غزل (2023-08-05)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

محفوظ جہاں ملک کا دستور نہیں ہے
جمہور وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے
حابس نے ہے محبس کی جو وسعت کو بڑھایا
قیدی کو گماں ہے کہ وہ محصور نہیں ہے
مرحوم سخن ور تھا محبت کے سخن کا
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے
اس قوم کا شیرازہ بکھر ہی تو چکا ہے
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے
خوشیوں بھری اک زندگی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے
منہ پھیر کے رندوں سے حقارت کی نظر سے
ناصح کا یہ کہنا ہے وہ مغرور نہیں ہے
محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے وہ بھی
پھر بھی گلہ ہے اس کو وہ مشہور نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اشعار اچھے ضرور ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے غزل پسند نہیں آئی، روانی کے مسائل زیادہ ہیں۔ کچھ الفاظ کے معنی بھی استعمال کے لحاظ سے درست نہیں لگتے
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

محفوظ جہاں ملک کا دستور نہیں ہے
جمہور وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے
ملک کا، تنافر نا گوار ہے
صاحب مقدور عجیب ہے، اور وہ بھی جمہور ، تمام عوام الناس کے لئے!
حابس نے ہے محبس کی جو وسعت کو بڑھایا
قیدی کو گماں ہے کہ وہ محصور نہیں ہے
حابس عربی اردو میں مستعمل نہیں
مرحوم سخن ور تھا محبت کے سخن کا
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے
مبرور کسی بے جان شے کے لئے تو درست ہے، لیکن جان دار کے لئے، مجھے اس میں شک ہے۔ حج مبرور ہی عام استعمال ہے۔
سخن کا سخنور ہونا بھی عجیب ہے
اس قوم کا شیرازہ بکھر ہی تو چکا ہے
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے
"تو بکھر چکا ہے" محاورہ درست ہوتا، بکھر کے بعد تو سے کچھ اور معنی ہوتے ہیں، دونوں مصرعوں کی روانی بھی بہتر نہیں، تقابل ردیفین کا بھی سقم ہے
خوشیوں بھری اک زندگی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے
محرور لفظ کے لئے لغت دیکھنی پڑی! پہلا مصرع روانی چاہتا ہے
منہ پھیر کے رندوں سے حقارت کی نظر سے
ناصح کا یہ کہنا ہے وہ مغرور نہیں ہے
تکنیکی طور پر درست، لیکن مفہوم؟
محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے وہ بھی
پھر بھی گلہ ہے اس کو وہ مشہور نہیں ہے
کون بد نام ہے، عاشق یا معشوق؟ واضح نہیں ہوا، یعنی "وہ" کس کی طرف اشارہ ہے؟
دوسرے مصرعے کی روانی بھی اچھی نہیں
 
کچھ اشعار اچھے ضرور ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے غزل پسند نہیں آئی، روانی کے مسائل زیادہ ہیں۔ کچھ الفاظ کے معنی بھی استعمال کے لحاظ سے درست نہیں لگتے
محترم سر الف عین صاحب روانی کے کچھ مسائل واقعی ہیں ۔ آپ کے ارشادات کے مطابق دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے۔ آپ سے نظر ثانی کے درخواست ہے۔
محفوظ جہاں ملک کا دستور نہیں ہے
جمہور وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے

ملک کا، تنافر نا گوار ہے
صاحب مقدور عجیب ہے، اور وہ بھی جمہور ، تمام عوام الناس کے لئے!
جس ملک میں محفوظ جو دستور نہیں ہے
کوئی بھی وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے

مرحوم سخن ور تھا محبت کے سخن کا
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے

مبرور کسی بے جان شے کے لئے تو درست ہے، لیکن جان دار کے لئے، مجھے اس میں شک ہے۔ حج مبرور ہی عام استعمال ہے۔
سخن کا سخنور ہونا بھی عجیب ہے
رومانی سخن ور تھا وہ مرحوم چنانچہ -------- یا -------- مرحوم سخن ور تھا محبت کا چنانچہ
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے

سر! مبرور کا مطلب ہے خُلد آشیانی، جنت مکانی، بہشتی، مرحوم ، مغفور ۔ ایک معنی مقبول بھی ہے جو عام طور پر حج کے ساتھ آتا ہے۔ حجِ مبرور کا مطلب ہے مقبول حج
اس قوم کا شیرازہ بکھر ہی تو چکا ہے
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے

"تو بکھر چکا ہے" محاورہ درست ہوتا، بکھر کے بعد تو سے کچھ اور معنی ہوتے ہیں، دونوں مصرعوں کی روانی بھی بہتر نہیں، تقابل ردیفین کا بھی سقم ہے
اظہر ہے بکھرتا ہوا شیرازہ چمن کا
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے

