غزل (16 جون 2023)

محترم و معظم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، عظیم ، یاسر شاہ
(آپ لائقِ تحسین ہیں کیونکہ آپ بغیر کسی لالچ کے صرف اور صرف اردو کی محبت میں شاعری کا شوق رکھنے والے میرے جیسے ُتکہ بازوں کی اصلاح کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں اور بے لاگ اصلاح کرتے ہیں)

آہ بھرکے یاد کرنا کیا سہانے وقت کو
اپنی ہی ناکامیوں کا دوش کیا دیں بخت کو

انتہائے بندگی تھی جب خلیل اللہ نے
امرِ ربی پر لٹایا تھا جگر کے لخت کو

ربط سمجھایا غنا کا تھا سکونِ قلب سے
ایک فاقہ مست نے ٹھکرا کے تاج و تخت کو

تلخیِ ایام کا سورج سوا نیزے پہ ہے
سہ رہا ہوں بے اماں اُن کے رویے سخت کو

چار دیواری گرادی گھر کے ہی لوگوں نے جب
کون روکے گا بھلا غیروں کی آمد رفت کو

جب شکاری شہر کی جانب ہرن لے کر چلے
آنکھ میں حسرت لیے دیکھا تھا اُس نے دشت کو

جیت پایا ہی نہیں اُس کا بھروسہ آج تک
وہ لگا کر داؤ پر بھی زندگی کے رخت کو
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خورشید بھائی، قوافی غلط ہیں۔
بَخْت، سَخْت، لَخْت، تَخْت، رَخْت تو ایک غزل میں بطور قوافی آ سکتے ہیں لیکن باقی درست نہیں ۔
 
خورشید بھائی، قوافی غلط ہیں۔
بَخْت، سَخْت، لَخْت، تَخْت، رَخْت تو ایک غزل میں بطور قوافی آ سکتے ہیں لیکن باقی درست نہیں ۔
بھائی عبدالرؤف صاحب ! سلامت رہیں ہمیشہ۔
یہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے تاکہ اساتذہ کی رائے جان سکوں۔
 
اگر خورشید صاحب کی غزل کے قافیے مطابقِ ضابطہ ہیں تو پھر احمد فقیہ کی یہ غزل بھی خلافِ ضابطہ نہ ہوگی۔ریختہ سے کاپی پیسٹ کی گئی ہے۔اور لنک یہ ہے:
اØÙد ÙÙÛÛ - غزÙ
چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
چھاؤں ملی نہ مجھ کو دعا کے درخت سے
بیٹھا تھا میں حصار فلک میں زمین پر
دشمن نے فتح کھینچ لی میری شکست سے
میں بھی تو تھا فریفتہ خود اپنے آپ پر
شکوہ کروں میں کیا دل نرگس پرست سے
گریہ کی سلطنت مجھے دے گی شکست کیا
چھینی ہے میں نے زندگی پانی کے تخت سے
حرف دعا پہ گوش بر آواز ہو وہ کیوں
دل سے کلام ہوتا ہے مستوں کے مست سے
حمد و ثنا سخن کا نہیں دل کا ہے ریاض
کیسے ثنا کروں میں دل لخت لخت سے
اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر خورشید صاحب کی غزل کے قافیے مطابقِ ضابطہ ہیں تو پھر احمد فقیہ کی یہ غزل بھی خلافِ ضابطہ نہ ہوگی۔ریختہ سے کاپی پیسٹ کی گئی ہے۔اور لنک یہ ہے:
اØÙد ÙÙÛÛ - غزÙ
چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
چھاؤں ملی نہ مجھ کو دعا کے درخت سے
بیٹھا تھا میں حصار فلک میں زمین پر
دشمن نے فتح کھینچ لی میری شکست سے
میں بھی تو تھا فریفتہ خود اپنے آپ پر
شکوہ کروں میں کیا دل نرگس پرست سے
گریہ کی سلطنت مجھے دے گی شکست کیا
چھینی ہے میں نے زندگی پانی کے تخت سے
حرف دعا پہ گوش بر آواز ہو وہ کیوں
دل سے کلام ہوتا ہے مستوں کے مست سے
حمد و ثنا سخن کا نہیں دل کا ہے ریاض
کیسے ثنا کروں میں دل لخت لخت سے
اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے
ریختہ میں تو خدا جانے کیا کچھ شامل ہے 🙂
اگر اساتذہ کو سند کا درجہ نہ بھی دیں کم سے کم مشاہیرِ فن سے ہی کوئی مثال ڈھونڈ لیں۔
 
