غزل- یہ میرے آگے ہیں شمر وُہ میرے پیچھے ہیں یزید

مقبول

محفلین
تیرے تبسم کو سبھی دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
اور نقشِ پا کی خاک کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
بس بندوبست تھا ایک میرے باندھ لینے کے لیے
جس کاکلِ خمدار کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں
برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں
سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنی طرح کے لوگوں کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں
جب لُٹ گیا تو چل پڑا میں اک نئی منزل کی طرف
اُس مُلک کے حالات کو بانگِ درا سمجھا تھا میں
فرعون بھی غارت جہاں ناں بچ سکا نمرود بھی
ایسے مکانِ فانی کو دارالبقا سمجھا تھا میں
اس نے مری ہی جھونپڑی کو کر دیا جلا کے راکھ
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں
یہ میرے آگے ہیں شمر وُہ میرے پیچھے ہیں یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں
اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول اپنے دوستوں کو کیا سے کیا سمجھا تھا میں
 

مقبول

محفلین
محترم اساتذہ کرام
میری اس غزل کو انتظامیہ کی جانب سے اصلاحِ سخن زُمرہ میں منتقل کیا گیا تھا۔ آپکی رہنمائی کا منتظر تاکہ غزل کی اصلاح ہو سکے ۔ بہت شُکریہ
 
محترم اساتذہ کرام
میری اس غزل کو انتظامیہ کی جانب سے اصلاحِ سخن زُمرہ میں منتقل کیا گیا تھا۔ آپکی رہنمائی کا منتظر تاکہ غزل کی اصلاح ہو سکے ۔ بہت شُکریہ
آپ کی مزعومہ بحر کون سی تھی اس غزل کے لئے؟؟
 

مقبول

محفلین
رجز مثمن سالم

مُستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن

میں نے اس کی عروض ڈاٹ کام پر بھی جانچ کی

کوئی غلطی ہو گئی ہے تو راہنمائی فرمائیں

نوازش ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
تیرے تبسم کو سبھی دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
اور نقشِ پا کی خاک کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
.... سبھی دکھ غلط استعمال ہے، 'ہر دکھ' یا 'سبھی دکھوں' ہونا تھا۔ یہاں سبھی کی جگہ 'ہر اک' رکھیں
دوسرے مصرعے میں بھی اُر بجائے مکمل 'اور' کے اچھا نہیں۔ ویسے بھی نقش پا کی خاک بہت عجیب ہے
قدموں کی تیری دھول کو....
کر دو

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
.. ٹھیک

بس بندوبست تھا ایک میرے باندھ لینے کے لیے
جس کاکلِ خمدار کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں
اولی مصرع بحر سے خارج، بندوبست ہی وزن میں آتا ہے۔
کاکل کو ہی ادا کس طرح کہا جا سکتا ہے؟

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں
... ٹھیک

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنی طرح کے لوگوں کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں
....لوگوں کی 'وں' کا اسقاط درست نہیں
اپنی طرح ہر شخص....

جب لُٹ گیا تو چل پڑا میں اک نئی منزل کی طرف
اُس مُلک کے حالات کو بانگِ درا سمجھا تھا میں
.... حالات کو بانگ درا سمجھنا؟
پہلے مصرع میں 'طرف' کا ر ساکن نہیں جسے گرانا جائز ہو، صرف 'طر' وزن میں آتا ہے

فرعون بھی غارت جہاں ناں بچ سکا نمرود بھی
ایسے مکانِ فانی کو دارالبقا سمجھا تھا میں
.. ناں کوئی لفظ نہیں،
فانی بھی صرف فان وزن میں آتا ہے، ی کا اسقاط اچھا نہیں

اس نے مری ہی جھونپڑی کو کر دیا جلا کے راکھ
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں
... پہلا مصرع وزن سے خارج ہے
اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کر رکھ دیا
کیا جا سکتا ہے

