غزل (2023-08-05)

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اگرچہ شاعری سے ہمارا دور دور کا واسطہ نہیں کہ اشعار تو بنا پر کے اڑتے ہوئے ہمارے سر کےاوپر سے گزر جاتے ہیں۔ مگر اس لڑی کو ہم نے ایک ایک لفظ بغور پڑھا۔ علم کے خزانے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بحث کا ماحول، ذرا سی ڈھکی چھپی تلخی، ہلکی ہلکی مٹھاس تو موجود ہے ہی۔مگر وافر مقدار میں جو چیز دیکھنے کو ملی وہ ہے صبر۔
کتنا صبر سے کام لیا کرتے ہیں شاعر لوگ۔ اردو محفل کی قسم ، ہمیں اندازہ ہی نہ تھا کبھی۔ واقعی میں خونِ جگر سے تخلیق پاتی ہیں غزلیں، نظمیں۔ ہم تو ایک آدھ سوٹ سی کر ، کوئی سویٹر بن کر، چند کاغذی پھول بنا کر سمجھتے ہیں کہ کتنا آنکھوں کا نور لگا دیا۔ مگر شاعر حضرات تو ایک ایک لفظ موتیوں جیسا پروتے ہیں لڑی میں، تب جا کر ایک غزل تشکیل پاتی ہے۔
سلام ہے تمام شاعر و شاعرہ لوگوں پر۔ کمال کے لوگ ہیں آپ ماشاءاللہ۔
تعریف کرنا لازم ہو گیا تھا حوصلہ مندی کی۔ کئے بنا رہ نہ پائے۔
بہت خوش رہئیے۔ سلامت رہئیے۔
 

ارشد رشید

محفلین
خورشید صاحب یہ تو بہت عجیب بات کی آپ نے لغت میں تو آپ کو ہر وہ لفظ ملے گا جو زبان میں شامل ہے - اس کا یہ مطلب کب ہؤا کہ وہ عام بول چال یا ادب میں استعمال ہوتا ہو ؟
لغت میں صاحب کی جناب میں ایک لفظ آتا ہے صحابت جسکا مطلب ہے دوستی رفاقت - مگر کیا ہم اردو میں یہ کہتے ہیں کہ میری اس شخص سے بچپن سے صاحبت ہے - نہیں کہتے نا -
کیوں نہیں کہتے ؟ اس لیے نہیں کہتے کہ اس تعلق کے لیے اردو میں دوستی کا لفظ در آیا - صحابت لفظ نہیں آیا - یہ صحیح بھی ہے - لغت میں بھی ہے - اور بقول آپ کے لغت کی ضخامت میں بھی اضافہ کر رہا ہے اور تو اور یہ اچھا بھی ہے مگر آُپ کو کبھی کسی شاعر کے ہاں نہیں ملے گا - آپ کے کلیے کے مطابق آپ اس کو بھی شعر میں لے آئیں - لے آئیں مگر شعر گرامر کے حساب سے صحیح ہونے کے بعد بھی ناقص شمار ہوگا - غرابتِ زبان سمجھا جائے گا- وجہ وہی ہے جو اوپر عبدالرؤف صاحب نے بیان کی ہے -

اب یہاں یہی قاعدہ ہے آپ اسکو بدلنا چاہ رہے ہیں تو ضرور کریں مگر پہلے اپنا ادب میں مقام بنائیں تاکہ آپ کی بات سنی جائے - لوگ آپ کی بات مان لیں کہ اس شخص کی زبان پر گرفت اتنی ہے کہ یہ جانتا ہے دوستی لفظ سے وہ بات ادا نہیں ہو سکتی بلکہ جو یہاں کہا جا رہا ہے وہ صرف صحابت سے ہی ادا ہوگا-

جب تک ایسے مقام پہ نہیں پہنچتے عقل کا تقاضہ ہے کہ اس طرزِ عمل سے گریز کرنا چاہیے -
 