ریختہ میں تو خدا جانے کیا کچھ شامل ہے 🙂
اگر اساتذہ کو سند کا درجہ نہ بھی دیں کم سے کم مشاہیرِ فن سے ہی کوئی مثال ڈھونڈ لیں۔
آپ بالکل دُرست فرمارہے ہیں عبدالرؤف بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔باقی محفل کے اساتذۂ کرام واقعی اتھارٹی ہیں اللہ تعالیٰ ان کا سایۂ شفقت ہم طلباء پر تادیر قائم رکھے ، آمین۔
 
اگر خورشید صاحب کی غزل کے قافیے مطابقِ ضابطہ ہیں تو پھر احمد فقیہ کی یہ غزل بھی خلافِ ضابطہ نہ ہوگی۔ریختہ سے کاپی پیسٹ کی گئی ہے۔اور لنک یہ ہے:
اØÙد ÙÙÛÛ - غزÙ
چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
چھاؤں ملی نہ مجھ کو دعا کے درخت سے
بیٹھا تھا میں حصار فلک میں زمین پر
دشمن نے فتح کھینچ لی میری شکست سے
میں بھی تو تھا فریفتہ خود اپنے آپ پر
شکوہ کروں میں کیا دل نرگس پرست سے
گریہ کی سلطنت مجھے دے گی شکست کیا
چھینی ہے میں نے زندگی پانی کے تخت سے
حرف دعا پہ گوش بر آواز ہو وہ کیوں
دل سے کلام ہوتا ہے مستوں کے مست سے
حمد و ثنا سخن کا نہیں دل کا ہے ریاض
کیسے ثنا کروں میں دل لخت لخت سے
اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے
تجریدی غزل کی اچھی مثال ہے ... بلکہ اگر مکرمی و مرشدی سرور عالم راز صاحب کی اصطلاح استعمال کروں تو نہایت عمدہ گجل ہے :)
 

عظیم

محفلین
میرے خیال میں بھی قوافی غلط ہی ہیں، لخت بخت سخت قوافی کے ساتھ کچھ اشعار اور کہہ کر غزل مکمل کر لی جائے تو ایک اچھی غزل ہو سکتی ہے
انتہائے بندگی تھی جب خلیل اللہ نے
امرِ ربی پر لٹایا تھا جگر کے لخت کو
۔یہاں 'امر ربی' کی جگہ 'حکم ربی' مجھے زیادہ بہتر لگتا ہے
دوسرے شعر کا پہلا مصرع عدم روانی کا شکار ہے، 'ربط سمجھایا غنا کا تھا' کا ٹکڑا بطور خاص
مزید یہ کہ آمد و رفت کا اس طرح استعمال بھی درست معلوم نہیں ہوتا، شکاری اور آمد و رفت والے اشعار غزل کا حصہ تو نہیں ہو سکتے اگر لخت وغیرہ قوافی کی غزل کہی جائے مگر پھر بھی ہرن والے شعر میں بھی وضاحت کی کمی لگتی ہے، ہرن دیکھ رہی تھی دشت کو یا شکاری یہ بات بہت صاف نہیں ہے