یہ میرے آگے ہیں شمر وُہ میرے پیچھے ہیں یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں
.. شمر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
یہ میرے آگے شمر ہے....( ہیں کی جگہ ہے کا استعمال بہتر نہیں؟ )

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول اپنے دوستوں کو کیا سے کیا سمجھا تھا میں
.. کیا سے کیا سمجھنا درست محاورہ نہیں، کیا سے کیا ہونا محاورہ ہے
جانے کیا... بہتر ہو گا اس کی جگہ، باقی ٹھیک ہے
ماشاء اللہ اوزان کم و بیش درست ہیں لیکن کچھ عرصہ اس غزل کے ساتھ گزارتے تو خود ہی کچھ بہتری لا سکتے تھے
 
رجز مثمن سالم

مُستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن

میں نے اس کی عروض ڈاٹ کام پر بھی جانچ کی

کوئی غلطی ہو گئی ہے تو راہنمائی فرمائیں

نوازش ہو گی
بہت خوب ۔۔۔ اصل میں آج کل اس بحر کو خال خال ہی کوئی استعمال کرتا ہے، اس لئے دھیان نہیں رہا کہ یہ بحر بھی ہو سکتی ہے :)
 

مقبول

محفلین
تیرے تبسم کو سبھی دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
اور نقشِ پا کی خاک کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
.... سبھی دکھ غلط استعمال ہے، 'ہر دکھ' یا 'سبھی دکھوں' ہونا تھا۔ یہاں سبھی کی جگہ 'ہر اک' رکھیں
دوسرے مصرعے میں بھی اُر بجائے مکمل 'اور' کے اچھا نہیں۔ ویسے بھی نقش پا کی خاک بہت عجیب ہے
قدموں کی تیری دھول کو....
کر دو

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
.. ٹھیک

بس بندوبست تھا ایک میرے باندھ لینے کے لیے
جس کاکلِ خمدار کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں
اولی مصرع بحر سے خارج، بندوبست ہی وزن میں آتا ہے۔
کاکل کو ہی ادا کس طرح کہا جا سکتا ہے؟

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں
... ٹھیک

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنی طرح کے لوگوں کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں
....لوگوں کی 'وں' کا اسقاط درست نہیں
اپنی طرح ہر شخص....

جب لُٹ گیا تو چل پڑا میں اک نئی منزل کی طرف
اُس مُلک کے حالات کو بانگِ درا سمجھا تھا میں
.... حالات کو بانگ درا سمجھنا؟
پہلے مصرع میں 'طرف' کا ر ساکن نہیں جسے گرانا جائز ہو، صرف 'طر' وزن میں آتا ہے

فرعون بھی غارت جہاں ناں بچ سکا نمرود بھی
ایسے مکانِ فانی کو دارالبقا سمجھا تھا میں
.. ناں کوئی لفظ نہیں،
فانی بھی صرف فان وزن میں آتا ہے، ی کا اسقاط اچھا نہیں

اس نے مری ہی جھونپڑی کو کر دیا جلا کے راکھ
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں
... پہلا مصرع وزن سے خارج ہے
اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کر رکھ دیا
کیا جا سکتا ہے

یہ میرے آگے ہیں شمر وُہ میرے پیچھے ہیں یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں
.. شمر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
یہ میرے آگے شمر ہے....( ہیں کی جگہ ہے کا استعمال بہتر نہیں؟ )

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول اپنے دوستوں کو کیا سے کیا سمجھا تھا میں
.. کیا سے کیا سمجھنا درست محاورہ نہیں، کیا سے کیا ہونا محاورہ ہے
جانے کیا... بہتر ہو گا اس کی جگہ، باقی ٹھیک ہے
ماشاء اللہ اوزان کم و بیش درست ہیں لیکن کچھ عرصہ اس غزل کے ساتھ گزارتے تو خود ہی کچھ بہتری لا سکتے تھے
محترم الف عین صاحب
بہت شکریہ
میں آپ کی ہدایات کی روشنی میں اس میں بہتری لانے کی کوشش کروں گا اور دوبارہ آپ کے تجزیے کے لیے پیش کرو گا۔
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
بہت شکریہ
میں آپ کی ہدایات کی روشنی میں اس میں بہتری لانے کی کوشش کروں گا اور دوبارہ آپ کے تجزیے کے لیے پیش کرو گا۔

محترم الف عین صاحب!

