غزل: ہم اپنے آپ پہ بھی ظاہر کبھی دل کا حال نہیں کرتے * والی آسی

ہم اپنے آپ پہ بھی ظاہر کبھی دل کا حال نہیں کرتے
چپ رہتے ہیں دکھ سہتے ہیں کوئی رنج و ملال نہیں کرتے

ہم جو کچھ ہیں ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں
چہرے پہ بھبھوت نہیں ملتے کبھی کالے بال نہیں کرتے

ہم ہار گئے تم جیت گئے ہم نے کھویا تم نے پایا
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہم کوئی خیال نہیں کرتے

تیرے دیوانے ہو جاتے کہیں صحراؤں میں کھو جاتے
دیوار و در میں قید ہمیں اگر اہل و عیال نہیں کرتے

تری مرضی پر ہم راضی ہیں جو تو چاہے سو ہم چاہیں
ہم ہجر کی فکر نہیں کرتے ہم ذکرِ وصال نہیں کرتے

ہمیں تیرے سوا اس دنیا میں کسی اور سے کیا لینا دینا
ہم سب کو جواب نہیں دیتے ہم سب سے سوال نہیں کرتے

غزلوں میں ہماری بولتا ہے وہی کانوں میں رس گھولتا ہے
وہی بند کواڑ کو کھولتا ہے ہم کوئی کمال نہیں کرتے

والی آسی
 
واہ! اچھا انتخاب ہے تابش بھائی ! والی آسی صاحب کا نام پہلی دفعہ سنا ہے ۔ کیا معاصرین میں سے ہیں؟
بہت شکریہ ظہیر بھائی.
2002-03 کے اوائل میں یہ غزل ایک دبئی مشاعرہ کی سی ڈی میں سنی تھی. کالے بالوں والا شعر یاد رہ گیا.
کل یہ غزل ریختہ پر ملی تو یہاں پوسٹ کی.
شاعر سے بس یہی ایک تعارف ہے.
ریختہ پر ان کا کچھ کلام موجود ہے.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی.
2002-03 کے اوائل میں یہ غزل ایک دبئی مشاعرہ کی سی ڈی میں سنی تھی. کالے بالوں والا شعر یاد رہ گیا.
کل یہ غزل ریختہ پر ملی تو یہاں پوسٹ کی.
شاعر سے بس یہی ایک تعارف ہے.
ریختہ پر ان کا کچھ کلام موجود ہے.
بہت شکریہ تابش بھائی! وقت نکال کر ضرور دیکھون گا ۔
 
Top