غزل: یوں تو رگوں میں خون ہے، پانی نہیں کوئی

احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک غزل پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

یوں تو رگوں میں خون ہے، پانی نہیں کوئی
لیکن ہے اک جمود، روانی نہیں کوئی

خوش حال زندگی کی تمنا فضول ہے
زحمت ہمیں کبھی جو اٹھانی نہیں کوئی

ہیں زیرِ مشکلات زمانے میں اور لوگ
ہَم ہی کو جو ئے شیر بہانی نہیں کوئی

نکلا ہے کالی رات کی وحشت سے جوجھنے
جگنو كے اعتماد کا ثانی نہیں کوئی

اخلاق و ارتباط کہیں چھوڑ آئے ہَم
پُركھوں کی اپنے پاس نشانی نہیں کوئی

گندم كے ساتھ کھیت میں اگتا تھا پیار بھی
کل ہی کی ہے یہ بات، پرانی نہیں کوئی

انسان پی رہا ہے خود انسان کا لہو
ناداں، یہ ایک سچ ہے، کہانی نہیں کوئی

خوش ہیں جو واقعی وہ منائینگے شوق سے
ہَم کو تو اب كے عید منانی نہیں کوئی

عابدؔ مرے کلام پر اتنی نہ فکر کر
یہ لفظ وہ ہیں جن كے معانی نہیں کوئی

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت اچھے اشعار ۔ جگنو سے متعلق شعر بہت منفرد لگا - دوسرے شعر کى تشريح درکار ہے عابد صاحب- کچھ مطلب واضح سمجھنے ميں دشوارى ہے- شکريہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت اچھے اشعار ۔ جگنو سے متعلق شعر بہت منفرد لگا - دوسرے شعر کى تشريح درکار ہے عابد صاحب- کچھ مطلب واضح سمجھنے ميں دشوارى ہے- شکريہ
اس شعر سے مراد ہے کہ نو پین نو گین۔
یعنی جب تک ہم کوئی زحمت نہ اٹھائیں آسائش پر بھی ہمارا کوئی حق نہیں اور امید فضول ہے ۔
خوب نفیس غزل ہے عابد علوی صاحب ۔ داد قبول کیجئے ۔
 
بہت اچھے اشعار ۔ جگنو سے متعلق شعر بہت منفرد لگا - دوسرے شعر کى تشريح درکار ہے عابد صاحب- کچھ مطلب واضح سمجھنے ميں دشوارى ہے- شکريہ
بہت نوازش ، صابرہ بہن ! دوسرے شعر پر آپ كے سوال كے جواب میں پہلے تو جی چاہا کہ مقطع مکرر عرض کر دوں ، :) لیکن آپ كے سوال کا تسلّی بخش جواب نہ دینا بد اخلاقی کا ثبوت ہو گا . ویسے سید عاطف علی بھائی نے بالکل درست جواب فراہم کر دیا ہے ، تاہم اتنا اور عرض ہے کہ خوش حال زندگی حاصل کرنے كے لیے تو زحمت لازمی ہے ہی ، لیکن اگر کوئی خوش حال زندگی پلیٹ میں رکھ کر بھی دے دے تو اسے قائم رکھنے كے لیے بھی کچھ زحمت درکار ہے . :)
 
اس شعر سے مراد ہے کہ نو پین نو گین۔
یعنی جب تک ہم کوئی زحمت نہ اٹھائیں آسائش پر بھی ہمارا کوئی حق نہیں اور امید فضول ہے ۔
خوب نفیس غزل ہے عابد علوی صاحب ۔ داد قبول کیجئے ۔
عاطف بھائی ، صابرہ بہن كے لیے میری جانب سے زحمت اٹھانے کا دلی شکریہ ! :) پذیرائی كے لیے بے حد احسان مند ہوں . جزاک اللہ !
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت نوازش ، صابرہ بہن ! دوسرے شعر پر آپ كے سوال كے جواب میں پہلے تو جی چاہا کہ مقطع مکرر عرض کر دوں ، :) لیکن آپ كے سوال کا تسلّی بخش جواب نہ دینا بد اخلاقی کا ثبوت ہو گا . ویسے سید عاطف علی بھائی نے بالکل درست جواب فراہم کر دیا ہے ، تاہم اتنا اور عرض ہے کہ خوش حال زندگی حاصل کرنے كے لیے تو زحمت لازمی ہے ہی ، لیکن اگر کوئی خوش حال زندگی پلیٹ میں رکھ کر بھی دے دے تو اسے قائم رکھنے كے لیے بھی کچھ زحمت درکار ہے . :)
جی بہت شکریہ وضاحت کا ۔ اول اول تو یہی مطلب سمجھ میں آیا تھا، مگر ناقص عقل ہو تو کیا کیجیے۔ ایسے ہی کنفرم کرنے کا خیال آ گیا۔ :)
 

