محمد تابش صدیقی
منتظم
یوں اپنی محبت کو پُر کیف بنانا ہے
اک بار خفا کرنا، سو بار منانا ہے
اسرارِ محبت کو اے دوست چھپانا ہے
ہے شوق بہت سادہ پُرکار زمانا ہے
جو داغِ گنہ سارے اک بار مٹا ڈالے
اے چشمِ ندامت اب وہ اشک بہانا ہے
جلووں کے تقاضے پر وہ عذرِ شباب ان کا
کیا خوب تقاضا تھا، کیا خوب بہانا ہے
افسانۂ غم ان کا کیا کہیے زمانے سے
زخم ان کی محبت کا بس ان کو دکھانا ہے
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
اک بار خفا کرنا، سو بار منانا ہے
اسرارِ محبت کو اے دوست چھپانا ہے
ہے شوق بہت سادہ پُرکار زمانا ہے
جو داغِ گنہ سارے اک بار مٹا ڈالے
اے چشمِ ندامت اب وہ اشک بہانا ہے
جلووں کے تقاضے پر وہ عذرِ شباب ان کا
کیا خوب تقاضا تھا، کیا خوب بہانا ہے
افسانۂ غم ان کا کیا کہیے زمانے سے
زخم ان کی محبت کا بس ان کو دکھانا ہے
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