خورشید بھائی، شاعری میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں سخن کا عیب گردانا جاتا ہے۔ "غرابت" کو بھی کلام کا ایک عیب مانا گیا ہے۔ غرابت ایسے غیر مانوس الفاظ کے استعمال کو کہتے ہیں جن کے معنی لغت دیکھے بغیر معلوم ہی نہ ہو سکیں۔
محترم بھائی عبدالرووف صاحب! اگر یہ بات بھی ہے تو پھر کون ایسے الفاظ کی فہرست مرتب کرے گا جوغرابت کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ کے کلام میں ایسے الفاظ ہوں گے جو مجھے لغت دیکھے بغیر سمجھ نہیں آئیں گے لیکن کسی اور کے لیے وہ مانوس ہوں گے۔ اب میں کہوں کہ یہ عیب ہے تو پھر ہر طرف عیب ہی عیب نظر آئیں گے۔آپ معنوی اعتبار سے تو بحث کرسکتے ہیں کہ یہ لفظ غلط استعمال کیا گیا ہے۔یا یہ کہ اس کا نعم البدل کوئی اورزیادہ مانوس لفظ موجود تھا جو استعمال ہوسکتا تھا اور وہ نہیں کیا گیا۔لیکن صرف اس لیے کہ اس لفظ کے معنی دیکھنے کے لیے مجھے لغت دیکھنی پڑی اس لیے اس کا استعمال عیب ہے۔ یہ کچھ عجیب منطق لگتی ہے۔
 
خورشید صاحب یہ تو بہت عجیب بات کی آپ نے لغت میں تو آپ کو ہر وہ لفظ ملے گا جو زبان میں شامل ہے - اس کا یہ مطلب کب ہؤا کہ وہ عام بول چال یا ادب میں استعمال ہوتا ہو ؟
لغت میں صاحب کی جناب میں ایک لفظ آتا ہے صحابت جسکا مطلب ہے دوستی رفاقت - مگر کیا ہم اردو میں یہ کہتے ہیں کہ میری اس شخص سے بچپن سے صاحبت ہے - نہیں کہتے نا -
کیوں نہیں کہتے ؟ اس لیے نہیں کہتے کہ اس تعلق کے لیے اردو میں دوستی کا لفظ در آیا - صحابت لفظ نہیں آیا - یہ صحیح بھی ہے - لغت میں بھی ہے - اور بقول آپ کے لغت کی ضخامت میں بھی اضافہ کر رہا ہے اور تو اور یہ اچھا بھی ہے مگر آُپ کو کبھی کسی شاعر کے ہاں نہیں ملے گا - آپ کے کلیے کے مطابق آپ اس کو بھی شعر میں لے آئیں - لے آئیں مگر شعر گرامر کے حساب سے صحیح ہونے کے بعد بھی ناقص شمار ہوگا - غرابتِ زبان سمجھا جائے گا- وجہ وہی ہے جو اوپر عبدالرؤف صاحب نے بیان کی ہے -

اب یہاں یہی قاعدہ ہے آپ اسکو بدلنا چاہ رہے ہیں تو ضرور کریں مگر پہلے اپنا ادب میں مقام بنائیں تاکہ آپ کی بات سنی جائے - لوگ آپ کی بات مان لیں کہ اس شخص کی زبان پر گرفت اتنی ہے کہ یہ جانتا ہے دوستی لفظ سے وہ بات ادا نہیں ہو سکتی بلکہ جو یہاں کہا جا رہا ہے وہ صرف صحابت سے ہی ادا ہوگا-

جب تک ایسے مقام پہ نہیں پہنچتے عقل کا تقاضہ ہے کہ اس طرزِ عمل سے گریز کرنا چاہیے -
محترم ارشد رشید صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ دوبارہ متوجہ ہوئے۔
سر!میں صرف اصول سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ
1- کون سے الفاظ غرابت کے زمرے میں آتے ہیں؟ (کیا اس کے لیے سارا اردو ادب ازبر کرنا ہوگا؟)
2- کون ایسے الفاظ کی فہرست بنائے گا جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی؟ کیونکہ ہر بندے کی فہرست مختلف ہوگی۔
3-آج کون اس مقام پر ہے کہ وہ جو لفظ استعمال کرے گا اس کو صحیح سمجھا جائے گا؟ کیونکہ ہرپوسٹ کئے گئے کلام پر کھلی بحث کی جاتی ہے توہر قسم کے عیب نکلتے ہیں۔(مثالیں بہت ہیں)
4- اس کا ایک حل ہوسکتا ہے کہ کسی ایک ہستی کو استاد کا درجہ دے دیاجائے اور پھر ان کی رائے کا سب احترام کریں۔ (کیونکہ آپ خود کبھی کسی سے اتفاق نہیں کرتے اور کسی کی اصلاح کو نہیں مانتے۔ یہ طنز نہیں ہے بلکہ سنجیدہ بات ہے۔)
 
