غزل ۔ از آسی انصاری

کل نہیں سنبھلتا تھا جن سے ایک پیمانہ

آج ان کے ہاتھوں میں ہے نظامِ میخانہ

تھا جو کل تلک میرا اب ہوا وہ بیگانہ

لٹ گئی مری دنیا بن گیا میں افسانہ

وقت کی بہاروں میں کھو کے اس قدر بھولے

جب خزاں کا دور آیا تب انھوں نے پہچانا

رہ پہ عشق کی چل کر ہم کہاں پہ آپہنچے

نہ ہے یاں کوئی اپنا نہ ہی کوئی بیگانہ

درمیانِ الفت یہ جو کھڑی ہیں دیواریں

توڑ کر انہیں اکدن جا ملے گا دیوانہ

آ تجھے چھپا لوں میں آشیانۂ دل میں

کون جانے کل کیا ہو آج دن ہے مستانہ

پیار سے جو مانگے تو کردوں آرزو پوری

عشق کا دھنی ہوں میں دے دوں دل کا نذرانہ

گِھر گیا بلاؤں میں آج ہر طرف سے میں

بجلیوں کی ذد میں ہے آج میرا کاشانہ

موت یہ مری مجھکو کس جگہ پہ لے آئی

ہر طرف ہے خاموشی ہر طرف ہے ویرانہ

زندگی سے بہتر ہے موت کا مزہ آسؔی

ظلم کی غلامی سے خوب تر ہے مرجانا

یہ ستم نہیں تو پھر اور کیا ہے اے آسؔی

ایک سمت شمّع ہے ایک سمت پروانہ
 

الف عین

لائبریرین
ے ہو گئے۔بحر و اوزان کی خامیاں بہت کم ہیں، اور یہ بڑی بات ہے۔ لیکن یہ بھی اچھی بات نہیں ہے کہ ہزار بار کہے گئے گھسے پٹے خیالات کو دوبارہ باندھنا۔ خیالات میں نزاکت پیدا کریں۔ اس کے لیے اچھے اشعار کا مطالعہ سود مند ہو گا۔
بڑی بڑی غلطیاں۔۔
رہ پہ عشق کی چل کر ہم کہاں پہ آپہنچے

نہ ہے یاں کوئی اپنا نہ ہی کوئی بیگانہ
÷÷’نہ‘ بطور ’نا‘ کم از کم مجھے قبول نہیں۔ یاں واں بھی متروک الفاظ ہیں۔

درمیانِ الفت یہ جو کھڑی ہیں دیواریں

توڑ کر انہیں اکدن جا ملے گا دیوانہ
÷÷واضح نہیں، کس کو جا کر ملے گا دیوانہ؟

آ تجھے چھپا لوں میں آشیانۂ دل میں

کون جانے کل کیا ہو آج دن ہے مستانہ
÷÷ یہ دن مستانہ کیسے ہو گئے۔ شاید بالی ووڈ کے گیتوں کا اثر پڑ گیا۔

پیار سے جو مانگے تو کردوں آرزو پوری
عشق کا دھنی ہوں میں دے دوں دل کا نذرانہ

÷÷ عاشقوں کا اپنا دل تو ہمیشہ محبوب کے پاس ہوتا ہے۔
 
Top