

رہی چمن میں خزاں ہمیشہ بہار ہم کو نہ راس آئی
خوشی نے ہم سے نہ رشتہ جوڑا رہی غموں سے ہی آشنائی

جہاں ستایا ہے تلخیوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی

نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ جس پر تھا ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی

رہا ہوں محتاط ٍدشمنوں سے مگر نہ تھا یاد قولِ صادق
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی

تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے سفر میں ہیں عمر ساری
ملی وراثت میں جو تھی غربت اسی سے لڑتے رہے لڑائی

یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں ساری خوشیاں
یہی تو اعجازِ دل لگی ہے کہ نیند اپنی ہے اب پرائی

کبھی گذرتا نہ جس کا پَل تھا بنا ترے آج بھی ہے زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی

نوٹ:- آخری شعر اپنی شاعری کی ابتدا میں ایک غزل میں کہنے کی کوشش کی تھی جو موزوں نہ ہو سکا۔ اس غزل میں دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

رہی چمن میں خزاں ہمیشہ بہار ہم کو نہ راس آئی
خوشی نے ہم سے نہ رشتہ جوڑا رہی غموں سے ہی آشنائی
کوئی خاص بات نہیں، صرف قافیہ پیمائی لگ رہی ہے

جہاں ستایا ہے تلخیوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
تلخیاں اور غم متضاد تو نہیں، نفرت کی چوٹ کا اولی میں کچھ ذکر ہونا تھا

نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ جس پر تھا ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی
ٹھیک ہے لیکن ثانی مصرع کی ترتیب الفاظ درست نہیں، روانی متاثر ہے

رہا ہوں محتاط ٍدشمنوں سے مگر نہ تھا یاد قولِ صادق
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی
کس کا قول؟ اگر قول یاد نہ تھا تو پھر دشمنوں سے کیسے محتاط رہے؟
تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے سفر میں ہیں عمر ساری
ملی وراثت میں جو تھی غربت اسی سے لڑتے رہے لڑائی
یہ بھی قافیہ پیمائی لگ رہی ہے۔ پہلا مصرع روانی چاہتا ہے

یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں ساری خوشیاں
یہی تو اعجازِ دل لگی ہے کہ نیند اپنی ہے اب پرائی
بے ربط لگ رہا ہے
اعجاز دل لگی غلط ترکیب ہے۔ دل لگی ہندی ہے

کبھی گذرتا نہ جس کا پَل تھا بنا ترے آج بھی ہے زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی
پہلا مصرع رواں نہیں
الفاظ اور ان کی ترتیب بدلیں
نوٹ:- آخری شعر اپنی شاعری کی ابتدا میں ایک غزل میں کہنے کی کوشش کی تھی جو موزوں نہ ہو سکا۔ اس غزل میں دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے۔
 
محترم استاد جناب الف عین صاحب! آپ کے ارشادات سے راہنمائی لے کر دوبارہ کوشش کی ہے۔ نظر ثانی کی درخواست کے ساتھ حاضرِ خدمت ہے۔
رہی چمن میں خزاں ہمیشہ بہار ہم کو نہ راس آئی
خوشی نے ہم سے نہ رشتہ جوڑا رہی غموں سے ہی آشنائی

کوئی خاص بات نہیں، صرف قافیہ پیمائی لگ رہی ہے
ہمیں اذیت پسند محبوب کی محبت یوں راس آئی
زہے مقدر کہ زندگی بھر رہی غموں سے ہی آشنائی
جہاں ستایا ہے تلخیوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی

تلخیاں اور غم متضاد تو نہیں، نفرت کی چوٹ کا اولی میں کچھ ذکر ہونا تھا
جہاں ستایا ہے دشمنوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ جس پر تھا ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی

ٹھیک ہے لیکن ثانی مصرع کی ترتیب الفاظ درست نہیں، روانی متاثر ہے
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ تھا جس پہ ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی
رہا ہوں محتاط ٍدشمنوں سے مگر نہ تھا یاد قولِ صادق
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی

کس کا قول؟ اگر قول یاد نہ تھا تو پھر دشمنوں سے کیسے محتاط رہے؟
سر! حضرت علیّ کا قول ہے۔دشمنوں سے تو محتاط تھا لیکن قول یادنہ ہونے کی وجہ سے جن کا محسن تھا ان کے شر سے محفوظ نہ رہ سکا۔
تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے سفر میں ہیں عمر ساری
ملی وراثت میں جو تھی غربت اسی سے لڑتے رہے لڑائی

یہ بھی قافیہ پیمائی لگ رہی ہے۔ پہلا مصرع روانی چاہتا ہے
تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے مسافر ہیں زندگی بھر
ملی جو قسمت میں تھی غریبی اسی سے لڑتے رہے لڑائی
یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں ساری خوشیاں
یہی تو اعجازِ دل لگی ہے کہ نیند اپنی ہے اب پرائی

بے ربط لگ رہا ہے
اعجاز دل لگی غلط ترکیب ہے۔ دل لگی ہندی ہے
یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں اپنی خوشیاں
یہی تو اعجاز پیار کا ہے کہ نیند اپنی بھی ہے پرائی
کبھی گذرتا نہ جس کا پَل تھا بنا ترے آج بھی ہے زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی

پہلا مصرع رواں نہیں
الفاظ اور ان کی ترتیب بدلیں
کبھی گذرتا نہ پَل تھا جس کا بغیر تیرے ہے آج زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہمیں اذیت پسند محبوب کی محبت یوں راس آئی
زہے مقدر کہ زندگی بھر رہی غموں سے ہی آشنائی
محبت بھی راس... کیا جا سکتا ہے؟
جہاں ستایا ہے دشمنوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
کوئی ترمیم نہیں کی گئی!
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ تھا جس پہ ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی
بھروسہ جس پر تھا... بہتر ٹکڑا تھا
لیکن کیونکہ یہ بھر بھی دو حصوں میں منقسم اچھی لگتی ہے، بلکہ یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ ضرب کاری بھروسے کی صفت بیان کی گئی ہے اسے دور کرنے کے لئے کاما ضروری ہے
اس ٹکڑے کی نثر "جس نے پیٹھ پر ضرب کاری لگائی ہے" ہو گا، لیکن مصرع مجہول بنا ہے
سر! حضرت علیّ کا قول ہے۔دشمنوں سے تو محتاط تھا لیکن قول یادنہ ہونے کی وجہ سے جن کا محسن تھا ان کے شر سے محفوظ نہ رہ سکا۔
شعر سے واضح نہیں ہوتی پوری بات
تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے مسافر ہیں زندگی بھر
ملی جو قسمت میں تھی غریبی اسی سے لڑتے رہے لڑائی
"رہے مسافر ہیں" میں عدم روانی ہے

یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں اپنی خوشیاں
یہی تو اعجاز پیار کا ہے کہ نیند اپنی بھی ہے پرائی
یہی تو اعجاز عشق کا ہے... اعجاز کے ساتھ پیار جیسا ہندی لفظ اچھا نہیں

کبھی گذرتا نہ پَل تھا جس کا بغیر تیرے ہے آج زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی
اب بھی وہی عدم روانی ہے لکہ عجز بیان۔ درست نثر یہ ہوتی
ترے بنا وہ آج بھی زندہ ہے جس کا ایک پل بھی تیرے بنا نہیں گزرتا تھا
نہ کی جگہ نہیں، صرف پل کی بجائے پل بھی
اس طرح کہنے کی کوشش کی جائے
 
سر الف عین صاحب! مزید کوشش کے بعد نظرثانی کی درخواست ہے۔
ہمیں اذیت پسند محبوب کی محبت یوں راس آئی
زہے مقدر کہ زندگی بھر رہی غموں سے ہی آشنائی