خوشیوں بھری اک زندگی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے

محرور لفظ کے لئے لغت دیکھنی پڑی! پہلا مصرع روانی چاہتا ہے
نادار کی وہ جھونپڑی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے

منہ پھیر کے رندوں سے حقارت کی نظر سے
ناصح کا یہ کہنا ہے وہ مغرور نہیں ہے

تکنیکی طور پر درست، لیکن مفہوم؟
انسانوں (گناہ گار ہی سہی) کو حقیر سمجھنے والا ناصح کہتا ہے کہ وہ مغرور نہیں ہے۔ (طنزیہ)
محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے وہ بھی
پھر بھی گلہ ہے اس کو وہ مشہور نہیں ہ
ے
کون بد نام ہے، عاشق یا معشوق؟ واضح نہیں ہوا، یعنی "وہ" کس کی طرف اشارہ ہے؟
دوسرے مصرعے کی روانی بھی اچھی نہیں
محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے عاشق -------- یا ---------- محبوب کا چرچا ہے تو عاشق بھی ہے بدنام
پھر بھی اسے گلہ ہے کہ مشہور نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
محترم سر الف عین صاحب روانی کے کچھ مسائل واقعی ہیں ۔ آپ کے ارشادات کے مطابق دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے۔ آپ سے نظر ثانی کے درخواست ہے۔

جس ملک میں محفوظ جو دستور نہیں ہے
کوئی بھی وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے
پہلے مصرع کا جس، اور جو، نا گوار لگتا ہے، جب کہ اس مفہوم کے اعتبار سے "ہو" ہونا تھا، "ہے" نہیں، بہر حال مطلع میں شاید قبول کیا جا سکے۔ دوسرے احباب کا کیا خیال ہے؟
رومانی سخن ور تھا وہ مرحوم چنانچہ -------- یا -------- مرحوم سخن ور تھا محبت کا چنانچہ
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے

سر! مبرور کا مطلب ہے خُلد آشیانی، جنت مکانی، بہشتی، مرحوم ، مغفور ۔ ایک معنی مقبول بھی ہے جو عام طور پر حج کے ساتھ آتا ہے۔ حجِ مبرور کا مطلب ہے مقبول حج
مبرور، بر سے نکلا ہے یعنی نیکی، مبرور کا مطلب نیک، گناہوں سے پاک
اظہر ہے بکھرتا ہوا شیرازہ چمن کا
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے
واضح اب بھی نہیں، منشور کیا نہیں؟
نادار کی وہ جھونپڑی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے
جھونپڑی کی جگہ بستی استعمال کرو تو بہتر ہو گا... بستی کو غریبوں کی.....
انسانوں (گناہ گار ہی سہی) کو حقیر سمجھنے والا ناصح کہتا ہے کہ وہ مغرور نہیں ہے۔ (طنزیہ)
یہ بھی بات بنتی نظر نہیں آتی
محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے عاشق -------- یا ---------- محبوب کا چرچا ہے تو عاشق بھی ہے بدنام
پھر بھی اسے گلہ ہے کہ مشہور نہیں ہے
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا
پھر بھی ہے گلہ اس کو وہ مشہور نہیں ہے
 
جس ملک میں محفوظ جو دستور نہیں ہے
کوئی بھی وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے

پہلے مصرع کا جس، اور جو، نا گوار لگتا ہے، جب کہ اس مفہوم کے اعتبار سے "ہو" ہونا تھا، "ہے" نہیں، بہر حال مطلع میں شاید قبول کیا جا سکے۔ دوسرے احباب کا کیا خیال ہے؟
محترم سر الف عین صاحب! متبادل حاضر ہے
محفوظ اگر ملک میں دستور نہیں ہے
کوئی بھی وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے

رومانی سخن ور تھا وہ مرحوم چنانچہ -------- یا -------- مرحوم سخن ور تھا محبت کا چنانچہ
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے

مبرور، بر سے نکلا ہے یعنی نیکی، مبرور کا مطلب نیک، گناہوں سے پاک
اگرمطلب نیک بھی لیا جائے تو واعظ کہتا ہےکہ مرحوم چونکہ رومانی شاعری کرتا تھا اس لیے وہ نیک نہیں ہے۔
اظہر ہے بکھرتا ہوا شیرازہ چمن کا
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے

واضح اب بھی نہیں، منشور کیا نہیں؟
سر ! منشور کا مطلب یہاں پر پراگندہ شدہ، تتر بتر، بکھرا ہوا لیا گیا ہے
نادار کی وہ جھونپڑی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے

جھونپڑی کی جگہ بستی استعمال کرو تو بہتر ہو گا... بستی کو غریبوں کی.....
بستی تھی غریبوں کی جسے آگ لگا کر ۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔بستی کو غریبوں کی وہ ہے آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے


منہ پھیر کے رندوں سے حقارت کی نظر سے
ناصح کا یہ کہنا ہے وہ مغرور نہیں ہے
انسانوں (گناہ گار ہی سہی) کو حقیر سمجھنے والا ناصح کہتا ہے کہ وہ مغرور نہیں ہے۔ (طنزیہ)
۔۔۔۔۔یہ بھی بات بنتی نظر نہیں آتی
متبادل:
رندوں پہ حقارت کی نظر ڈال کے ناصح
نخوت سے یہ کہتا ہے وہ مغرور نہیں ہے

محبوب کا چرچا ہے تو بدنام ہے عاشق -------- یا ---------- محبوب کا چرچا ہے تو عاشق بھی ہے بدنام
پھر بھی اسے گلہ ہے کہ مشہور نہیں ہے

دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا
پھر بھی ہے گلہ اس کو وہ مشہور نہیں ہے
پھر بھی ہے گلہ اس کو وہ مشہور نہیں ہے ۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔پھر بھی اسے شکوہ ہےوہ مشہور نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور مبرور والے اشعار اب بھی مجھے قبول کرنے میں تحفظات ہیں
منشور کا اردو فارسی میں مطلب "آئین" ہوتا ہے، منتشر کے معنی صرف عربی میں ہیں۔
بستی تھی غریبوں... درست ہو گیا
مغرور والا شعر بہتر لگ رہا ہے پچھلی صورت سے
آخری شعر میں شکوہ والا بہتر متبادل ہے.، اسے رکھ لیں
ارشد رشید بھی دیکھ لیں اسے
 

ارشد رشید

محفلین
@ارشد رشید بھی دیکھ لیں اسے
سر آپ ہی کی ہمت ہے اس غزل پر اتنی محنت کر رہے ہیں - میری تو ہمت نہیں ہے-
اس غزل کا پورا ڈکشن خورشید صاحب کا اپنا لگتا ہے - اردو میں کیا روا ہے کیا معروف ہے کیا صحیح ہے کیا نہیں اِس کا ُاس سے کوئئ تعلق نہیں لگتا-

خورشید صاحب - میں صرف اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ جنا ب الف عین صاحب نے کہا ہے - مگر اگر لکھتا ہوں تو پھر اپنے دل کی بات کھل کر ہی لکھتا ہوں - اس لیئے میں عموما نہیں لکھتا - ویسے بھی آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نئے شعرا کو لوگ سخت تنقید سے دل برداشتہ کر دیتے ہیں تو یہ بھی میں نہیں چاہتا -
میرے اوپر دیئے گئے کمنٹس پہ غور کریں یہی اس غزل کی سب سے بڑی خرابی ہے - مگر میں کوئئ حرف آخر نہیں ہوں آپ چاہیں تو بلاشبہ اتفاق نہ کریں -
 

الف عین

لائبریرین
سر آپ ہی کی ہمت ہے اس غزل پر اتنی محنت کر رہے ہیں - میری تو ہمت نہیں ہے-
اس غزل کا پورا ڈکشن خورشید صاحب کا اپنا لگتا ہے - اردو میں کیا روا ہے کیا معروف ہے کیا صحیح ہے کیا نہیں اِس کا ُاس سے کوئئ تعلق نہیں لگتا-

خورشید صاحب - میں صرف اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ جنا ب الف عین صاحب نے کہا ہے - مگر اگر لکھتا ہوں تو پھر اپنے دل کی بات کھل کر ہی لکھتا ہوں - اس لیئے میں عموما نہیں لکھتا - ویسے بھی آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نئے شعرا کو لوگ سخت تنقید سے دل برداشتہ کر دیتے ہیں تو یہ بھی میں نہیں چاہتا -
میرے اوپر دیئے گئے کمنٹس پہ غور کریں یہی اس غزل کی سب سے بڑی خرابی ہے - مگر میں کوئئ حرف آخر نہیں ہوں آپ چاہیں تو بلاشبہ اتفاق نہ کریں -
میں محنت صرف یہ کرتا ہوں کہ مبتدی کو کم از کم اس کا احساس تو ہو جائے کہ کسی مصرع میں غلطی کیا ہے! تاکہ وہ کچھ سیکھ سکیں اور آئندہ ویسی ہی اغلاط نہ دہرائیں۔
اس غزل میں، مزے کی بات یہ ہے کہ خورشید کا اپنا ڈکشن ہے ہی نہیں! یہ تو لگتا ہے کہ انہیں ایک ادرک کا ٹکڑا مل گیا تو پنساری کی دوکان لےبیٹھے۔
یہ شاید اکثر لکھا بھی ہے کہ زبردستی کی قافیہ پیمائی زیادہ لگ رہی ہے، لیکن کبھی کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں کہ زیادہ حوصلہ شکنی نہ کروں۔( اگرچہ یہاں نہیں لکھا)۔
میں اصلاح کے طور پر محض اغلاط کی نشان دہی کرتا ہوں، خود بہتر مصرع کہہ کر ان کو منہ کا نوالہ نہیں کھلاتا۔ اگرچہ یہ بھی اکثر لکھتا ہوں کہ میں نے با قاعدہ عروض کبھی نہیں پڑھی اور نہ اب سیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، جتنا علم ہے، اسی کو کام میں لاتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔ سرور بھائی اور آسی بھائی مرحوم جیسے اساتذہ کو ہی سجتا ہے اصلاح سخن کا کام، یہاں تو مجبوراً کرتا ہوں کہ دوسرے احباب کبھی توجہ نہیں دیتے تو مبتدی رکن کو کچھ توسہارا مل جائے! اسی لئے جب آپ لوگ جب یہاں آتے ہیں تو یکگونہ اطمینان ہوتا ہے کہ اگر میں نہ بھی آؤں تو یہ کاروبار چلتا رہے گا۔ اسی وجہ سے میں نے بھی آنا کم کم کر دیا ہے۔ میرے طریقے سے کم سے کم عظیم یہ کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ ادھر وہ بھی نہیں آ رہے تو مجھے ہی پھر مجبوراً اسے دیکھنا پڑتا ہے۔
 
