سلیم احمد غزل : یوں نہ سیکھا تھا گریز اہلِ سفر نے پہلے - سلیم احمد

غزل
یوں نہ سیکھا تھا گریز اہلِ سفر نے پہلے
قافلے آتے تھے منزل پہ ٹھہرنے پہلے

میرے اندر جو خموشی تھی وہ باہر گونجی
دلِ ویراں کی خبر دی مجھے گھر نے پہلے

کھیل طفلی میں کٹی اور تھے لیکن مجھ کو
اپنا دیوانہ کیا رقصِ شرر نے پہلے

بڑھ گئی بات تو دل کو مرے الزام نہ دے
سخن آغاز کیا تیری نظر نے پہلے

خبرِ دُوریِ منزل تو کسے تھی لیکن
حوصلہ ہار دیا اہلِ سفر نے پہلے

اب خزاں میں کسی طائر کی تمنا بھی نہیں
سائے پھیلائے بہت شاخِ شجر نے پہلے

سرفروشانِ محبت کی ادا تو دیکھو
طلبِ زیست میں نکلے ہیں یہ مرنے پہلے

نقشِ دنیا طلبی یوں نہ اُترتا تجھ میں
کر دیا موم تجھے آتشِ زر نے پہلے

ہوش منزل کو بہت بعد میں آیا ہے سلیمؔ
مجھ کو دیوانہ کیا راہ گزر نے پہلے
سلیم احمد
 
Top