محبت بھی راس... کیا جا سکتا ہے؟
آپ کی ہدایت کے مطابق درست کردیا ہے
ہمیں اذیت پسند محبوب کی محبت بھی راس آئی
زہے مقدر کہ زندگی بھر رہی غموں سے ہی آشنائی
جہاں ستایا ہے تلخیوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
کوئی ترمیم نہیں کی گئی!
تلخیوں کو دشمنوں سے بدل دیا ہے۔ دشمنوں سے نفرت میں چوٹ کھائی اور محبوب نے محبت سے لُوٹا۔
جہاں ستایا ہے دشمنوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ تھا جس پہ ضرب کاری اُسی نے ہے پیٹھ پر لگائی

بھروسہ جس پر تھا... بہتر ٹکڑا تھا
لیکن کیونکہ یہ بھر بھی دو حصوں میں منقسم اچھی لگتی ہے، بلکہ یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ ضرب کاری بھروسے کی صفت بیان کی گئی ہے اسے دور کرنے کے لئے کاما ضروری ہے
اس ٹکڑے کی نثر "جس نے پیٹھ پر ضرب کاری لگائی ہے" ہو گا، لیکن مصرع مجہول بنا ہے
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ جس پر تھا ضرب کاری بھی ہے اُسی نے ہمیں لگائی
یا
بھروسہ جس پر تھا ہے اُسی نے ہی ضربِ کاری ہمیں لگائی
یا
بھروسہ تھا جس پہ ہے اُسی نے ہی ضرب کاری ہمیں لگائی
یا
ہمیں بھروسہ تھا جس پہ اُس نے ہے ضرب کاری ہمیں لگا ئی

تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے مسافر ہیں زندگی بھر
ملی جو قسمت میں تھی غریبی اسی سے لڑتے رہے لڑائی

"رہے مسافر ہیں" میں عدم روانی ہے
تلاشِ رزقِ حلال میں ہم رہے سفر میں ہیں زندگی بھر
ملی جو قسمت میں تھی غریبی اسی سے لڑتے رہے لڑائی
یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں اپنی خوشیاں
یہی تو اعجاز پیار کا ہے کہ نیند اپنی بھی ہے پرائی

یہی تو اعجاز عشق کا ہے... اعجاز کے ساتھ پیار جیسا ہندی لفظ اچھا نہیں
آپ کی ہدایت کے مطابق درست کردیا ہے۔
یہ رسمِ الفت ہے دان کرنا کسی کے قدموں میں اپنی خوشیاں
یہی تو اعجاز عشق کا ہے کہ نیند اپنی بھی ہے پرائی
کبھی گذرتا نہ پَل تھا جس کا بغیر تیرے ہے آج زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی

اب بھی وہی عدم روانی ہے لکہ عجز بیان۔ درست نثر یہ ہوتی
ترے بنا وہ آج بھی زندہ ہے جس کا ایک پل بھی تیرے بنا نہیں گزرتا تھا
نہ کی جگہ نہیں، صرف پل کی بجائے پل بھی
اس طرح کہنے کی کوشش کی جائے
نہیں گذرتا تھا پل بھی جس کا وہ تیرے بن آج بھی ہے زندہ
یا
نہیں گذرتا تھا پل بھی جس کا ترے بنا آج بھی ہے زندہ
یہ صبر کا معجزہ ہے ورنہ تو مار دیتی اسے جدائی
 
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ جس پر تھا ضرب کاری بھی ہے اُسی نے ہمیں لگائی

بہتری ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن مکمل اطمینان مجھے اب بھی نہیں ہو رہا۔
سر اگر تھوڑی راہنمائی اور مل جائے تومزید کوشش کرتا ہوں۔
نقابِ چارہ گری پہن کر کیا ہے برباد سنگدل نے
بھروسہ کرتا رہا میں جس پر ہے ضرب اُس نے مجھے لگائی

