غزل (2023-09-15)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
ہم سے پہلے ہیں ہمارے جہاں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہی ہم ہیں وہاں جانے گئے

ان کی فطرت میں ہے جلنا تو وہ جل جائیں گے
شمع جلتے ہی جو مرنے کو ہیں پروانے گئے

دل کے زخموں کو چھُپا کر واں تھرکتے ہیں بدن
ٹوٹتے دل کو لیے ہم جہاں بہلانے گئے

جن کی آنکھوں میں خیالوں میں دلوں میں تُو ہے
تیری محفل سے نکالے ہیں وہ دیوانے گئے

سُن کے اُس رند سے در اصل ہے کیا گمراہی
پانی پانی ہوئے جو رند کو سمجھانے گئے

جو ترستے رہے فرحت کے لیے زندگی بھر
آج خوش ہوکے وہ اوروں کو ہیں ترسانے گئے


وہ ہے پردیس میں خورشید کی میت کہ جسے
کاندھا دیتے ہوئے دفنانے ہیں بیگانے گئے
 

عظیم

محفلین
ہم سے پہلے ہیں ہمارے جہاں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہی ہم ہیں وہاں جانے گئے
// مجھے پہلے مصرع میں 'ہیں' کی نشست اور جہاں کی تقطیع ج ہ ہونا خوب نہیں لگ رہا
ہم سے پہلے جو ہمارے کہیں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہم لوگ وہاں جانے گئے
بہتر صورت ہو سکتی ہے

ان کی فطرت میں ہے جلنا تو وہ جل جائیں گے
شمع جلتے ہی جو مرنے کو ہیں پروانے گئے
// پہلے مصرع میں 'تو وہ جل جائیں' کے ٹکڑا کی جگہ کوئی بہتر بات لائی جائے تو مصرع میں جان پڑ سکتی ہے، مثلاً
جن کی فطرت میں ہے جلنا وہ جلیں گے آخر
محض مثال کے طور پر ہے
دوسرے میں 'جو مرنے' میں مرنے کی جگہ جلنا مناسب ہے، مگر 'جو جلنا' میں تنافر کی وجہ سے شاید آپ 'مرنا' لائے ہوں
شمع جلتے ہی جو اس سمت کو پروانے..
کے بارے میں کیا خیال ہے؟

دل کے زخموں کو چھُپا کر واں تھرکتے ہیں بدن
ٹوٹتے دل کو لیے ہم جہاں بہلانے گئے
///واں کی جگہ کسی طرح وہاں مکمل لے آئیں، جو ان الفاظ کے ساتھ مشکل ہی لگ رہا ہے
دوسرے میں بھی ٹوٹتے کی جگہ ٹوٹے کا محل معلوم ہوتا ہے، غمزدہ دل ہو تو بہلانے کے ساتھ بھی ربط اچھا بن جائے گا
مفہوم کو بھی کچھ واضح کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پہلے مصرع میں

جن کی آنکھوں میں خیالوں میں دلوں میں تُو ہے
تیری محفل سے نکالے ہیں وہ دیوانے گئے
/// یہاں بھی 'ہیں' کی نشست کچھ اچھی نہیں لگ رہی
پہلے میں 'تو تھا' کی ضرورت محسوس ہوتی ہے
'ہیں وہ' کی جگہ ' وہی' لائیں تو کیسا رہے؟

سُن کے اُس رند سے در اصل ہے کیا گمراہی
پانی پانی ہوئے جو رند کو سمجھانے گئے
/// دونوں مصرعوں میں سے کسی ایک میں سے 'رند' نکالا جائے تو بہت خوب ہو

جو ترستے رہے فرحت کے لیے زندگی بھر
آج خوش ہوکے وہ اوروں کو ہیں ترسانے گئے
///' آج خوش ہیں تو وہ دنیا کو ہی ترسانے گئے
لیکن ترسانے خوشی کے لیے ہی گئے ہیں یہ مجھے واضح نہیں لگ رہا

وہ ہے پردیس میں خورشید کی میت کہ جسے
کاندھا دیتے ہوئے دفنانے ہیں بیگانے گئے
///ٹھیک
 
ہم سے پہلے ہیں ہمارے جہاں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہی ہم ہیں وہاں جانے گئے
// مجھے پہلے مصرع میں 'ہیں' کی نشست اور جہاں کی تقطیع ج ہ ہونا خوب نہیں لگ رہا
ہم سے پہلے جو ہمارے کہیں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہم لوگ وہاں جانے گئے
بہتر صورت ہو سکتی ہے