جیت پایا ہی نہیں اُس کا بھروسہ آج تک
وہ لگا کر داؤ پر بھی زندگی کے رخت کو
۔۔'وہ' عجیب طرح کا استعمال لگتا ہے، ظاہر بھی نہیں ہوتا کہ کون، اگر خفیہ ہی رکھنا مقصود ہو تو 'کوئی' لایا جانا چاہیے،
 
میرے خیال میں بھی قوافی غلط ہی ہیں، لخت بخت سخت قوافی کے ساتھ کچھ اشعار اور کہہ کر غزل مکمل کر لی جائے تو ایک اچھی غزل ہو سکتی ہے
عظیم صاحب شکریہ ! حال ہی میں مختلف شاعروں کے کلام کی اصلاح کے دوران قوافی کے حوالے سے جو بحث ہوئی ہے میرے خیال میں اس غزل کے قوافی ان اصولوں پر پورے اترتے ہیں جو وہاں بیان کیے گئے۔ اس لیے مزید وضاحت درکار ہے۔
انتہائے بندگی تھی جب خلیل اللہ نے
امرِ ربی پر لٹایا تھا جگر کے لخت کو
۔یہاں 'امر ربی' کی جگہ 'حکم ربی' مجھے زیادہ بہتر لگتا ہے
حکم سے تنافر ختم ہو جائے گا اس لیے بہتر ہے۔
ربط سمجھایا غنا کا تھا سکونِ قلب سے
ایک فاقہ مست نے ٹھکرا کے تاج و تخت کو
دوسرے شعر کا پہلا مصرع عدم روانی کا شکار ہے، 'ربط سمجھایا غنا کا تھا' کا ٹکڑا بطور خاص
غنا کا ہے کردیں تو کیسا رہے گا؟
چار دیواری گرادی گھر کے ہی لوگوں نے جب
کون روکے گا بھلا غیروں کی آمد رفت کو
مزید یہ کہ آمد و رفت کا اس طرح استعمال بھی درست معلوم نہیں ہوتا،
مزید وضاحت درکار ہے۔
جب شکاری شہر کی جانب ہرن لے کر چلے
آنکھ میں حسرت لیے دیکھا تھا اُس نے دشت کو
شکاری اور آمد و رفت والے اشعار غزل کا حصہ تو نہیں ہو سکتے اگر لخت وغیرہ قوافی کی غزل کہی جائے مگر پھر بھی ہرن والے شعر میں بھی وضاحت کی کمی لگتی ہے، ہرن دیکھ رہی تھی دشت کو یا شکاری یہ بات بہت صاف نہیں ہے
جب پہلے مصرعے میں لے کر چلے آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ شکاری جمع کے صیغہ میں استعمال ہوا ہے۔ تو پھر دوسرے مصرعہ میں اُس ظاہر ہے ہرن کے لیے استعمال ہواہے۔
جیت پایا ہی نہیں اُس کا بھروسہ آج تک
وہ لگا کر داؤ پر بھی زندگی کے رخت کو
۔۔'وہ' عجیب طرح کا استعمال لگتا ہے، ظاہر بھی نہیں ہوتا کہ کون، اگر خفیہ ہی رکھنا مقصود ہو تو 'کوئی' لایا جانا چاہیے،
وہ کی بجائے میں لگادیا جائے تو؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
قافیے کا مجھے تو ایک ہی اصول معلوم ہے کہ بخت ہے تو تخت اور رخت تو قافیہ آسکتے ہیں، دشت نہیں آسکتا کیونکہ اس میں خ اور ت نہیں ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر زیر زبر کا فرق پایا جائے، تب بھی ایک لفظ دوسرے کا قافیہ نہیں بنتا۔ مزید روشنی ڈالنے کیلئے مزمل شیخ بسمل رہنمائی کرسکتے ہیں، لیکن انہوں نے شاید یہاں آنا چھوڑ دیا۔
میری رائے میں ۔۔۔
آہ بھرکے یاد کرنا کیا سہانے وقت کو
اپنی ہی ناکامیوں کا دوش کیا دیں بخت کو
۔۔۔ درست۔/۔۔
انتہائے بندگی تھی جب خلیل اللہ نے
امرِ ربی پر لٹایا تھا جگر کے لخت کو
۔۔۔ لختِ جگر ۔۔۔ ایک ترکیب ہے، جگر کا لخت کے طور پر کبھی استعمال ہوتے نہیں دیکھی ۔۔۔ حالانکہ مطلب وہی ہے۔۔۔ لیکن مجھے مناسب نہیں لگتا۔
ربط سمجھایا غنا کا تھا سکونِ قلب سے
ایک فاقہ مست نے ٹھکرا کے تاج و تخت کو
۔۔۔ درست۔۔۔حالانکہ پہلا مصرع کچھ کچا ہے۔۔ بہتر کیا جاسکے تو اچھا رہے گا۔
تلخیِ ایام کا سورج سوا نیزے پہ ہے
سہ رہا ہوں بے اماں اُن کے رویے سخت کو
۔۔۔ دوسرے مصرعے کی زبان آج کل کی بول چال سے الگ ہے ۔۔۔ شاعری میں الفاظ کو آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے، کیا اتنا زیادہ کیا جاسکتا ہے؟
چار دیواری گرادی گھر کے ہی لوگوں نے جب
کون روکے گا بھلا غیروں کی آمد رفت کو
۔۔۔۔۔ گھر ہی کے لوگوں۔۔ زیادہ بہتر رہے گا۔۔۔ آمدو رفت کی ترکیب بھی چھیڑ دی آپ نے ۔۔۔ و غائب ہے ۔۔ اس پر بھی تحقیق چاہئے ۔۔۔
جب شکاری شہر کی جانب ہرن لے کر چلے
آنکھ میں حسرت لیے دیکھا تھا اُس نے دشت کو
۔۔۔ قافیہ غلط ہے میری رائے میں ۔۔۔ پھر بھی شعر درست ہے۔۔
جیت پایا ہی نہیں اُس کا بھروسہ آج تک
وہ لگا کر داؤ پر بھی زندگی کے رخت کو
۔۔۔ رخت بمعنی سازوسامان ۔۔۔ اس کا بھروسہ، وہ لگا کر ۔۔۔ دو دو اسمِ ضمیر بھی شعر کو کمزور کرتے ہیں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اگر خورشید صاحب کی غزل کے قافیے مطابقِ ضابطہ ہیں تو پھر احمد فقیہ کی یہ غزل بھی خلافِ ضابطہ نہ ہوگی۔ریختہ سے کاپی پیسٹ کی گئی ہے۔اور لنک یہ ہے:
اØÙد ÙÙÛÛ - غزÙ
چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
چھاؤں ملی نہ مجھ کو دعا کے درخت سے
بیٹھا تھا میں حصار فلک میں زمین پر
دشمن نے فتح کھینچ لی میری شکست سے
میں بھی تو تھا فریفتہ خود اپنے آپ پر
شکوہ کروں میں کیا دل نرگس پرست سے
گریہ کی سلطنت مجھے دے گی شکست کیا
چھینی ہے میں نے زندگی پانی کے تخت سے
حرف دعا پہ گوش بر آواز ہو وہ کیوں
دل سے کلام ہوتا ہے مستوں کے مست سے
حمد و ثنا سخن کا نہیں دل کا ہے ریاض
کیسے ثنا کروں میں دل لخت لخت سے
اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے
ریختہ تو ہر شائع شدہ تخلیق کو شامل کر دیتا ہے، چاہے وہ کسی غزل کلینڈر میں ہو جیسے یہ غزل ہے
 