اگرچہ شاعری سے ہمارا دور دور کا واسطہ نہیں کہ اشعار تو بنا پر کے اڑتے ہوئے ہمارے سر کےاوپر سے گزر جاتے ہیں۔ مگر اس لڑی کو ہم نے ایک ایک لفظ بغور پڑھا۔ علم کے خزانے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بحث کا ماحول، ذرا سی ڈھکی چھپی تلخی، ہلکی ہلکی مٹھاس تو موجود ہے ہی۔مگر وافر مقدار میں جو چیز دیکھنے کو ملی وہ ہے صبر۔
کتنا صبر سے کام لیا کرتے ہیں شاعر لوگ۔ اردو محفل کی قسم ، ہمیں اندازہ ہی نہ تھا کبھی۔ واقعی میں خونِ جگر سے تخلیق پاتی ہیں غزلیں، نظمیں۔ ہم تو ایک آدھ سوٹ سی کر ، کوئی سویٹر بن کر، چند کاغذی پھول بنا کر سمجھتے ہیں کہ کتنا آنکھوں کا نور لگا دیا۔ مگر شاعر حضرات تو ایک ایک لفظ موتیوں جیسا پروتے ہیں لڑی میں، تب جا کر ایک غزل تشکیل پاتی ہے۔
سلام ہے تمام شاعر و شاعرہ لوگوں پر۔ کمال کے لوگ ہیں آپ ماشاءاللہ۔
تعریف کرنا لازم ہو گیا تھا حوصلہ مندی کی۔ کئے بنا رہ نہ پائے۔
بہت خوش رہئیے۔ سلامت رہئیے۔
محترمہ!سب کی (جن میں یقین ہے کہ میں بھی شامل ہوں)تعریف کرنے کا شکریہ۔ کوئی بھی تخلیقی کام کرنا ہو چاہے وہ سلائی کڑھائی کرناہو، سویٹر کا ڈیزائن بنانا ہو یا کاغذ کے پھول بنانے ہوں ۔خونِ جگر مانگتے ہیں۔ اور ہر تخلیق کار کو ایک جیسے مراحل سے ہی گذرنا پڑتا ہے۔
اگر بحث ایمانداری سے اور دلیل کی بنیاد پرکی جائے گی (ذہن کھلا رکھ کے کہ کہیں سےبھی کچھ ملتا ہے توخوشی سے قبول کرو) تو تلخی کی نوبت نہیں آتی اور بحث علمی دائرے میں رہتی ہے۔ شاید اس کے لیے صبرکرنے کی نوبت بھی کم ہی آتی ہے۔اور میں سمجھتا ہوعلمی ماحول کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم بھائی عبدالرووف صاحب! اگر یہ بات بھی ہے تو پھر کون ایسے الفاظ کی فہرست مرتب کرے گا جوغرابت کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ کے کلام میں ایسے الفاظ ہوں گے جو مجھے لغت دیکھے بغیر سمجھ نہیں آئیں گے لیکن کسی اور کے لیے وہ مانوس ہوں گے۔ اب میں کہوں کہ یہ عیب ہے تو پھر ہر طرف عیب ہی عیب نظر آئیں گے۔آپ معنوی اعتبار سے تو بحث کرسکتے ہیں کہ یہ لفظ غلط استعمال کیا گیا ہے۔یا یہ کہ اس کا نعم البدل کوئی اورزیادہ مانوس لفظ موجود تھا جو استعمال ہوسکتا تھا اور وہ نہیں کیا گیا۔لیکن صرف اس لیے کہ اس لفظ کے معنی دیکھنے کے لیے مجھے لغت دیکھنی پڑی اس لیے اس کا استعمال عیب ہے۔ یہ کچھ عجیب منطق لگتی ہے۔
جب ہم اپنا مدعا کسی کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ انتہائی سہل انداز اور ترتیب سے کریں تو ہی سامنے والا توجہ سے سنتا ہے۔
اور کوشش کرتے ہیں کہ بات شروع بھی اس انداز سے کریں کہ پہلے لفظ سے سننے والے کی توجہ حاصل کر لیں۔ یہ سب چیزیں شاعری پر بھی ویسا ہی اثر رکھتی ہیں جیسے کہ کسی جو اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے۔ کیونکہ شعر کہہ کر بیاض میں لکھ کر محفوظ کرنے کے لیے تو نہیں ہوتا۔
اب اس بات کے بعد آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مشکل اور آسان الفاظ کس طرح استعمال کیے جائیں۔
اور جہاں تک بات ہے بڑے شعراء کی تو ان کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ وہ اس قدر اپنے آپ کو منوا چکے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے مشکل الفاظ کے معنی ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ اسی لڑی میں دیکھ سکتے ہیں کہ استاد صاحب بھی کسی لفظ کے متعلق فرما رہے تھے کہ انہیں معنی جاننے کے لیے لغت دیکھنی پڑی۔
 