ان کی فطرت میں ہے جلنا تو وہ جل جائیں گے
شمع جلتے ہی جو مرنے کو ہیں پروانے گئے
// پہلے مصرع میں 'تو وہ جل جائیں' کے ٹکڑا کی جگہ کوئی بہتر بات لائی جائے تو مصرع میں جان پڑ سکتی ہے، مثلاً
جن کی فطرت میں ہے جلنا وہ جلیں گے آخر
محض مثال کے طور پر ہے
دوسرے میں 'جو مرنے' میں مرنے کی جگہ جلنا مناسب ہے، مگر 'جو جلنا' میں تنافر کی وجہ سے شاید آپ 'مرنا' لائے ہوں
شمع جلتے ہی جو اس سمت کو پروانے..
کے بارے میں کیا خیال ہے؟

دل کے زخموں کو چھُپا کر واں تھرکتے ہیں بدن
ٹوٹتے دل کو لیے ہم جہاں بہلانے گئے
///واں کی جگہ کسی طرح وہاں مکمل لے آئیں، جو ان الفاظ کے ساتھ مشکل ہی لگ رہا ہے
دوسرے میں بھی ٹوٹتے کی جگہ ٹوٹے کا محل معلوم ہوتا ہے، غمزدہ دل ہو تو بہلانے کے ساتھ بھی ربط اچھا بن جائے گا
مفہوم کو بھی کچھ واضح کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پہلے مصرع میں

جن کی آنکھوں میں خیالوں میں دلوں میں تُو ہے
تیری محفل سے نکالے ہیں وہ دیوانے گئے
/// یہاں بھی 'ہیں' کی نشست کچھ اچھی نہیں لگ رہی
پہلے میں 'تو تھا' کی ضرورت محسوس ہوتی ہے
'ہیں وہ' کی جگہ ' وہی' لائیں تو کیسا رہے؟

سُن کے اُس رند سے در اصل ہے کیا گمراہی
پانی پانی ہوئے جو رند کو سمجھانے گئے
/// دونوں مصرعوں میں سے کسی ایک میں سے 'رند' نکالا جائے تو بہت خوب ہو

جو ترستے رہے فرحت کے لیے زندگی بھر
آج خوش ہوکے وہ اوروں کو ہیں ترسانے گئے
///' آج خوش ہیں تو وہ دنیا کو ہی ترسانے گئے
لیکن ترسانے خوشی کے لیے ہی گئے ہیں یہ مجھے واضح نہیں لگ رہا

وہ ہے پردیس میں خورشید کی میت کہ جسے
کاندھا دیتے ہوئے دفنانے ہیں بیگانے گئے
///ٹھیک
محترم عظیم صاحب!
آپ کا شکریہ اتنے اچھے مشوروں پر جن پر عمل کرتے ہوئے غزل دوبارہ آپ کی رائے کےلیے حاضر ہے۔

ہم سے پہلے جو ہمارے کہیں افسانے گئے
غیر کی شرح سے ہم لوگ وہاں جانے گئے
ان کی فطرت میں ہے جلنا وہ جلیں گے آخر
شمع جلتے ہی جو اُڑتے ہوئے پروانے گئے
غم چھُپا کر بھی وہاں لَے پہ تھرکتے ہیں بدن
غمزدہ دل کو لیے ہم جہاں بہلانے گئے
جن کی آنکھوں میں خیالوں میں دلوں میں تُو تھا
تیری محفل سے نکالے وہی دیوانے گئے
سُن کے اُس رند سے در اصل ہے کیا گمراہی
پانی پانی ہوئے جو اُس کو تھے سمجھانے گئے
شادمانی کو ترستے ہوئے جب شاد ہوئے
اپنی خوشیوں سے وہ دلگیروں کو ترسانے گئے
یا
پھر وہ دلگیروں کو خوشیوں سے تھے ترسانے گئے
وہ ہے پردیس میں خورشید کی میت کہ جسے
کاندھا دیتے ہوئے دفنانے ہیں بیگانے گئے
 
ترسانے والے شعر میں پہلا متبادل ہی بہتر ہے، لیکن یہ شعر نکالا بھی جا سکتا ہے
شادمانی کو ترستے ہوئے جب شاد ہوئے
اپنی خوشیوں سے وہ دل گیروں کو ترسانے گئے
استادِ محترم الف عین صاحب! متبادل یہ شعر سوچا ہے۔
آزمائش کی گھڑی کا ہے نتیجہ یہ ملا
غیر تو غیر ہیں اپنے بھی ہیں پہچانے گئے
 
Top