جب تک قوافی درست نہ کر لیے جائیں، اس غزل کی اصلاح کی ضرورت نہیں سمجھتا
سر الف عین ،آپ نے اصلاح کی تھی ایک غزل کی جس کا مطلع تھا
تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
کسی خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں
مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کم از کم ایک شعر مزید ہو جس سکا قافیہ "تی" کے علاوہ ہو، جیسے فی الحال مطلع کا "بیٹھی" ہے۔ ورنہ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پوری غزل میں کسی عروضی نے اعتراض کیا کہ قا فیہ غلط ہے، تو جلدی سے مطلع میں ایک قافیہ مختلف کر دیا تاکہ یہ اعتراض نہ رہے (یہ آپ نے لکھا تھا کیونکہ اس غزل میں صرف مطلع کے پہلے شعر میں بیٹھی رہتی ہوں استعمال ہوا تھا باقی سب اشعار میں تی رہتی ہوں استعمال کیا گیا تھا)
اس غزل میں قوافی ہیں بیٹھی اور بنتی یعنی صرف ی قافیہ ہے
اس لحاظ سے میری غزل میں ت قافیہ ہے
تو پھر غلطی کہاں پر ہے؟ اگر نشاندہی ہوجائے تو ممنون ہوں گا۔
 