سر آپ ہی کی ہمت ہے اس غزل پر اتنی محنت کر رہے ہیں - میری تو ہمت نہیں ہے-
اس غزل کا پورا ڈکشن خورشید صاحب کا اپنا لگتا ہے - اردو میں کیا روا ہے کیا معروف ہے کیا صحیح ہے کیا نہیں اِس کا ُاس سے کوئئ تعلق نہیں لگتا-

خورشید صاحب - میں صرف اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ جنا ب الف عین صاحب نے کہا ہے - مگر اگر لکھتا ہوں تو پھر اپنے دل کی بات کھل کر ہی لکھتا ہوں - اس لیئے میں عموما نہیں لکھتا - ویسے بھی آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نئے شعرا کو لوگ سخت تنقید سے دل برداشتہ کر دیتے ہیں تو یہ بھی میں نہیں چاہتا -
میرے اوپر دیئے گئے کمنٹس پہ غور کریں یہی اس غزل کی سب سے بڑی خرابی ہے - مگر میں کوئئ حرف آخر نہیں ہوں آپ چاہیں تو بلاشبہ اتفاق نہ کریں -
محترم ارشد رشید صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ نے اصلاح کے حوالے سے اپنی رائے دی۔ آپ مجھے دل برداشتہ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن آپ نے کھل کر لکھا اور نیک نیتی سے لکھا۔ سر! آج کل ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں ۔ اب سوال میرا یہ ہے کہ اگر استعمال کی گئی زبان میرااپنا اردو ورژن ہےتو پھر یہ الفاظ اردو کی لغت میں کیا کررہے ہیں۔ یقین کریں میں اتنا عالم فاضل نہیں ہوں کہ عربی اور فارسی کی لغات مجھے از بر ہیں اور میں نادانستگی میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو استعمال کر بیٹھتا ہوں۔معروف اور غیر معروف کی پہچان لغت میں تو نہیں ملتی۔تو پھر کون فیصلہ کرے گا کہ یہ لفظ معروف ہے یا غیر معروف۔ اردو کو تو لشکری زبان بھی کہتے ہیں یعنی مسلمان مختلف خطوں سے آکر برصغیر میں اکٹھے ہوئے تو ان کے باہمی بول چال سے یہ زبان وجود میں آئی۔ تو اس میں بہت زیادہ آمیزش فارسی، عربی، ترکی اور ہندی کی ہے۔ جب اردو لغت میں ایک لفظ موجود ہے اپنے معانی کے ساتھ تو اسے آپ اردو سے کیسے خارج کر سکتے ہیں۔ اگر ہو سکے تو کھل کر راہنمائی بھی فرمادیں۔
میں محنت صرف یہ کرتا ہوں کہ مبتدی کو کم از کم اس کا احساس تو ہو جائے کہ کسی مصرع میں غلطی کیا ہے! تاکہ وہ کچھ سیکھ سکیں اور آئندہ ویسی ہی اغلاط نہ دہرائیں۔
اس غزل میں، مزے کی بات یہ ہے کہ خورشید کا اپنا ڈکشن ہے ہی نہیں! یہ تو لگتا ہے کہ انہیں ایک ادرک کا ٹکڑا مل گیا تو پنساری کی دوکان لےبیٹھے۔
یہ شاید اکثر لکھا بھی ہے کہ زبردستی کی قافیہ پیمائی زیادہ لگ رہی ہے، لیکن کبھی کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں کہ زیادہ حوصلہ شکنی نہ کروں۔( اگرچہ یہاں نہیں لکھا)۔
میں اصلاح کے طور پر محض اغلاط کی نشان دہی کرتا ہوں، خود بہتر مصرع کہہ کر ان کو منہ کا نوالہ نہیں کھلاتا۔ اگرچہ یہ بھی اکثر لکھتا ہوں کہ میں نے با قاعدہ عروض کبھی نہیں پڑھی اور نہ اب سیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، جتنا علم ہے، اسی کو کام میں لاتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔ سرور بھائی اور آسی بھائی مرحوم جیسے اساتذہ کو ہی سجتا ہے اصلاح سخن کا کام، یہاں تو مجبوراً کرتا ہوں کہ دوسرے احباب کبھی توجہ نہیں دیتے تو مبتدی رکن کو کچھ توسہارا مل جائے! اسی لئے جب آپ لوگ جب یہاں آتے ہیں تو یکگونہ اطمینان ہوتا ہے کہ اگر میں نہ بھی آؤں تو یہ کاروبار چلتا رہے گا۔ اسی وجہ سے میں نے بھی آنا کم کم کر دیا ہے۔ میرے طریقے سے کم سے کم عظیم یہ کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ ادھر وہ بھی نہیں آ رہے تو مجھے ہی پھر مجبوراً اسے دیکھنا پڑتا ہے۔
سر الف عین صاحب!آپ کا تہہِ دل سے شکر گذار ہوں کہ آپ اپنا قیمتی وقت اصلاح کے لیے نکالتے ہیں۔ یہ آپ کی اردو سے محبت کی دلیل ہے۔ اورمیرے دل میں آپ کا بہت احترام ہے۔ آپ سیکھنے والے کی علمی استطاعت کو دیکھتے ہوئے اصلاح دیتے ہیں۔ قابل شاگردوں کا استاد کہلوانا تو ہر استاد کو پسند ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک وہ استاد عظیم ہوتا ہے جو ہرسطح کے شاگردوں کی اصلاح اور راہنمائی کرتا ہے۔ اور آپ کا شمار انہی اساتذہ میں ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کو تندرست اور توانا رکھے۔
 