جب ہم اپنا مدعا کسی کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ انتہائی سہل انداز اور ترتیب سے کریں تو ہی سامنے والا توجہ سے سنتا ہے۔
اور کوشش کرتے ہیں کہ بات شروع بھی اس انداز سے کریں کہ پہلے لفظ سے سننے والے کی توجہ حاصل کر لیں۔ یہ سب چیزیں شاعری پر بھی ویسا ہی اثر رکھتی ہیں جیسے کہ کسی جو اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے۔ کیونکہ شعر کہہ کر بیاض میں لکھ کر محفوظ کرنے کے لیے تو نہیں ہوتا۔
اب اس بات کے بعد آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مشکل اور آسان الفاظ کس طرح استعمال کیے جائیں۔
اور جہاں تک بات ہے بڑے شعراء کی تو ان کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ وہ اس قدر اپنے آپ کو منوا چکے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے مشکل الفاظ کے معنی ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ اسی لڑی میں دیکھ سکتے ہیں کہ استاد صاحب بھی کسی لفظ کے متعلق فرما رہے تھے کہ انہیں معنی جاننے کے لیے لغت دیکھنی پڑی۔
بھائی صاحب ! میں یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے کلام کو سمجھنے کے لیے اگر مجھے لغت دیکھنی پڑے(بعض اوقات ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن میں اسے ایسے لیتا ہوں کہ میرے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوگیاہے) تو کیا میں اسے آپ کے کلام کا عیب کہوں؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی صاحب ! میں یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے کلام کو سمجھنے کے لیے اگر مجھے لغت دیکھنی پڑے(بعض اوقات ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن میں اسے ایسے لیتا ہوں کہ میرے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوگیاہے) تو کیا میں اسے آپ کے کلام کا عیب کہوں؟
میں یا آپ کسی لفظ کا مطلب نہ جانتے ہوں تو اسے مطالعے کی کمی ہی کہیں گے کیونکہ تاحال تو ہم سیکھ رہے ہیں۔
میں نے استاد صاحب کی مثال دی، اگر اساتذہ کو بھی معنی دیکھنے کی ضرورت پڑ جائے تو پھر تو اسے غرابت ہی کہا جائے گا۔
 
میں یا آپ کسی لفظ کا مطلب نہ جانتے ہوں تو اسے مطالعے کی کمی ہی کہیں گے کیونکہ تاحال تو ہم سیکھ رہے ہیں۔
میں نے استاد صاحب کی مثال دی، اگر اساتذہ کو بھی معنی دیکھنے کی ضرورت پڑ جائے تو پھر تو اسے غرابت ہی کہا جائے گا۔
انہوں نے صرف ایک لفظ کا کہا تھا ساری غزل کا نہیں۔اور میں نے کوئی بحث بھی نہیں کی تھی ان کے ساتھ۔
 