آخری تدوین:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر
سر ظہیر احمد ظہیر نے ایک غزل پر اصلاح دیتے ہوئے لکھا تھا:
1۔ غزل میں قافیہ کا تعین مطلع میں استعمال ہونے والے دو قوافی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مثلاً مطلع میں اگر دعا اور صبا کے قوافی ہوں تو بقیہ غزل میں فضا ، قضا ، مزا ، کہا ، سُنا ، لکھا ، شفا ، ذرا وغیرہ درست قوافی ہوں گے ۔
۲۔ لیکن اگر مطلع میں دونوں قوافی "فعل" ہوں تو پھر معاملہ ذرا مختلف ہوجاتا ہے ۔
فعل کے صیغۂ امر کو فعل کا مصدر مانا جاتا ہے ۔ یعنی مصدر وہ بنیادی لفظ ہوتا ہے کہ جس کے آگے حروف کا اضافہ کرکے فعل کے دیگر صیغے بنائے جاتے ہیں۔ "لکھ" ایک مصدر ہے ۔ اس مصدر سے لکھا ، لکھی ، لکھو ، لکھتا ، لکھتی ، لکھتے ، لکھیں ، لکھوں ، لکھنا وغیرہ کے الفاظ بنائے گئے ۔ اسی طرح "چل" کے مصدر سے چلا ، چلتا ، چلتی ، چلئے ، چلو، چلیں وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ ان تمام الفاظ کی ابتدا میں "لکھ" اور "چل" مشترک ہے اور اس مصدر کے آگے زائد حروف لگا کر مختلف صیغے بنادیئے گئے ہیں ۔
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خورشید بھائی، جن قوافی میں آخری حرف سے پہلے والے حرف پر سکون/ جزم ہو گی تو سکون والا حرف بھی کوئی ایک ہی ہو گا جیسا کہ آپ کے معاملے میں "خ" ہے۔ اور "خ" سے پہلے والے حرف کی حرکت بھی ایک ہی ہونی چاہیے تمام قافیوں میں۔
 
اس لحاظ سے میری غزل میں ت قافیہ ہے
تو پھر غلطی کہاں پر ہے؟ اگر نشاندہی ہوجائے تو ممنون ہوں گا۔
حرف روی سے پہلے کاحرف اگر ساکن ہو تو اس کا قافیہ میں دہرایا جانا ضروری ہوتا ہے... سخت لخت بخت میں خ ساکن ہے اس لیے ہر قافیہ میں خت آنا ضروری ہے.
استاد محترم کے جس مراسلے کا آپ نے حوالہ دیا، وہاں زیر بحث غزل کے قوافی بیٹھی اور بُنتی تھے جہاں ی روی ہے اور اس سے ماقبل حروف متحرک ہیں. اگرچہ یہاں بھی افعال کے باب میں اصلا یہ اعتراض بنتا ہے کہ دونوں کے صیعہ امر ہم صوت نہیں، لیکن یہ دوسری بحث ہے. افعال کے بارے میں اصل اصول یہی ہے کہ ان کے صیغہ امر کو بھی ہم صوت ہونا چاہیے ... جیسے سُننا اور بُننا تو قافیہ ہو سکتے ہیں کیونکہ سن اور بن ہم صوت ہیں، لیکن سننا اور بیٹھا نہیں ہو سکتے ...
 