کُچھ بہتری لانے کے بعد غزل آپ کی خدمت میں دوبارہ پیش کر رہا ہوں

تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں

تھا ایک بندوبست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھائے جانے کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں

منزل نئی کو چل پڑا لُوٹا گیا پورا میں جب
چوروں کی چوکیداری کو بانگِ درا سمجھا تھا میں

فرعون بھی غارت یہاں بچا نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقا سمجھا تھا میں

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں

یہ میرے آگے ہے شمر وُہ میرے پیچھے ہے یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول نکلے یار کیا اُن کو کیا سمجھا تھا میں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب!

کُچھ بہتری لانے کے بعد غزل آپ کی خدمت میں دوبارہ پیش کر رہا ہوں

تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں

تھا ایک بندوبست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھائے جانے کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں

منزل نئی کو چل پڑا لُوٹا گیا پورا میں جب
چوروں کی چوکیداری کو بانگِ درا سمجھا تھا میں

فرعون بھی غارت یہاں بچا نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقا سمجھا تھا میں

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں

یہ میرے آگے ہے شمر وُہ میرے پیچھے ہے یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول نکلے یار کیا اُن کو کیا سمجھا تھا میں

محترم الف عین صاحب

آپ کے تبصرے کی بنیاد پر یہ تصیح شُدہ غزل آپ کی نگاہِ کرم کی منتظر ہے ۔ الّلہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے
 

مقبول

محفلین
الف عین

سر، یہ غزل تصیح کے بعد آپ کی توجہ کی طالب ہے۔ شکریہ

تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں

تھا ایک بندوبست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھائے جانے کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں

منزل نئی کو چل پڑا لُوٹا گیا پورا میں جب
چوروں کی چوکیداری کو بانگِ درا سمجھا تھا میں

فرعون بھی غارت یہاں بچا نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقا سمجھا تھا میں

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں

یہ شمر آگے ہے مرے پیچھے کھڑا وہ ہے یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول نکلے یار کیا اُن کو کیا سمجھا تھا میں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
.. درست

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
.. ٹھیک

تھا ایک بندوبست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھائے جانے کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں
.. زلفیں بڑھانے کو تری.... کر دو، 'جانے کو' کی ے کا اسقاط درست نہیں

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں
.. برباد ہستی میں یا ہستی کی بربادی میں؟

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں
.. ٹھیک، لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ سانس اسی شخص نے نہیں لینے دیا جسے خدا سمجھے تھے؟ سانس بھی مؤنث ہو تو بہتر ہے

منزل نئی کو چل پڑا لُوٹا گیا پورا میں جب
چوروں کی چوکیداری کو بانگِ درا سمجھا تھا میں
.. اس کو نکال ہی دو، بیکار کا شعر ہے

فرعون بھی غارت یہاں بچا نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقا سمجھا تھا میں
... بچّا؟ وزن میں تو یوں ہی آ رہا ہے جو مطلب نہیں دیتا

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں

یہ شمر آگے ہے مرے پیچھے کھڑا وہ ہے یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول نکلے یار کیا اُن کو کیا سمجھا تھا میں
.. دوسرے مصرعے میں ایک کءا بمعنی سوالیہ what اور دوسرا کیا بمعنی Did آ رہا ہے، روانی بھی بہتر نہیں
 

مقبول

محفلین
تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
.. درست

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
.. ٹھیک

تھا ایک بندوبست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھائے جانے کو حسنِ ادا سمجھا تھا میں
.. زلفیں بڑھانے کو تری.... کر دو، 'جانے کو' کی ے کا اسقاط درست نہیں