معروف اور غیر معروف کی پہچان لغت میں تو نہیں ملتی۔تو پھر کون فیصلہ کرے گا کہ یہ لفظ معروف ہے یا غیر معروف
یہ فیصلہ شاعر خود کرے گا کہ وہ استادی دکھانا چاہتا ہے یا کام کی بات سادہ سے الفاظ میں بذریعہ شعر عوام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اگر اُسے غیرمعروف الفاظ جو ڈکشنریوں میں محفوظ ہیں ، کے استعمال پر ایسا عبور ہے کہ طورو طرزِاستعمال سے ہی اُن کے معانی کھول کر رکھ دےگا تو بے شک یہ مشکل کام اپنے ذمے لے وگرنہ سادہ ، آسان اور عام فہم الفاظ کا کال تو نہیں۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
۔ اب سوال میرا یہ ہے کہ اگر استعمال کی گئی زبان میرااپنا اردو ورژن ہےتو پھر یہ الفاظ اردو کی لغت میں کیا کررہے ہیں۔ یقین کریں میں اتنا عالم فاضل نہیں ہوں کہ عربی اور فارسی کی لغات مجھے از بر ہیں اور میں نادانستگی میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو استعمال کر بیٹھتا ہوں۔معروف اور غیر معروف کی پہچان لغت میں تو نہیں ملتی۔تو پھر کون فیصلہ کرے گا کہ یہ لفظ معروف ہے یا غیر معروف۔ اردو کو تو لشکری زبان بھی کہتے ہیں یعنی مسلمان مختلف خطوں سے آکر برصغیر میں اکٹھے ہوئے تو ان کے باہمی بول چال سے یہ زبان وجود میں آئی۔ تو اس میں بہت زیادہ آمیزش فارسی، عربی، ترکی اور ہندی کی ہے۔ جب اردو لغت میں ایک لفظ موجود ہے اپنے معانی کے ساتھ تو اسے آپ اردو سے کیسے خارج کر سکتے ہیں۔ اگر ہو سکے تو کھل کر راہنمائی بھی فرمادیں۔
جناب خورشید صاحب - آپ میرا مطلب نہیں سمجھے - میں نے ڈکشن کہا تھا ڈکشنری نہیں - ڈکشن کا مطلب ہے اسلوبِ نگارش - یعنی الفاظ کا چناؤ اور انکا رچاؤ- اسے طرزِ بیاں بھی کہتے ہیں - انگریزی میں زیادہ وضاحت سے اسے ڈکشن اینڈ اسٹائل بھی کہا جاتا ہے - یہی ایک شاعر کو دوسرے سے ممتاز بناتا ہے - آپ خودی کو کر بلند اتنا سن کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فراز کا شعر ہو سکتا ہے - کیوںَ؟
کیونکہ اقبال اور فراز کا ڈکشن اور اسٹائل الگ ہے -
آپ کی غزل میں الفاظ تو سارے ہی ڈکشنری سے آئے ہیں اور آنے بھی چاہیئں ، مگر جیسے آپ نے انہیں برتا ہے ویسے انہیں معروف طریقوں میں نہیں برتا جاتا - اس لیئے میں نے کہا کہ یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہے -
میں مثالیں دیتا ہوں