ارشد رشید

محفلین
محترم ارشد رشید صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ دوبارہ متوجہ ہوئے۔
سر!میں صرف اصول سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ
1- کون سے الفاظ غرابت کے زمرے میں آتے ہیں؟ (کیا اس کے لیے سارا اردو ادب ازبر کرنا ہوگا؟)
2- کون ایسے الفاظ کی فہرست بنائے گا جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی؟ کیونکہ ہر بندے کی فہرست مختلف ہوگی۔
3-آج کون اس مقام پر ہے کہ وہ جو لفظ استعمال کرے گا اس کو صحیح سمجھا جائے گا؟ کیونکہ ہرپوسٹ کئے گئے کلام پر کھلی بحث کی جاتی ہے توہر قسم کے عیب نکلتے ہیں۔(مثالیں بہت ہیں)
4- اس کا ایک حل ہوسکتا ہے کہ کسی ایک ہستی کو استاد کا درجہ دے دیاجائے اور پھر ان کی رائے کا سب احترام کریں۔ (کیونکہ آپ خود کبھی کسی سے اتفاق نہیں کرتے اور کسی کی اصلاح کو نہیں مانتے۔ یہ طنز نہیں ہے بلکہ سنجیدہ بات ہے۔)
1- کون سے الفاظ غرابت کے زمرے میں آتے ہیں؟ (کیا اس کے لیے سارا اردو ادب ازبر کرنا ہوگا؟)
2- کون ایسے الفاظ کی فہرست بنائے گا جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی؟ کیونکہ ہر بندے کی فہرست مختلف ہوگی۔

خورشید صاحب سے سے پہلے تو آپ اس دورِ انکاری سے نکل آئیں تو آپ کو چیزیں صاف نظر آنے لگیں گی - میں نے ایک دفعہ آپ کو لکھا تھا کہ جو پڑھتا نہیں اسے لکھنے کا بھی حق نہیں - اسی میں آپ کی ان باتوں کا جواب ہے - جب کسی کا مطالعہ وسیع ہوتا ہے چاہے نظم ہو یا نثر اس کو پتہ چلتا رہتا ہے کہ کونسا لفظ مروج ہے، کس لفظ کا استعمال کس طرح کرنا ہے - کون لفظ عام فہم ہےکون خاص فہم - یہی ایک لکھاری کا سرمایہ ہوتا ہے - آپ بس اپنا مطالعہ وسیع کرتے جائیں آپ کو خود بخود ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے - نہ تو کوئ یہ بات آپ کو سکھا سکتا ہے نہ ہی اس کی کوئ کتاب ہوتی ہے - ہاں کوئ آپ کو بتا ضرور سکتا ہے جب آپ کسی لفظ کا غلط استعمال کریں -
آپ کو یہ بات صحیح لگے تو عمل کیجیئے اس سے زیادہ میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے -

3-آج کون اس مقام پر ہے کہ وہ جو لفظ استعمال کرے گا اس کو صحیح سمجھا جائے گا؟ کیونکہ ہرپوسٹ کئے گئے کلام پر کھلی بحث کی جاتی ہے توہر قسم کے عیب نکلتے ہیں۔(مثالیں بہت ہیں)
4- اس کا ایک حل ہوسکتا ہے کہ کسی ایک ہستی کو استاد کا درجہ دے دیاجائے اور پھر ان کی رائے کا سب احترام کریں۔ (کیونکہ آپ خود کبھی کسی سے اتفاق نہیں کرتے اور کسی کی اصلاح کو نہیں مانتے۔ یہ طنز نہیں ہے بلکہ سنجیدہ بات ہے۔)
حضرت - آج زبان جس مقام پر ہے آپ کو اس کا مکمل ماہر کم کم ملے گا- جہاں جہاں سے کچھ ملتا جائے لیتے جائیں - یہ زمانہ ویسے بھی استادی شاگردی کا رہا نہیں ہے -
آپ کسی ایک ہستی کو اس مقام پہ فائز نہیں کر سکتے - اس لیئے ہر اچھے لکھنے والے کو پڑھیں - یاد رکھیں اس گروپ میں تو کوئی بھی زبان کے اس اعلٰی معیار پہ نہیں ہے کہ جسے آپ کہیں کہ یہ استاد ہے - ہاں اس میں اگر افتخار عارف ہوتے ، انور مسعود ہوتے یا شمس الرحمٰن فاروقی ہوتے تو ان کی بات معتبر ہوتی - مگر ان کا بھی مقام آپ غالب یا اقبال کے برابر نہیں کر سکتے - لہٰذا یاد رکھیں کہ رائے کا احترام اور بات ہے رائے سے متفق ہونا اور بات ہے -