عاطف ملک

محفلین
گندم كے ساتھ کھیت میں اگتا تھا پیار بھی
کل ہی کی ہے یہ بات، پرانی نہیں کوئی

نکلا ہے کالی رات کی وحشت سے جوجھنے
جگنو كے اعتماد کا ثانی نہیں کوئی
یوں تو تمام اشعار ہی بہت خوب ہیں۔۔۔۔لیکن یہ بالخصوص نہایت ہی عمدہ لگے۔
داد حاضر ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم علوی صاحب
ماشاء اللہ خوب غزل ہے۔
اخلاق و ارتباط کہیں چھوڑ آئے ہَم
پُركھوں کی اپنے پاس نشانی نہیں

خوش حال زندگی کی تمنا فضول ہے
زحمت ہمیں کبھی جو اٹھانی نہیں کوئی
عمدہ ماشاء اللہ

ایک بات یہ کہوں گا کہ ردیف میں"کوئی" لفظ زائد از ضرورت محسوس ہوتا ہے اور معنویت میں اضافہ نہیں کر رہا۔غزل کے اکثر مقامات پہ اس کے بغیر بھی بات کافی و شافی ہے ،لہذا اس کے ہونے سے حشو پیدا ہو رہا ہے جس سے غزل کی خوبصورتی گہنا گئی ہے ۔خصوصا ابتدائے غزل کے مصرع میں "پانی نہیں کوئی"تو غیر فصیح بھی لگ رہا ہے۔اسے دیکھ لیں اور "کوئی" کی جگہ کوئی اور لفظ، جو معنویت میں اضافہ کر دے،سوچنے میں کوئی حرج نہیں -لفظ "جھوجھنے " کا استعمال بھی بھایا نہیں کہ لفظ خاصا ثقیل ہے ۔یہ میری رائے ہے جو کہ سند نہیں ۔
 
السلام علیکم علوی صاحب
ماشاء اللہ خوب غزل ہے۔



عمدہ ماشاء اللہ

ایک بات یہ کہوں گا کہ ردیف میں"کوئی" لفظ زائد از ضرورت محسوس ہوتا ہے اور معنویت میں اضافہ نہیں کر رہا۔غزل کے اکثر مقامات پہ اس کے بغیر بھی بات کافی و شافی ہے ،لہذا اس کے ہونے سے حشو پیدا ہو رہا ہے جس سے غزل کی خوبصورتی گہنا گئی ہے ۔خصوصا ابتدائے غزل کے مصرع میں "پانی نہیں کوئی"تو غیر فصیح بھی لگ رہا ہے۔اسے دیکھ لیں اور "کوئی" کی جگہ کوئی اور لفظ، جو معنویت میں اضافہ کر دے،سوچنے میں کوئی حرج نہیں -لفظ "جھوجھنے " کا استعمال بھی بھایا نہیں کہ لفظ خاصا ثقیل ہے ۔یہ میری رائے ہے جو کہ سند نہیں ۔
یاسر صاحب ، وعلیکم السلام ! پذیرائی اور بے باک رائے کا بہت بہت شکریہ !
لفظ ’کوئی‘ ایک وسیع المعنی لفظ ہے . فیروز اللغات میں اِس كے معانی ہیں 1 . کچھ 2 . نامعلوم شخص 3 . تقریباََ ، لگ بھگ 4 . ایک آدھ 5 . کہیں ممکن ہے 6 . ذرا ، ایک . یہ ایک کلمۂ تنکیر ہے جس کا استعمال بعض اوقات زور دینے كے لیے کیا جاتا ہے . میرے ناچیز اشعار میں یہ لفظ زیادہ تر مندرجہ بالا اَخِری معنی میں استعمال ہوا ہے ، لیکن دو ایک جگہ معنی مختلف ہیں . مثلاً مطلع كے پہلے مصرعے میں معنی # 5 ہیں ، جیسے اِس شعر میں :
رات ہے سَر پر کوئی سورج نہیں
کس لیے پِھر سائبانوں میں رہوں ( زاہد فخری )
یہاں ’کوئی‘ کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے ، لیکن ’کوئی‘ سے بات میں زور پیدا ہو رہا ہے . ایسا استعمال حشو و زوائد كے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ بیان میں حُسْن پیدا کرتا ہے .
لفظ ’جوجھنا‘ پر صرف اتنا عرض کروں گا کہ چند الفاظ کی پسند اور ناپسند ذاتی تجربے پر مبنی ہے اور اِس شعبے میں اِخْتِلاف کوئی حیرت کی بات نہیں .
ایک مرتبہ پِھر نظر عنایت اور اظہار خیال کا شکریہ !
 
Top