محفوظ جہاں ملک کا دستور نہیں ہے
جمہور وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے
== صاحب مقدور آپ کی اپنی اصطلاح ہے اردو میں صاحب قدرت ہوتا ہے صاحبِ مقدور نہیں - تو یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہے
حابس نے ہے محبس کی جو وسعت کو بڑھایا
حابس اردو میں عربی سے ابھی تک آیا ہی نہیں ہے تو یہ بھی تو آپ کا اپنا ڈکشن ہے
مرحوم سخن ور تھا محبت کے سخن کا
== محبت کا سخن ور اردو میں کوئ اصطلاح نہیں ہے - سخن ور اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے لہذا یہ بھی آپ کا اپنا ڈکشن ہے
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے
== مبرور کے بارے میں الف عین صاحب لکھ ہی چکے ہیں - اردو میں اول تو یہ لفظ استعمال ہی نہیں ہوتا اور اگر کریں بھی تو ان معنوں میں استعمال نہیں ہوگا مگر آپ نے کیا ہے تو پھر یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہوا نا-

اس قوم کا شیرازہ بکھر ہی تو چکا ہے
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے
== یہ تو شعر ہی دو لخت ہے

خوشیوں بھری اک زندگی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے
== وہی بات کہ محرور یعنی حرارت والا عربی کا لفظ ہے جو اردو میں نہیں استعمال ہوتا عموما- سو یہ بھی تو آپ کا اپنا ڈکشن ہے

باقی اس کے بعد غزل میں جو دیگر زبان کے مسئلے ہیں ان پر میں نے بات ہی نہیں کی تھی -

اب آپ سوچیں وہ الفاظ جو اردو میں آئے بھی نہیں یا زیادہ تر استعمال بھی نہیں ہوتے اسکا اپنی طرف سے استعمال کرنا - انکے خود سے جملے بنا کر پیش کرنا - آپ کا ڈکشن نہیں ہے تو اور کیا ہے - میں اس غزل کے بارے میں اور کیا کہہ سکتا تھا سوائے اس کے کہ یہ خورشید صاحب کا اپنا اسلوب ہے اردو کا اس سے علاقہ نہیں -
 
آخری تدوین:
جناب خورشید صاحب - آپ میرا مطلب نہیں سمجھے - میں نے ڈکشن کہا تھا ڈکشنری نہیں - ڈکشن کا مطلب ہے اسلوبِ نگارش - یعنی الفاظ کا چناؤ اور انکا رچاؤ- اسے طرزِ بیاں بھی کہتے ہیں - انگریزی میں زیادہ وضاحت سے اسے ڈکشن اینڈ اسٹائل بھی کہا جاتا ہے - یہی ایک شاعر کو دوسرے سے ممتاز بناتا ہے -
محترم ارشدرشیدصاحب! اسلوب تو بہت آگے کا معاملہ ہے ۔ اس کااپنے لیے استعمال میں جائز نہیں سمجھتا۔ آپ کے جواب سے ظاہر ہے کہ آپ کا مدعا اسلوب نہیں زبان ہی تھا۔لیکن میرے سوال کا جواب پھربھی نہیں آیا ۔ سوال یہ تھا کہ کیا اردو لغت کے الفاظ اردو نہیں ہیں۔ اور لازم ہے کہ شاعری میں پہلے سے استعمال شدہ الفاظ ہی ہمیشہ استعمال کیے جائیں گے۔آپ کے تمام اعتراضات کا جواب تو ہے لیکن جواب طویل ہو جائے گا اس لیے فی الحال صرف صاحبِ مقدور کی بات کر لیتے ہیں-
اس لنک کو دیکھ لیں اور پھر اپنی رائے سے نوازیں شکریہ۔

