غزل - (2023-01-26)

غزل پیش ِخدمت ہے- ایک پنجابی محاورے کے استعمال کی اجازت کے ساتھ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

یہ شہر ہے بولنے والوں کا پر بولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن اب آنکھیں کھولنے والا کوئی نہیں

اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے ترازو بھی ہے پُورا تولنے والا کوئی نہیں

یہ قربِ قیامت ہے شاید نفسا نفسی کا عالم ہے
ہیں درد میں سب ہی لیکن دُکھ سُکھ پھولنے والا کوئی نہیں

جِن مست شرابی آنکھوں کے ہوتے تھے لاکھوں پروانے
اُن آنکھوں کی مے کو پی کر اب ڈولنے والا کوئی نہیں

خورشید کا دل بہلاتا تھا جو میٹھے بولوں سے اکثر
وہ شخص نہیں تو کانوں میں رس گھولنے والا کوئی نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
بھیا یہ غزل 2023۔01-26 یا 2024۔01۔26
پہلے تو یہ بتائیے ۔۔
خورشید کا دل بہلاتا تھا جو میٹھے بولوں سے اکثر
وہ شخص نہیں تو کانوں میں رس گھولنے والا کوئی نہیں
واہ واہ کیا بات ہے۔ مقطع سے ہمیں جون صاحب یاد آگئے ۔۔۔
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
 

الف عین

لائبریرین
یہ شہر ہے بولنے والوں کا پر بولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن اب آنکھیں کھولنے والا کوئی نہیں
یہ بحر بھی دو حصوں میں منقسم لگتی ہے
مفعول مفاعیلن فعلن مفعول مفاعیلن فعلن
بہتر ہو کہ اس طرح شعر موزوں ہو کہ کوئی لفظ دو ٹکڑوں میں بٹ نہ جانے
دوسرے مصرعے کو اگر یوں کر دیں تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے
بینا ہیں سبھی لیکن آنکھیں اب کھولنے....

اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے ترازو بھی ہے پُورا تولنے والا کوئی نہیں
اس میں بھی پو۔۔۔ را ہو رہا ہے دوسرے مصرعے میں

یہ قربِ قیامت ہے شاید نفسا نفسی کا عالم ہے
ہیں درد میں سب ہی لیکن دُکھ سُکھ پھولنے والا کوئی نہیں
یہ ہی شاید پنجابی محاورہ ہے دکھ سکھ پھولنا میرے لئے غریب ہے۔ محاورہ چل سکتا ہے تو شعر بھی درست ہے، یہ واقعی پھولنا واو معروف بر وزن بولنا ہے؟
جِن مست شرابی آنکھوں کے ہوتے تھے لاکھوں پروانے
اُن آنکھوں کی مے کو پی کر اب ڈولنے والا کوئی نہیں
ٹھیک

خورشید کا دل بہلاتا تھا جو میٹھے بولوں سے اکثر
وہ شخص نہیں تو کانوں میں رس گھولنے والا کوئی نہیں
درست
 
بھیا یہ غزل 2023۔01-26 یا 2024۔01۔26
پہلے تو یہ بتائیے ۔۔

واہ واہ کیا بات ہے۔ مقطع سے ہمیں جون صاحب یاد آگئے ۔۔۔
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
سیما آپی حوصلہ افزائی کا شکریہ،
عنوان میں سال غلط لکھا گیا ۔ معذرت۔
 
یہ شہر ہے بولنے والوں کا پر بولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن اب آنکھیں کھولنے والا کوئی نہیں

یہ بحر بھی دو حصوں میں منقسم لگتی ہے
مفعول مفاعیلن فعلن مفعول مفاعیلن فعلن
بہتر ہو کہ اس طرح شعر موزوں ہو کہ کوئی لفظ دو ٹکڑوں میں بٹ نہ جانے
دوسرے مصرعے کو اگر یوں کر دیں تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے
بینا ہیں سبھی لیکن آنکھیں اب کھولنے....
محترم استاد الف عین صاحب!
آپ کی تجویز درست ہے۔
یہ شہر ہے بولنے والوں کا پر بولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن آنکھیں اب کھولنے والا کوئی نہیں
اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے ترازو بھی ہے پُورا تولنے والا کوئی نہیں

اس میں بھی پو۔۔۔ را ہو رہا ہے دوسرے مصرعے میں
آپ کی سابقہ اصلاح اس مصرعے پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔
اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے، ترازو ہے،پُورا اب تولنے والا کوئی نہیں
یا
منصف ہے، ترازو ہے،لیکن اب تولنے والا کوئی نہیں
یہ قربِ قیامت ہے شاید نفسا نفسی کا عالم ہے
ہیں درد میں سب ہی لیکن دُکھ سُکھ پھولنے والا کوئی نہیں

یہ ہی شاید پنجابی محاورہ ہے دکھ سکھ پھولنا میرے لئے غریب ہے۔ محاورہ چل سکتا ہے تو شعر بھی درست ہے، یہ واقعی پھولنا واو معروف بر وزن بولنا ہے؟
سر !مشہور استاد نصرت فتح علی خان کا گایا پنجابی کلام
تینوں چاہی دے نے دل والے بھید کھولنے
اساں تیرے نال کئی دُکھ سُکھ پھولنے
ساڈے کول نئیں توں گھڑی پل بہنا
تے بیبا ساڈا دل موڑ دے​
یہاں کھولنے اور پھولنے کوہم وزن استعمال کیا گیا ہے،
 
Top