محمد تابش صدیقی
منتظم
ہم اپنے آپ پہ بھی ظاہر کبھی دل کا حال نہیں کرتے
چپ رہتے ہیں دکھ سہتے ہیں کوئی رنج و ملال نہیں کرتے
ہم جو کچھ ہیں ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں
چہرے پہ بھبھوت نہیں ملتے کبھی کالے بال نہیں کرتے
ہم ہار گئے تم جیت گئے ہم نے کھویا تم نے پایا
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہم کوئی خیال نہیں کرتے
تیرے دیوانے ہو جاتے کہیں صحراؤں میں کھو جاتے
دیوار و در میں قید ہمیں اگر اہل و عیال نہیں کرتے
تری مرضی پر ہم راضی ہیں جو تو چاہے سو ہم چاہیں
ہم ہجر کی فکر نہیں کرتے ہم ذکرِ وصال نہیں کرتے
ہمیں تیرے سوا اس دنیا میں کسی اور سے کیا لینا دینا
ہم سب کو جواب نہیں دیتے ہم سب سے سوال نہیں کرتے
غزلوں میں ہماری بولتا ہے وہی کانوں میں رس گھولتا ہے
وہی بند کواڑ کو کھولتا ہے ہم کوئی کمال نہیں کرتے
والی آسی
چپ رہتے ہیں دکھ سہتے ہیں کوئی رنج و ملال نہیں کرتے
ہم جو کچھ ہیں ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں
چہرے پہ بھبھوت نہیں ملتے کبھی کالے بال نہیں کرتے
ہم ہار گئے تم جیت گئے ہم نے کھویا تم نے پایا
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہم کوئی خیال نہیں کرتے
تیرے دیوانے ہو جاتے کہیں صحراؤں میں کھو جاتے
دیوار و در میں قید ہمیں اگر اہل و عیال نہیں کرتے
تری مرضی پر ہم راضی ہیں جو تو چاہے سو ہم چاہیں
ہم ہجر کی فکر نہیں کرتے ہم ذکرِ وصال نہیں کرتے
ہمیں تیرے سوا اس دنیا میں کسی اور سے کیا لینا دینا
ہم سب کو جواب نہیں دیتے ہم سب سے سوال نہیں کرتے
غزلوں میں ہماری بولتا ہے وہی کانوں میں رس گھولتا ہے
وہی بند کواڑ کو کھولتا ہے ہم کوئی کمال نہیں کرتے
والی آسی