غزل: یہ اور بات کہ جذبوں کی منجمد لے ہے ٭ خالد علیم

یہ اور بات کہ جذبوں کی منجمد لے ہے
زمانہ آج بھی وارفتۂ گلِ نے ہے

وہ جس کی آنچ سے جلتے تھے خواہشوں کے دیے
اب اُس شرار سے خالی مری رگ و پے ہے

سنائی دے کے بھی تجھ کو نہ کچھ سنائی دیا
تو پھر میانِ لب و حرف و صوت کیا طے ہے؟

کہیں یہ آگ لگا دے نہ تیرے سینے میں
کہ تیرے جام میں سیّال خون کی مے ہیں

نہ تجھ پہ کوئی، نہ ہے خود پہ اختیار کوئی
یہ بےبسی تو مسلسل ہمارے درپے ہے

وہ جس سے آئنے پر عکسِ رفتگاں بھی کھلے
وہ خوئے خود نِگری تجھ میں ہے کہیں اے 'ہے'

جہانِ ہفت ورق کی کتاب کھول کے دیکھ
زمیں کا صفحۂ بوسیدہ بھی کوئی شے ہے

٭٭٭
خالد علیم
 
Top