خورشید رضوی غزل : ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ - خورشید رضوی

غزل
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ

ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ

گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ

بتا اے زندگی یہ کون سی منزل ہے
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ

یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصر
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ

گری ہے تاک پر شاید چمن میں بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ

غزل کس بحر میں خورشیدؔ یہ لکھ ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ
خورشید رضوی
 
آخری تدوین:
Top