غزل کی اصلاح درکار ہے۔

یہ شہر خراب حالوں کا ہے
کچھ آفتوں کچھ وبالوں کا ہے
معلوم نہیں یہ بات مجھ کو
اب ہجر یہ کتنے سالوں کا ہے
کیونکر ہو عزیز مجھ کو فرقت
بس شوق مجھے وصالوں کا ہے
ہر سمت جواب کی ہے طالب
گویا یہ عدم سوالوں کا ہے
خوش شکل و خوش بدن وہ ہائے
کیسا یہ نشہ خیالوں کا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ردیف میں اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ جمع کی بجائے محض واحد میں کہیں
ھال کا ہے، وبال کا ہے
تو بہتر ہو گا۔
باقی مشورے بعد میں
 
ردیف میں اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ جمع کی بجائے محض واحد میں کہیں
ھال کا ہے، وبال کا ہے
تو بہتر ہو گا۔
باقی مشورے بعد میں

سر اس طرح میں خیال کو درست طریقے سے بیان نہیں دے پایا، جسکی وجہ سے ردیف جمع میں لایا۔ یہ میرے بالکل ابتدائی چند اشعار ہیں جو میں نے کہے ہیں۔ آپ نظر ثانی فرما لیں اور باقی مفید آراء سے بھی نواز دیں۔ اگر آپ کہیں کہ ردیف کو واحد میں لانا ناگزیر ہے، تو پھر میں دوبارہ کوشش کروں گا۔
 
Top