صاحبِ مقدور
 
یہ فیصلہ شاعر خود کرے گا کہ وہ استادی دکھانا چاہتا ہے یا کام کی بات سادہ سے الفاظ میں بذریعہ شعر عوام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اگر اُسے غیرمعروف الفاظ جو ڈکشنریوں میں محفوظ ہیں ، کے استعمال پر ایسا عبور ہے کہ طورو طرزِاستعمال سے ہی اُن کے معانی کھول کر رکھ دےگا تو بے شک یہ مشکل کام اپنے ذمے لے وگرنہ سادہ ، آسان اور عام فہم الفاظ کا کال تو نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب شکیل صاحب!میں ہمیشہ سادہ زبان ہی استعمال کرتا ہوں اور وجہ یہ ہے کہ مجھے آتی ہی سادہ زبان ہے۔بعض اوقات قافیہ کا خیال رکھتے ہوئے کچھ کہنا مشکل ہو جاتا ہے تو بقول استاد صاحب کے پھر اس طرح کی قافیہ پیمائی کرنی پڑتی ہے۔ایسا کرکے استادی دکھانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اسے آپ کم علمی کا اظہا ر کہ سکتے ہیں۔
 
بعض اوقات قافیہ کا خیال رکھتے ہوئے کچھ کہنا مشکل ہو جاتا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر کہ آپ نے میری باتوں کا برا نہیں مانا ۔یہ آپ کے وسیع القلب اور کشادہ ذہن ہونے کی علامت ہے ،جو ایک شاعرو ادیب یا فنونِ لطیفہ سے منسلک کسی بھی شخص کے لیے ہونا بھی چاہیے۔ ان شاء اللہ تفصیل سے پھر کچھ عرض کروں گا ۔ بلکہ میں نے اِس غزل کے بعض اشعار کے متبادل بھی سوچے تھے ہوسکا تو وہ بھی پیش کروں گا۔
 

ارشد رشید

محفلین
محترم ارشدرشیدصاحب! اسلوب تو بہت آگے کا معاملہ ہے ۔ اس کااپنے لیے استعمال میں جائز نہیں سمجھتا۔ آپ کے جواب سے ظاہر ہے کہ آپ کا مدعا اسلوب نہیں زبان ہی تھا۔لیکن میرے سوال کا جواب پھربھی نہیں آیا ۔ سوال یہ تھا کہ کیا اردو لغت کے الفاظ اردو نہیں ہیں۔ اور لازم ہے کہ شاعری میں پہلے سے استعمال شدہ الفاظ ہی ہمیشہ استعمال کیے جائیں گے۔آپ کے تمام اعتراضات کا جواب تو ہے لیکن جواب طویل ہو جائے گا اس لیے فی الحال صرف صاحبِ مقدور کی بات کر لیتے ہیں-
اس لنک کو دیکھ لیں اور پھر اپنی رائے سے نوازیں شکریہ۔

حضرت میں نے بات صحیح یا غلط کی نہیں کی بلکہ معروف اور غیر معروف کی کی ہے - اردو میں صاحب ِ مقدور بطور اصطلاح درست ہے ڈکشنری میں بھی ہے مگر کیا کبھی کہیں آپ نے اس کا استعمال دیکھا ہے ؟ آپ کا یہ کہنا کہ کیا ضروری ہے پہلے سے استعما ل شدہ الفاظ ہی استعمال کیئے جائیں تو جواب ہے ہاں ضروری ہے -

یہ سوال مجھ سے پہلے بھی کئی مبتدی شعرا پوچھ چکے ہیں کہ کیا ہم کوئی نئی اصطلاح یا نیا لفظ ایجاد نہیں کر سکتے تو جواب ہے ہاں کر سکتے ہیں - مگر پہلے کسی مقام پر تو پہنچ جائیں -
ابھی آپ نے سیکھنا شروع کیا ہے اور ابھی سے آ پ ایجادات کے چکر میں پڑ گئے - کیا پہلے سے موجود تمام الفاظ و اصطلاحات پر آ پ کو گرفت ہوگئی کہ پڑھنے والا مان لے کہ اس بات کو کہنے کے لیئے اردو میں پہلے کچھ موجود نہیں تھا لہذا شاعر ایک نئی اصطلاح لایا ہے - اگر حضرت افتخار عارف ایک نئی اصطلاح استعما ل کریں تو پڑھنے والا دل و جان سے اسے قبول کرے گا لیکن اگر کوئ مبتدی ایسا کر ے گا تو یہ ناحق ہوگا - زبان پہ عبور حاصل کرنے سے پہلے ایسا کچھ کرنا بہت بڑی زیادتی اور زبان کے ساتھ بے وفائی ہے -

یاد رکھیں میرے نزدیک جو پڑھتا نہیں ہے اسے لکھنے کا بھی کوئئ حق نہیں ہے - ( الا یہ کہ اللہ کی کوئئ خاص رحمت ہو اس پر )-

آپ اتفاق نہیں کرتے تو لکھتے جائیں جیسے لکھنا ہے - میرے یا کسی اور کے متفق ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے -
اس بارے میں میں مزید بحث کرنا نہیں چاہتا - آپ اتفاق نہ کریں اور مجھے لات مار کے آگے بڑھ جائیں -
 
