غزل ۔مثمن سالم مقطوع: فاعلن فاعلن فاعلن فعلن

نوید ناظم

محفلین
ہم تڑپیں اور وہ کوئی دوا نہ کرے
ایسا بھی ہو جہاں میں خدا نہ کرے

گھر کے دروازے تو بند سے پڑے ہیں
آو ملنے تو کوئی مِلا نہ کرے

جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر
ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نہ کرے

دل بڑا چپ ہے پر اتنا بھی نہیں جو
تیرے کوچے سے گزرے' صدا نہ کرے

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سِوا کچھ عطا نہ کرے

دل وہ مِلا ہے اُس کو نوید کہ اُف
مرتا دیکھے اگر تو دعا نہ کرے
 
آخری تدوین:
نوید بھائی، مثمن سالم مقطوع کسی بحر کا نام نہیں ہے۔ مثمن ہر ہشت رکنی بحر کو کہتے ہیں۔ جبکہ سالم اس بحر کو کہا جاتا ہے جس پر کسی زحاف کا عمل نہ ہوا ہو مگر آپ نے تو قطع نامی زحاف کا ذکر کیا ہے۔ جو افاعیل آپ نے گنوائے ہیں وہ متدارک کے ہیں اور متدارک مثمن مقطوع کے ارکان بہرحال یہی بنتے ہیں جو آپ نے عنوان میں تحریر فرمائے ہیں۔ متدارک مثمن سالم کی صورت فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ہے۔
جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو وہ تقطیع میں اکثر جگہوں پر ناقص ہے۔ نیز آپ نے عروض و ضرب میں "فعلن" کو "فَعِلُن" قیاس کیا ہے جو متدارک میں مقطوع کی نہیں بلکہ مخبون الآخر کی صورت ہے۔ خیر، یہ تو بعد کی بحثیں ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو تقطیع کی مشق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ شعر کی موزونیت اور ناموزونیت میں کماحقہ فرق کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
 

نوید ناظم

محفلین
نوید بھائی، مثمن سالم مقطوع کسی بحر کا نام نہیں ہے۔ مثمن ہر ہشت رکنی بحر کو کہتے ہیں۔ جبکہ سالم اس بحر کو کہا جاتا ہے جس پر کسی زحاف کا عمل نہ ہوا ہو مگر آپ نے تو قطع نامی زحاف کا ذکر کیا ہے۔ جو افاعیل آپ نے گنوائے ہیں وہ متدارک کے ہیں اور متدارک مثمن مقطوع کے ارکان بہرحال یہی بنتے ہیں جو آپ نے عنوان میں تحریر فرمائے ہیں۔ متدارک مثمن سالم کی صورت فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ہے۔
جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو وہ تقطیع میں اکثر جگہوں پر ناقص ہے۔ نیز آپ نے عروض و ضرب میں "فعلن" کو "فَعِلُن" قیاس کیا ہے جو متدارک میں مقطوع کی نہیں بلکہ مخبون الآخر کی صورت ہے۔ خیر، یہ تو بعد کی بحثیں ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو تقطیع کی مشق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ شعر کی موزونیت اور ناموزونیت میں کماحقہ فرق کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بہت شکریہ سر ! اپنی کم علمی پر نادم ہوں... ایک گزارش ہے کہ اگرآپ کچھ جگہوں کی نشاندہی فرما دیں جہاں پر تقطیع ناقص ہوئی تو اس سے مجھے مشق کرنے میں آسانی رہے گی اور بیان شدہ خامیوں کو دہرانے سے گریز کرنا بھی کسی قدرآسان ہو جائے گا. بے حد ممنون ہوں آپ نے میری مدد فرمائی' خدا آپ کی مدد فرمائے !
 