یا
بھروسہ کرتا رہا میں جس پر یہ ضرب بھی اُس نے ہے لگائی
رہا ہوں محتاط ٍدشمنوں سے مگر نہ تھا یاد قولِ صادق
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی
کس کا قول؟ اگر قول یاد نہ تھا تو پھر دشمنوں سے کیسے محتاط رہے؟
سر! حضرت علیّ کا قول ہے۔دشمنوں سے تو محتاط تھا لیکن قول یادنہ ہونے کی وجہ سے جن کا محسن تھا ان کے شر سے محفوظ نہ رہ سکا۔
شعر سے واضح نہیں ہوتی پوری بات
ڈسا ہے محسن کُشوں نے اُس کو علیؑ کے اس قول کے مطابق
کہ اُن کے شر سے بھی بچ کے رہنا ہو جِن سے تُم کر رہے بھلائی
یا
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی
جہاں ستایا ہے تلخیوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
جہاں ستایا ہے دشمنوں نے وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
کوئی ترمیم نہیں کی گئی!
جہاں رقیبوں نے ہے ستایا وہیں محبت نے غم دیے ہیں
کسی نے محبوب بن کے لُوٹا کسی کی نفرت سے چوٹ کھائی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ڈسا ہے محسن کُشوں نے اُس کو علیؑ کے اس قول کے مطابق
کہ اُن کے شر سے بھی بچ کے رہنا ہو جِن سے تُم کر رہے بھلائی
یا
بچو ہمیشہ ہی اس کے شر سے کرو کسی سے اگر بھلائی
خورشید بھائی، آپ کی سنجیدگی سے خوف آتا ہے اس لیے ڈر ڈر کر ایک عاجزانہ مشورہ دے رہا ہوں اگر ناگوارِ خاطر ہو تو اسے سنجیدہ مت لیجیے گا۔ 🙂

کبھی کسی سے نہ دھوکا کھاتا جو یاد ہوتا یہ قولِ حیدر
تم اس کے شر سے بچو ہمیشہ ، کرو کسی سے اگر بھلائی

نوٹ: ابھی میں نے کچھ تحیق کی تو پتا چلا کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کے نزدیک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس سے کچھ کچھ ملتا جلتا قول نہجہ البلاغہ میں ضرور ہے لیکن مضمون کا فرق ہے۔ اس لیے ایک اور مشورہ ہے اس شعر کو غزل میں رکھنے کے لیے۔

کبھی کسی سے نہ دھوکا کھاتا جو ناصحوں کی یہ بات سنتا
کہ اس کے شر سے بچو ہمیشہ کرو کسی سے اگر بھلائی
 
خورشید بھائی، آپ کی سنجیدگی سے خوف آتا ہے اس لیے ڈر ڈر کر ایک عاجزانہ مشورہ دے رہا ہوں اگر ناگوارِ خاطر ہو تو اسے سنجیدہ مت لیجیے گا۔ 🙂

کبھی کسی سے نہ دھوکا کھاتا جو یاد ہوتا یہ قولِ حیدر
تم اس کے شر سے بچو ہمیشہ ، کرو کسی سے اگر بھلائی

نوٹ: ابھی میں نے کچھ تحیق کی تو پتا چلا کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کے نزدیک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس سے کچھ کچھ ملتا جلتا قول نہجہ البلاغہ میں ضرور ہے لیکن مضمون کا فرق ہے۔ اس لیے ایک اور مشورہ ہے اس شعر کو غزل میں رکھنے کے لیے۔

کبھی کسی سے نہ دھوکا کھاتا جو ناصحوں کی یہ بات سنتا
کہ اس کے شر سے بچو ہمیشہ کرو کسی سے اگر بھلائی
بھائی عبدالرؤوف صاحب آپ میرے بہی خواہوں میں سے ہیں ۔آپ کے ڈرنے والی بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ بہرکیف قول کی سند پر میں بحث کرنے سے قاصر ہوں۔ اور اس بحث میں پڑنے کی بجائے کچھ آپ کا مشورہ مان کر اور کچھ اپنی تبدیلی کے بعد

ڈسا ہے مُحسن کشوں نے تو اُس کو یاد آیا یہ قولِ صادق
کہ اس کے شر سے بچو ہمیشہ کرو کسی سے اگر بھلائی
 
Top