آخری تدوین:
حضرت میں نے بات صحیح یا غلط کی نہیں کی بلکہ معروف اور غیر معروف کی کی ہے - اردو میں صاحب ِ مقدور بطور اصطلاح درست ہے ڈکشنری میں بھی ہے مگر کیا کبھی کہیں آپ نے اس کا استعمال دیکھا ہے ؟ آپ کا یہ کہنا کہ کیا ضروری ہے پہلے سے استعما ل شدہ الفاظ ہی استعمال کیئے جائیں تو جواب ہے ہاں ضروری ہے -

یہ سوال مجھ سے پہلے بھی کئی مبتدی شعرا پوچھ چکے ہیں کہ کیا ہم کوئی نئی اصطلاح یا نیا لفظ ایجاد نہیں کر سکتے تو جواب ہے ہاں کر سکتے ہیں - مگر پہلے کسی مقام پر تو پہنچ جائیں -
ابھی آپ نے سیکھنا شروع کیا ہے اور ابھی سے آ پ ایجادات کے چکر میں پڑ گئے - کیا پہلے سے موجود تمام الفاظ و اصطلاحات پر آ پ کو گرفت ہوگئی کہ پڑھنے والا مان لے کہ اس بات کو کہنے کے لیئے اردو میں پہلے کچھ موجود نہیں تھا لہذا شاعر ایک نئی اصطلاح لایا ہے - اگر حضرت افتخار عارف ایک نئی اصطلاح استعما ل کریں تو پڑھنے والا دل و جان سے اسے قبول کرے گا لیکن اگر کوئ مبتدی ایسا کر ے گا تو یہ ناحق ہوگا - زبان پہ عبور حاصل کرنے سے پہلے ایسا کچھ کرنا بہت بڑی زیادتی اور زبان کے ساتھ بے وفائی ہے -

آپ اتفاق نہیں کرتے تو لکھتے جائیں جیسے لکھنا ہے - میرے یا کسی اور کے متفق ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے -
اس بارے میں میں مزید بحث کرنا نہیں چاہتا - آپ اتفاق نہ کریں اور مجھے لات مار کے آگے بڑھ جائیں -
محترم ارشد رشید صاحب ! آپ میرے سینئر ہیں اور قابلِ احترام بھی۔ آپ اس مغالطے کا شکار کیوں ہوگئے ہیں کہ میں کوئی نئی اصطلاح یا کوئی نیا لفظ ایجاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے لنک بھی اسی لیے شیئر کیا تھا کہ یہ اصطلاح پہلے سے اردو میں موجود ہے۔ آپ اسے ایجاد کرنا کیوں کہ رہے ہیں۔
آپ کی رائے آپ کی طرح محترم ہے ۔لیکن دلیل مضبوط ہوگی تو اپنا آپ خود ہی منوالے گی۔
 

ارشد رشید

محفلین
حضرت اب اس بارے میں آخری بار لکھ رہا ہوں کیونکہ میں اپنی بات کی ترسیل شاید نہیں کر پا رہا -
آپ یہ کریں کہ مقدور ، محرور یا مبرور کا یہ استعمال جو آپ نے کیا ہے کسی استاد شاعر کے ہاں دکھا دیں تو میں مان جاؤں گا -
یہ الفاظ غلط نہیں ہیں - لغت میں بھی ہیں - بس یہ اس طرح استعمال نہیں ہوتے - پہلے زبان کا استعمال دیکھیں اس کو سیکھیں پھر اس بات پر بحث کیجیے -
جو الفاظ شاعری میں نہیں استعمال ہوتے یا بلکہ اردو زبان میں بھی نہیں ہوتے آپ ایک نئے شاعر ہو کر ان کو استعمال کرنے پہ بضد ہیں تو میں بھلا کیا کر سکتا ہوں -
 
جو الفاظ شاعری میں نہیں استعمال ہوتے یا بلکہ اردو زبان میں بھی نہیں ہوتے آپ ایک نئے شاعر ہو کر ان کو استعمال کرنے پہ بضد ہیں تو میں بھلا کیا کر سکتا ہوں -
محترم ارشد رشید صاحب ! نہایت ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ پھر ان الفاظ کا مقصد بتادیں کہ یہ اردو لغت میں کیوں ہیں؟ صرف اس کی ضخامت بڑھانے کے لیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم ارشد رشید صاحب ! نہایت ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ پھر ان الفاظ کا مقصد بتادیں کہ یہ اردو لغت میں کیوں ہیں؟ صرف اس کی ضخامت بڑھانے کے لیے۔
خورشید بھائی، شاعری میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں سخن کا عیب گردانا جاتا ہے۔ "غرابت" کو بھی کلام کا ایک عیب مانا گیا ہے۔ غرابت ایسے غیر مانوس الفاظ کے استعمال کو کہتے ہیں جن کے معنی لغت دیکھے بغیر معلوم ہی نہ ہو سکیں۔
 
Top