نوید ناظم

محفلین
نوید بھائی، مثمن سالم مقطوع کسی بحر کا نام نہیں ہے۔ مثمن ہر ہشت رکنی بحر کو کہتے ہیں۔ جبکہ سالم اس بحر کو کہا جاتا ہے جس پر کسی زحاف کا عمل نہ ہوا ہو مگر آپ نے تو قطع نامی زحاف کا ذکر کیا ہے۔ جو افاعیل آپ نے گنوائے ہیں وہ متدارک کے ہیں اور متدارک مثمن مقطوع کے ارکان بہرحال یہی بنتے ہیں جو آپ نے عنوان میں تحریر فرمائے ہیں۔ متدارک مثمن سالم کی صورت فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ہے۔
جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو وہ تقطیع میں اکثر جگہوں پر ناقص ہے۔ نیز آپ نے عروض و ضرب میں "فعلن" کو "فَعِلُن" قیاس کیا ہے جو متدارک میں مقطوع کی نہیں بلکہ مخبون الآخر کی صورت ہے۔ خیر، یہ تو بعد کی بحثیں ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو تقطیع کی مشق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ شعر کی موزونیت اور ناموزونیت میں کماحقہ فرق کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ایک عرض اور تھی امید ہے آپ اس پر اپنی رائے سے نوازیں گے... محترم مزمل شیخ بسمل صاحب نے '' اردو میں مستعمل اور مانوس بحور کے ضمن میں جو فرمایا وہ یوں ہے (فاعلن فاعلن فاعلن فعلن) گو کہ یہ وزن کوئی مشہور یا مستعمل نہیں ہے لیکن اس لیے عرض کردیا کہ یہ ایسا نا مطبوع بھی نہیں اگر کوئی استعمال کرنا چاہے تو شوق سے کرے۔) '' سر یہاں پرایک اوربات ذہین میں یہ بھی آتی ہے کہ اگر فعلن کواستعمال کیا جا سکتا ہے تو فَعِلن کو استعمال کس وجہ سے نہیں کیا جاتا.... یہ سوالات میرے ذہین میں آئے اور پوچھ لیے امید ہے آپ اس کو میری گستاخی شمار نہیں کریں گے کہ کچھ بھی سیکھنے کا زینہ " سوال" ہی ہوا کرتا ہے.
 
بہت شکریہ سر ! اپنی کم علمی پر نادم ہوں...
شرمندہ مت کیجیے۔
ایک گزارش ہے کہ اگرآپ کچھ جگہوں کی نشاندہی فرما دیں جہاں پر تقطیع ناقص ہوئی تو اس سے مجھے مشق کرنے میں آسانی رہے گی اور بیان شدہ خامیوں کو دہرانے سے گریز کرنا بھی کسی قدرآسان ہو جائے گا.
حاضر۔ حسبِ ارشاد:
ہم تڑپیں اور وہ کوئی دوا نہ کرے
ہم تڑپیں کا ٹکڑا "فاعلن" پر پورا نہیں اترتا۔
دل وہ مِلا ہے اُس کو نوید کہ اُف
یہ مصرع کاملاً خارج از بحر ہے۔
باقی تمام مصرعوں میں وہی غلطی ہے کہ فعلن کو فَعَلُن قیاس کیا گیا ہے جو کم از کم اس بحر میں روا نہیں۔
محترم مزمل شیخ بسمل صاحب نے '' اردو میں مستعمل اور مانوس بحور کے ضمن میں جو فرمایا وہ یوں ہے (فاعلن فاعلن فاعلن فعلن) گو کہ یہ وزن کوئی مشہور یا مستعمل نہیں ہے لیکن اس لیے عرض کردیا کہ یہ ایسا نا مطبوع بھی نہیں اگر کوئی استعمال کرنا چاہے تو شوق سے کرے۔)
یہ موصوف نے ایک اور بحر کے بارے میں فرمایا ہے:
vi۔ مربع مخلع مضاعف: فاعلن فعَل فاعلن فعَل
(گو کہ یہ وزن کوئی مشہور یا مستعمل نہیں ہے لیکن اس لیے عرض کردیا کہ یہ ایسا نا مطبوع بھی نہیں اگر کوئی استعمال کرنا چاہے تو شوق سے کرے۔)
آپ نے جو بحر استعمال کی ہے وہ یہ ہے:
iv۔ مثمن سالم مقطوع: فاعلن فاعلن فاعلن فعلن
ویسے میری یادداشت میں اس بحر میں کوئی معروف غزل نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ وزن قدما کے استعمال میں رہا ہو۔
سر یہاں پرایک اوربات ذہین میں یہ بھی آتی ہے کہ اگر فعلن کواستعمال کیا جا سکتا ہے تو فَعِلن کو استعمال کس وجہ سے نہیں کیا جاتا....
بعض بحور میں اس کی اجازت ہے، نوید بھائی۔ مگر زیرِ بحث وزن اس ذیل میں نہیں آتا۔ توجیہات دو طرح کی ہو سکتی ہیں۔ ایک تو زحافات کے لحاظ سے جو نہایت تکنیکی معاملہ ہے اور بالفعل آپ کے لیے ان بحثوں میں پڑنا مفید نہیں۔ دوسری آہنگ کے لحاظ سے سو یہ آپ پر وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو جائے گا۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ بعض بحور میں فعلن اور فَعَلُن ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں جبکہ بعض میں ان کا اجتماع سماعت پر گراں گزرتا ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
شرمندہ مت کیجیے۔