الف عین

لائبریرین
میں پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ حرف روی والا اصول مجھے سمجھ میں نہیں آتا، یعنی یہ کہ اس کے بغیر بھی بننے والے الفاظ با معنی ہوں۔ میں تو اپنی جگہ فسانا اور بنانا کوبھی جایز سمجھتا ہوں، بنیادی بات مانتا ہوں وہی جو اوپر روفی نے لکھی ہے
 
میں پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ حرف روی والا اصول مجھے سمجھ میں نہیں آتا، یعنی یہ کہ اس کے بغیر بھی بننے والے الفاظ با معنی ہوں۔ میں تو اپنی جگہ فسانا اور بنانا کوبھی جایز سمجھتا ہوں، بنیادی بات مانتا ہوں وہی جو اوپر روفی نے لکھی ہے
تو پھر مبتدی اتنی تکنیکی گہرائیوں میں کیو ں جائے البتہ علمی مباحث سے صرفِ نظر نہ کرے۔
 
میں پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ حرف روی والا اصول مجھے سمجھ میں نہیں آتا، یعنی یہ کہ اس کے بغیر بھی بننے والے الفاظ با معنی ہوں۔ میں تو اپنی جگہ فسانا اور بنانا کوبھی جایز سمجھتا ہوں، بنیادی بات مانتا ہوں وہی جو اوپر روفی نے لکھی ہے
سر الف عین ،پھرادب اور احترام کے ساتھ
چونکہ فسانہ (فسانا) غیر فعل ہے اور بنانا فعل ہے اس لیے یہ قوافی درست ہیں۔ لیکن بیٹھنا اور بُننا دونوں افعال ہیں اور ان کے اوامر بیٹھ اور بُن ہیں اس لیے اصول کے مطابق یہ قوافی نہیں ہیں۔
تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
کسی خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں
حرف روی سے پہلے کاحرف اگر ساکن ہو تو اس کا قافیہ میں دہرایا جانا ضروری ہوتا ہے... سخت لخت بخت میں خ ساکن ہے اس لیے ہر قافیہ میں خت آنا ضروری ہے.
استاد محترم کے جس مراسلے کا آپ نے حوالہ دیا، وہاں زیر بحث غزل کے قوافی بیٹھی اور بُنتی تھے جہاں ی روی ہے اور اس سے ماقبل حروف متحرک ہیں. اگرچہ یہاں بھی افعال کے باب میں اصلا یہ اعتراض بنتا ہے کہ دونوں کے صیعہ امر ہم صوت نہیں، لیکن یہ دوسری بحث ہے. افعال کے بارے میں اصل اصول یہی ہے کہ ان کے صیغہ امر کو بھی ہم صوت ہونا چاہیے ... جیسے سُننا اور بُننا تو قافیہ ہو سکتے ہیں کیونکہ سن اور بن ہم صوت ہیں، لیکن سننا اور بیٹھا نہیں ہو سکتے ...

خورشید بھائی، جن قوافی میں آخری حرف سے پہلے والے حرف پر سکون/ جزم ہو گی تو سکون والا حرف بھی کوئی ایک ہی ہو گا جیسا کہ آپ کے معاملے میں "خ" ہے۔ اور "خ" سے پہلے والے حرف کی حرکت بھی ایک ہی ہونی چاہیے تمام قافیوں میں۔
میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ قوافی میرے سابقہ علم کے مطابق مجھے درست لگتے ہیں ۔ چونکہ میں اس اصول سے واقف نہیں تھا اس لیے آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے موقف سے رجوع کرتا ہوں۔ ا
 
Top