ایک بات اور بھی یاد رکھیں - شاعری حساب کا عمل تو ہے نہیں کہ ایک +ایک کا جواب دو ہی آئے - کس کی بات زیادہ بہتر ہے یہ فیصلہ تو وقت ہی کرتا ہے آپ بس جس سے جو سیکھ سکیں سیکھتے جائیں -

اور آخر میں چونکہ آپ نے میری ذاتی بات کی ہے کہ میں کبھی کسی کی اصلاح نہیں مانتا - تو ایسا نہیں ہے میری پاس محض یہی گروپ نہیں ہے شعرا کا اور بھی ماہرینِ لسانیات سے میرا رابطہ ہے اور میں ان سے اصلاح بھی لیتا ہوں - یہاں اگر میرے کلام پہ کوئ تکنیکی اعتراض ہو کہ وزن نہیں ہے اردو غلط ہے - زبان و بیاں کا مسئلہ ہے تو میں ضرور اس کو درست کروں گا - یہاں اعتراض ہوتے ہیں کہ یہ بات یوں کیوں کہی اسے یوں کہنا چاہیئے تھا - تیری کے بجائے میری کہنا چاہیئے تھا- وغیرہ وغیرہ تو یہ مسئلے نہیں ہیں یہ اندازِ بیان ہے اور ظاہر میں میرا اپنا اندازِ بیان ہوگا اور کسی دوسرے کا اور ہوگا - تو اس سے میں اتفاق نہیں کرتا -

باقی سر میں کسی کے کلام پہ جب کو ئ عیب ِسخن کی طرف اشارہ کرتا ہوں یا پھر اپنے نزدیک اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے کتنے نفل کا ثواب ہوتا ہے ؟
بس یہ میرا شاعری سے جنون ہے جو ایسا کرواتا ہے - میں نے تو کبھی خود کو استاد نہیں کہا اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں -
 

الف عین

لائبریرین
غرابت کی تعریف کرنی تو مشکل ہے، لیکن اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سارے الفاظ جو عموماً شاعری میں استعمال نہیں کئے گئے ہوں اور اگر کسی نے کیے بھی ہوں تو وہ عوام میں مقبول نہ ہو سکے ہوں۔ مجھے تو اقبال کی زبان میں بھی غرابت محسوس ہوتی ہے اسی لئے مجھے اقبال اتنے اپیل نہیں کرتے۔ غالب کے بھی وہی اشعار مشہور ہیں جن کی زبان سادہ ہے، ان کی مشکل پسندی کے دور کے اشعار میں تخئیل کی بلندی کا تب ہی احساس ہو گا جب آپ کو ہر لفظ کے معنی پہلے سے معلوم ہوں گے۔ اردو عربی فارسی سے ہی بنی ہے، اس حقیقت کے باوجود اکثر الفاظ کے اردو میں وہ معنی نہیں لیے جاتے جو عربی فارسی میں ہیں۔ اب اسی لفظ غریب کو دیکھ لیں! اسے کسی "بے ادب" کے سامنے بولا جائے تو وہ اس کے معنی صرف مفلس کے ہی لے گا! اسی لئے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ زبان جہاں تک ممکن ہو، سادہ استعمال کی جائے۔ عام اور کم علم لوگوں پر اپنے علم کا مظاہرہ کرنا رعب جمانا ہی کہا جا سکتا ہے، اس سے پرہیز ضروری سمجھتا ہوں میں۔
 