حاضر۔ حسبِ ارشاد:

ہم تڑپیں کا ٹکڑا "فاعلن" پر پورا نہیں اترتا۔

یہ مصرع کاملاً خارج از بحر ہے۔
باقی تمام مصرعوں میں وہی غلطی ہے کہ فعلن کو فَعَلُن قیاس کیا گیا ہے جو کم از کم اس بحر میں روا نہیں۔

یہ موصوف نے ایک اور بحر کے بارے میں فرمایا ہے:

آپ نے جو بحر استعمال کی ہے وہ یہ ہے:

ویسے میری یادداشت میں اس بحر میں کوئی معروف غزل نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ وزن قدما کے استعمال میں رہا ہو۔

بعض بحور میں اس کی اجازت ہے، نوید بھائی۔ مگر زیرِ بحث وزن اس ذیل میں نہیں آتا۔ توجیہات دو طرح کی ہو سکتی ہیں۔ ایک تو زحافات کے لحاظ سے جو نہایت تکنیکی معاملہ ہے اور بالفعل آپ کے لیے ان بحثوں میں پڑنا مفید نہیں۔ دوسری آہنگ کے لحاظ سے سو یہ آپ پر وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو جائے گا۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ بعض بحور میں فعلن اور فَعَلُن ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں جبکہ بعض میں ان کا اجتماع سماعت پر گراں گزرتا ہے۔

ماشااللہ۔۔۔ خوبصورت وضاحت فرمائی آپ نے۔۔۔۔ بیان شدہ باتوں سے بہت سارے ذہنی الجھاو دور ہوئے اورسیکھنے کوملا۔۔۔ بہت ممنون ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں پھر وہی کہوں گا کہ مانوس بحروں میں طبع آزمائی کریں۔ ’پہلوانِ سخن‘ بننے کی کوشش نہ کریں۔
 

نوید ناظم

محفلین
میں پھر وہی کہوں گا کہ مانوس بحروں میں طبع آزمائی کریں۔ ’پہلوانِ سخن‘ بننے کی کوشش نہ کریں۔
سر' اس جہالت پرشرمندہ ہوں ۔۔۔ یہ محض لا علمی کی وجہ سے تھا۔۔۔۔ ابھی ایک پوسٹ پرریحان صاحب نے مانوس بحور سے روشناس کروایا۔۔۔ اب کوئی کوشش ان بحور کے علاوہ نہ ہو گی۔۔۔۔ آپ اس غلطی کو معاف فرما دیں کہ آپ کی سخاوت سے دل قرار میں آ جائے گا۔
 
مستعمل بحور کی فہرست میں بحر کا اصل نام ہیڈنگ میں، اور اس میں صادر ہونے والے زحافات کو ترتیب سے اوزان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مثمن مقطوع لکھا ہے تو فہرست میں وہ متدارک کے ذیل میں آرہے ہیں۔ یعنی بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مقطوع بنتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین

نوید ناظم

محفلین
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
آفریں آفریں آفریں آفریں

جاوید اختر کا کلام جسے نصرت فتح علی نے گایا بھی ہے۔
جی یہ کلام تو فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کے وزن پر لگ رہا ہے۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو شاید یہ مثمن سالم (بحرمتدارک) ہو گی...واللہ عالم!
 
جی اسی وزن پر ہے۔

بحور کے نام ہمیں نہیں آتے۔ :)
فیض کی مشہور غزل بھی اسی بحر میں ہے:
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر"
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر

اس کے علاوہ ایک انڈین گانا:
// ایک دن آپ یوں ہم کو مل جائیں گے
پھول ہی پھول راہوں میں کھل جائیں گے//
اسی رکن کی تکرار ہے.
لیکن لڑی میں آخری رکن فعلن کے ساتھ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
فیض کی مشہور غزل بھی اسی بحر میں ہے:
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر"
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر

اس کے علاوہ ایک انڈین گانا:
// ایک دن آپ یوں ہم کو مل جائیں گے
پھول ہی پھول راہوں میں کھل جائیں گے//
اسی رکن کی تکرار ہے.

خوبصورت غزل ہے اور گیت بھی بہت پیارا ہے۔

لیکن لڑی میں آخری رکن فعلن کے ساتھ ہے۔

یہ ہم نے اب دیکھا۔ :)
 
Top