برباد ہستی میں مِری کُچھ ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیا سمجھا تھا میں
.. برباد ہستی میں یا ہستی کی بربادی میں؟

سُکھ کا کوئی اک سانس بھی مجھ کو نہیں لینے دیا
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں
.. ٹھیک، لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ سانس اسی شخص نے نہیں لینے دیا جسے خدا سمجھے تھے؟ سانس بھی مؤنث ہو تو بہتر ہے

منزل نئی کو چل پڑا لُوٹا گیا پورا میں جب
چوروں کی چوکیداری کو بانگِ درا سمجھا تھا میں
.. اس کو نکال ہی دو، بیکار کا شعر ہے

فرعون بھی غارت یہاں بچا نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقا سمجھا تھا میں
... بچّا؟ وزن میں تو یوں ہی آ رہا ہے جو مطلب نہیں دیتا

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیا سمجھا تھا میں

یہ شمر آگے ہے مرے پیچھے کھڑا وہ ہے یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول نکلے یار کیا اُن کو کیا سمجھا تھا میں
.. دوسرے مصرعے میں ایک کءا بمعنی سوالیہ what اور دوسرا کیا بمعنی Did آ رہا ہے، روانی بھی بہتر نہیں

الف عین

سر، نظرِ ثانی کا شُکریہ

اب دیکھیے

تیرے تبسم کو ہر اک دُکھ کی دواسمجھا تھا میں
قدموں کی تیری دھول کو خاکِ شفاسمجھا تھا میں

لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماوراسمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں

تھا ایک بندوبَست میرے باندھ لینے کے لیے
زُلفیں بڑھانے کو تری حسنِ ادا سمجھا تھا میں

ہستی کی بربادی میں مِیری ہاتھ قسمت کا بھی تھا
ورنہ تو ہر اک حادثہ اپنا کیاسمجھا تھا میں

لینےنہیں دی سُکھ کی کوئی سانس بھی اس نے مجھے
اپنے ہی جیسے شخص کو جب تک خُدا سمجھا تھا میں

غارت ہوا فرعون تو باقی نہیں نمرود بھی
فانی مکاں ہے یہ جسے دارالبقاسمجھا تھا میں

اس نے تو میری جھونپڑی کو ہی جلا کے رکھ دیا
جس کو اندھیری رات میں جلتا دیاسمجھا تھا میں

یہ شمر آگے ہے مرے، پیچھے کھڑا ہے وُہ یزید
اس کربلا سے شہر کو شہرِ وفا سمجھا تھا میں

اچھا ہوا جو سازشوں میں نام اُن کا آ گیا
مقبول کیا تھے یار پر اُن کوکیاسمجھا تھا میں
یا
مقبول کیا تھے یار میرے اور کیا سمجھا تھا میں
 

الف عین

لائبریرین
غارت ہوا فرعون تو باقی نہیں نمرود بھی
رواں نہیں، تو کی وجہ سے روانی متاثر ہے
فرعون بھی غارت ہوا، باقی نہیں....
بہتر ہو گا
اور بالکل آخر میں جو مصرع لکھا ہے، وہ بہتر ہو فا مقطع میں، دوسرا متبادل تو وزن میں نہین
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 

مقبول

محفلین
غارت ہوا فرعون تو باقی نہیں نمرود بھی
رواں نہیں، تو کی وجہ سے روانی متاثر ہے
فرعون بھی غارت ہوا، باقی نہیں....
بہتر ہو گا
اور بالکل آخر میں جو مصرع لکھا ہے، وہ بہتر ہو فا مقطع میں، دوسرا متبادل تو وزن میں نہین
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں

استادِ محترم! میں سرپرستی کے لیے آپ کا ممنون ہوں ۔ بہت شُکریہ ۔ الّلہ آ پ کو بہترین صحت کے ساتھ سلامت رکھے
 
Top