غرابت کی تعریف کرنی تو مشکل ہے، لیکن اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سارے الفاظ جو عموماً شاعری میں استعمال نہیں کئے گئے ہوں اور اگر کسی نے کیے بھی ہوں تو وہ عوام میں مقبول نہ ہو سکے ہوں۔ مجھے تو اقبال کی زبان میں بھی غرابت محسوس ہوتی ہے اسی لئے مجھے اقبال اتنے اپیل نہیں کرتے۔ غالب کے بھی وہی اشعار مشہور ہیں جن کی زبان سادہ ہے، ان کی مشکل پسندی کے دور کے اشعار میں تخئیل کی بلندی کا تب ہی احساس ہو گا جب آپ کو ہر لفظ کے معنی پہلے سے معلوم ہوں گے۔ اردو عربی فارسی سے ہی بنی ہے، اس حقیقت کے باوجود اکثر الفاظ کے اردو میں وہ معنی نہیں لیے جاتے جو عربی فارسی میں ہیں۔ اب اسی لفظ غریب کو دیکھ لیں! اسے کسی "بے ادب" کے سامنے بولا جائے تو وہ اس کے معنی صرف مفلس کے ہی لے گا! اسی لئے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ زبان جہاں تک ممکن ہو، سادہ استعمال کی جائے۔ عام اور کم علم لوگوں پر اپنے علم کا مظاہرہ کرنا رعب جمانا ہی کہا جا سکتا ہے، اس سے پرہیز ضروری سمجھتا ہوں میں۔
سر الف عین صاحب!آپ کی ساری باتیں میرے لیے راہنما اصول ہیں۔ صرف ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ اگر راہنمائی فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔
کسی اردو کے لفظ جس کا ماخذ عربی یا فارسی ہے، اس کے معنی اگر فارسی یا عربی لغت سے لیے جائیں تو وہ اس زبان کے مستعمل معنی شمار ہونگے۔ لیکن اگر اس کے معنی اردو لغت سے لیے جائیں اور وہاں یہ بھی نہ لکھا ہو کہ فلاں زبان میں اس کے یہ معنی ہیں اور دسری میں یہ۔ تو پھر وہ معنی کیا اردو زبان کے ہی شمار ہونگے اور اردو میں مستعمل سمجھے جائیں گے؟ یا اس کے لیے کسی استاد سے راہنمائی لینا لازم ہوگی۔
 
1- کون سے الفاظ غرابت کے زمرے میں آتے ہیں؟ (کیا اس کے لیے سارا اردو ادب ازبر کرنا ہوگا؟)
2- کون ایسے الفاظ کی فہرست بنائے گا جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی؟ کیونکہ ہر بندے کی فہرست مختلف ہوگی۔

خورشید صاحب سے سے پہلے تو آپ اس دورِ انکاری سے نکل آئیں تو آپ کو چیزیں صاف نظر آنے لگیں گی - میں نے ایک دفعہ آپ کو لکھا تھا کہ جو پڑھتا نہیں اسے لکھنے کا بھی حق نہیں - اسی میں آپ کی ان باتوں کا جواب ہے - جب کسی کا مطالعہ وسیع ہوتا ہے چاہے نظم ہو یا نثر اس کو پتہ چلتا رہتا ہے کہ کونسا لفظ مروج ہے، کس لفظ کا استعمال کس طرح کرنا ہے - کون لفظ عام فہم ہےکون خاص فہم - یہی ایک لکھاری کا سرمایہ ہوتا ہے - آپ بس اپنا مطالعہ وسیع کرتے جائیں آپ کو خود بخود ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے - نہ تو کوئ یہ بات آپ کو سکھا سکتا ہے نہ ہی اس کی کوئ کتاب ہوتی ہے - ہاں کوئ آپ کو بتا ضرور سکتا ہے جب آپ کسی لفظ کا غلط استعمال کریں -
آپ کو یہ بات صحیح لگے تو عمل کیجیئے اس سے زیادہ میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے -


حضرت - آج زبان جس مقام پر ہے آپ کو اس کا مکمل ماہر کم کم ملے گا- جہاں جہاں سے کچھ ملتا جائے لیتے جائیں - یہ زمانہ ویسے بھی استادی شاگردی کا رہا نہیں ہے -
آپ کسی ایک ہستی کو اس مقام پہ فائز نہیں کر سکتے - اس لیئے ہر اچھے لکھنے والے کو پڑھیں - یاد رکھیں اس گروپ میں تو کوئی بھی زبان کے اس اعلٰی معیار پہ نہیں ہے کہ جسے آپ کہیں کہ یہ استاد ہے - ہاں اس میں اگر افتخار عارف ہوتے ، انور مسعود ہوتے یا شمس الرحمٰن فاروقی ہوتے تو ان کی بات معتبر ہوتی - مگر ان کا بھی مقام آپ غالب یا اقبال کے برابر نہیں کر سکتے - لہٰذا یاد رکھیں کہ رائے کا احترام اور بات ہے رائے سے متفق ہونا اور بات ہے -

ایک بات اور بھی یاد رکھیں - شاعری حساب کا عمل تو ہے نہیں کہ ایک +ایک کا جواب دو ہی آئے - کس کی بات زیادہ بہتر ہے یہ فیصلہ تو وقت ہی کرتا ہے آپ بس جس سے جو سیکھ سکیں سیکھتے جائیں -

اور آخر میں چونکہ آپ نے میری ذاتی بات کی ہے کہ میں کبھی کسی کی اصلاح نہیں مانتا - تو ایسا نہیں ہے میری پاس محض یہی گروپ نہیں ہے شعرا کا اور بھی ماہرینِ لسانیات سے میرا رابطہ ہے اور میں ان سے اصلاح بھی لیتا ہوں - یہاں اگر میرے کلام پہ کوئ تکنیکی اعتراض ہو کہ وزن نہیں ہے اردو غلط ہے - زبان و بیاں کا مسئلہ ہے تو میں ضرور اس کو درست کروں گا - یہاں اعتراض ہوتے ہیں کہ یہ بات یوں کیوں کہی اسے یوں کہنا چاہیئے تھا - تیری کے بجائے میری کہنا چاہیئے تھا- وغیرہ وغیرہ تو یہ مسئلے نہیں ہیں یہ اندازِ بیان ہے اور ظاہر میں میرا اپنا اندازِ بیان ہوگا اور کسی دوسرے کا اور ہوگا - تو اس سے میں اتفاق نہیں کرتا -

باقی سر میں کسی کے کلام پہ جب کو ئ عیب ِسخن کی طرف اشارہ کرتا ہوں یا پھر اپنے نزدیک اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے کتنے نفل کا ثواب ہوتا ہے ؟
بس یہ میرا شاعری سے جنون ہے جو ایسا کرواتا ہے - میں نے تو کبھی خود کو استاد نہیں کہا اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں -
محترم ارشد رشید صاحب! آپ کی بات درست ہے کہ مطالعہ کی کمی ہے اور مجھے اس کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ یہ بحث مباحثہ بھی اسی کمی کو پورا کرنے کی کوشش ہی ہے۔۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی سیکھنے کو ملے شکر گذاری کے جذبے کے ساتھ اس سے استفادہ حاصل کروں۔میں سمجھتا ہوں جو بھی اپنے آپ کو دانائےکُل سمجھنے لگے سمجھیں اس نے اپنے آپ پر علم کا دروازہ بند کرلیا ۔میں بحث صرف اصول سمجھنے کے لیے کرتا ہوں ۔ تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
یہاں اگر سب کو یہ اعتراف بھی ہو کہ وہ مکمل عالم نہیں ہیں تب بھی ایک دو یا تین لوگ جو باقیوں کی نسبت زیادہ علم رکھتے ہیں ان کو یہ مقام دیا جاسکتا ہے۔ باقی لوگ رائے دینے کے لیے آزاد ہوں لیکن فوقیت انہی اساتذہ کی رائے کو حاصل ہو تو اصلاح کا نظام بہتر ہو سکتا ہے ورنہ یہ ہوگا کہ سارے ہی اپنے آپ کو استاد کا درجہ دے دیں گے یا پھر سارے ہی یہ سمجھیں گے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین صاحب!آپ کی ساری باتیں میرے لیے راہنما اصول ہیں۔ صرف ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ اگر راہنمائی فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔
کسی اردو کے لفظ جس کا ماخذ عربی یا فارسی ہے، اس کے معنی اگر فارسی یا عربی لغت سے لیے جائیں تو وہ اس زبان کے مستعمل معنی شمار ہونگے۔ لیکن اگر اس کے معنی اردو لغت سے لیے جائیں اور وہاں یہ بھی نہ لکھا ہو کہ فلاں زبان میں اس کے یہ معنی ہیں اور دسری میں یہ۔ تو پھر وہ معنی کیا اردو زبان کے ہی شمار ہونگے اور اردو میں مستعمل سمجھے جائیں گے؟ یا اس کے لیے کسی استاد سے راہنمائی لینا لازم ہوگی۔
جس طرح اردو والے کسی لفظ کو اردو میں استعمال کرتے ہیں، وہی صورت درست ہو گی۔استاد ضروری نہیں، کوئی بھی شخص جس کا مطالعہ اچھا ہو، یہ کہہ سکتا ہے۔
 
Top